Advertisement

نماز جنازہ میں ہاتھ باندھ کر سلام پھیرے یا ہاتھ لٹکا کر؟ سنت اور افضل طریقہ کیا ہے؟ از سراج احمد القادری المصباحی

 

نماز جنازہ میں ہاتھ باندھ کر سلام پھیرے یا ہاتھ لٹکاکر؟ سنت اور افضل طریقہ کیا ہے؟


سوال:

کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ نماز جنازہ میں سلام کب پھیرنا چاہیے، ہاتھ کھول کر یا ہاتھ باندھ کر؟زید کہتا ہے کہ داہنے طرف سلام پھرتے وقت داہناہاتھ کھول دیا جائے اور جب بائیں طرف سلام پھیرے تو بایاں ہاتھ کھول دیا جائے۔۔۔۔۔سنت اور بہتر طریقہ کیا ہے؟ آپ سے امید کرتے ہیں کہ دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں گے۔

المستفتی: محمد جاوید عالم وسئی، مہاراشٹر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب:


اولاً تو یہ قاعدہ ذہن نشیں کرلیں کہ نماز کے اندر قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنا وہاں سنت ہے جہاں قیام میں مسنون ذکر ہو، اور اگر قیام کی حالت میں مسنون ذکر نہیں ہے تو ہاتھ نہ باندھنا سنت ہے۔
اب جواب دیکھیں نماز جنازہ کی چوتھی تکبیر کے بعد مسنون ذکر نہیں ہے، لہذا چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر سلام پھیرنا سنت نہیں بلکہ ہاتھ لٹکاکر سلام پھیرنا سنت ہے۔
زید نے جو کہا ہے وہ سنت کے خلاف کہا ہے، لہذا زید کو چاہیے کہ سنت طریقہ اختیار کرے اور ہاتھ کھول کر سلام پھیرے۔۔۔۔۔۔۔
دلائل ملاحظہ کریں👇
     خلاصۃ الفتاوی میں ہے :
 ”ولا یعقد بعد التکبیر الرابع لانہ لایبقی ذکر مسنون حتی یعقد فالصحیح انہ یحل الیدین ثم یسلم تسلیمتین ھکذا فی الذخیرۃ
(خلاصۃ الفتاوی ، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ کوئٹہ)
ترجمہ:اور چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ نہیں باندھے گا ، کیونکہ اب کوئی مسنون ذکر باقی نہ رہا ، جس کے لیے ہاتھ باندھے ، پس صحیح یہ ہے کہ وہ دونوں ہاتھ کھول دے گا ، پھردونوں سلام پھیرے گا ۔ اسی طرح ذخیرہ میں ہے ۔
     مجمع الانھر میں ہے :
 ”قال شمس الأئمة الحلوانی: ان كل قيام ليس فيه ذكر مسنون فالسنة فيه الارسال وكل قيام فيه ذكر مسنون فالسنة فيه الوضع وبه كان يفتی شمس الأئمة السرخسی والصدر الكبير برهان الأئمة والصدر الشهيد
(مجمع الانھر ، جلد1، صفحہ141، مطبوعہ کوئٹہ)
ترجمہ:شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا :ہروہ قیام جس میں مسنون ذکر نہیں ، اس میں ہاتھ لٹکانا سنت ہے اور ہر وہ قیام جس میں ذکر مسنون ہے ، اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے اور یہی فتویٰ شمس الائمہ سرخسی اور صدرِ کبیر برہان الائمہ اور صدرِ شہید علیهم الرحمۃ دیا کرتے تھے۔
اعلی حضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
ہاتھ باندھنا سُنّت اس قیام کی ہے جس کے لئے قرار ہو، سلام وقتِ خروج ہے اُس وقت ہاتھ باندھنے کی طرف کوئی داعی نہیں، توظاہر یہی ہے کہ تکبیر چہارم کے بعد ہاتھ چھوڑ دیاجائے۔
(فتاویٰ رضویہ ص:۱۹۴ج:،۹کتاب الجنائز،مترجم) 
صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے ایک سوال ہوا:
’’نمازِ جنازہ میں ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے یا باندھ کر یا دونوں طرح جائز ہے ؟ ‘‘ تو آپ علیہ الرحمۃ نے اس کے جواب میں ارشا د فرمایا : ” ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے۔ یہ خیال کہ تکبیرات میں ہاتھ باندھے رہنا مسنون ہے ، لہٰذا سلام کے وقت بھی ہاتھ باندھے رہنا چاہیے ، یہ خیال غلط ہے ۔ وہاں ذکر طویل مسنون موجود ہے ، اس پر قیاس،قیاس مع الفارق ہے۔“
(فتاوی امجدیہ ، جلد 1، صفحہ 317 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ:
سراج احمد القادری المصباحی
مفتی وخادم:غوثیہ دار الافتا ومدرسہ غوث الوریٰ
خطیب وامام:مسجد غوث الوریٰ ساتیولی، وسئی ایسٹ، پالگھر، مہاراشٹر
13/ صفر المظفر 1445ھ
  31/ اگست 2023ء
  دن: جمعرات
6355155781

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے