Advertisement

زائد یعنی سجاوٹی برتنوں پر زکاۃ کا حکم کیا ہے؟ از مولانا محمد اشفاق عالم امجدی علیمی

زائد (سجاوٹی) برتنوں پر زکاۃ کا حکم


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ان برتنوں پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے جو گھروں میں سجانے کے لیے ہوتی ہیں؟
سائل: محمد عمران علی (بلرامپور یوپی)

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک العزیز الوھاب:
صورت مسئولہ میں اگر سجانے والے برتن حاجتِ اصلیہ میں شمار ہو تو زکوٰۃ سے فارغ ہوں گے ورنہ اموالِ زکوٰۃ میں شمار ہو کر زکوٰۃ کے نصاب میں داخل و شامل ہوں گے۔
نصاب دو طرح کے ہیں ایک یہ کہ جب کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسکی قیمت کا کوئی سامان حاجت اصلیہ سے ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے جیسے مال تجارت سونا چاندی روپیہ وغیرہ، دوسرا نصاب یہ ہے کہ گاڑی کتاب، برتن، فریج وغیرہ اگر ضرورت سے زائد ہیں اور انکی قیمت نصاب کو پہونچ رہا ہے تو وہ مال زکوٰۃ نہیں لے سکتا ہے اگرچہ ان چیزوں کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، مثلاً زید کے پاس پچاس ہزار کی ٹی وی ہے،یہ حاجت اصلیہ میں نہیں ہے مگر اس پر زکوٰۃ واجب نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے زید زکوٰۃ نہیں لے سکتا، یونہی کسی کے پاس دو گاڑی ہے ایک ضرورت کے تحت دوسرا زائد تو زائد ہونے کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ نہیں اگر چہ نصاب سے زائد کی قیمت کی ہو مگر اس کے ہوتے ہوئے زید زکوٰۃ نہیں لے سکتا، یونہی برتن جو گھر میں ضرورت سے زائد ہیں اور انکی قیمت نصاب کو پہونچ رہی ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں مگر اس کے ہوتے ہوئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔  
حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ 
اہلِ علم کے لیے کتابیں حاجت اصلیہ سے ہیں اور غیر اہل کے پاس ہوں، جب بھی کتابوں  کی زکاۃ واجب نہیں  جب کہ تجارت کے لیے نہ ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ اہلِ علم کے پاس ان کتابوں  کے علاوہ اگر مال بقدر نصاب نہ ہو تو زکاۃ لینا جائز ہے اور غیر اہلِ علم کے لیے ناجائز، جب کہ دو سو درم قیمت کی ہوں۔
نیز آگے فرماتے ہیں کہ 
حافظ کے لیے قرآن مجید حاجتِ اصلیہ سے نہیں  اور غیر حافظ کے لیے ایک سے زیادہ حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ہے یعنی اگر مصحف شریف دو سو درم قیمت کا ہو تو زکاۃ لینا جائز نہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن چیزوں کا شمار حاجت اصلیہ میں ہوتا ہے اگر وہ چیزیں ضرورت سے زائد ہوں اور انکی قیمت نصاب کو پہونچ رہا ہو تو زکوۃ کا لینا جائز نہیں ہے،اور نا ہی اس پر زکوٰۃ کا دینا واجب ہوگا، خواہ وہ برتن ہو،یا گاڑی ہو،یا کتاب ہو،یا فریج وغیرہ یا اور کوئی سامان،البتہ قربانی اور صدقہ فطر واجب۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد اشفاق عالم امجدی علیمی (بچباری آبادپور کٹیہار)
بانی: امجدی مشن، المسائل بالدلائل گروپ، 7866936010

الجواب صحیح والمجیب نجیح ولہ الاجرعنداللہ تعالیٰ
مصنف کتب کثیرہ نقیب السلام مفتی صدام حسین قادری امجدی دام ظلہ الاقدس

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے