Advertisement

علامہ ارشد القادری ریلیف مشن اور ادارہ شرعیہ از محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی رام گڑھ

علامہ ارشد القادری ریلیف مشن اور ادارہ شرعیہ از محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی رام گڑھ
 

علامہ ارشد القادری __ریلیف مشن اور ادارہ شرعیہ


عرس قائد اہل سنت پر خصوصی تحریر


از قلم : محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی (رام گڑھ) 
[رکن:مجلس شوریٰ ادارۂ شرعیہ جھارکھنڈ و ڈائریکٹر:مجلس علماے جھارکھنڈ و الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ] 
7007591756 


حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے قائم کردہ مرکزی ادارۂ شرعیہ کے جہاں بہت سارے شعبے ہیں وہی ایک شعبہ "ریلیف مشن" بھی ہے ۔ 
اس مشن کا کام یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمان ناگہانی حادثے کے شکار ہوجائیں ان کی فوری مدد کے لیے پہنچنا ۔ مثلاً : کہیں مسلمان فرقہ واریت کے شکار ہوں، مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہوں، ان کے گھر مکانات، دکان وغیرہ جلا کر راکھ کردیے گئے ہوں اور وہ بے سرو سامانی کے عالم میں،کھلی آسمان کے نیچے دھوپ اور بارش میں پریشان حال ہوں، نیز کھانے، پینے اور پہننے کے کپڑے میسر نہیں ہوں. ایسے میں مرکزی ادارۂ شرعیہ پٹنہ کی جانب سے ریلیف کیمپ لگاکر راحت رسانی کا کام کرنا، اس کا اہم مقصد اور طریقۂ کار ہے ۔ 
  قدرتی طور پر ناگہانی حادثے اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی بربادیاں کس قدر اذیت ناک ہوتی ہیں، یہ ہر ذی شعور پر واضح ہے، اس موقع پر  انسان بے حد پریشان ہوتا ہے اور دوسروں کی امداد و تعاون کا منتظر رہتا ہے ۔  کئی محاذوں پر کام کرنے والی دور اندیش شخصیت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ سے ایسے نازک حالات بھی مخفی نہ تھے ۔ انھوں نے موسم آلام کے شکار مسلمانوں کی خیرخواہی کے لیے نہ صرف فوری راحت رسانی کا ذہن دیا ہے، بلکہ باضابطہ ان کی مستقل بازآباد کاری کے لیے مرکزی ادارۂ شرعیہ (پٹنہ) کے بینر تلے مسلمانوں کو” ریلیف مشن“ کا تحفہ عنایت فرمایا ہے ۔ 
حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ بنفس نفیس کئی جگہوں پر مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ سے ریلیف مشن لےکر تشریف لے گئے، اور فسادات سے متاثرین لوگوں کی مدد کی، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کام کیا ۔ 
چناں چہ راحت رسانی کے سلسلے میں جمشید پور، بھاگل پور، سہسرام، سیتامڑھی، اڈیشا، گجرات  وغیرہ کا سفر آپ اور کہیں آپ کے حکم پر حضرت علامہ غلام رسول بلیاوی صاحب نے فرمایا ہے، کسی جگہ پر حضرت مولانا قطب الدین رضوی صاحب پہنچے۔ 
قابلِ تعریف بات یہ بھی ہے کہ آپ کے وصال کے بعد بھی
 "ریلیف مشن" کا یہ کارواں، رواں دواں ہے ۔  
 آپ کے بعد بھی کئی جگہوں پر ریلیف مشن کی ٹیم پہنچی، اور بحسن و خوبی اپنے کام انجام دیے ۔ ان میں مظفرپور، سیتامڑھی وغیرہ سیلاب سے متاثرہ پورے اضلاع میں یہاں کی ٹیم پہنچی، اسی طرح کرونا وائرس میں بہت سے لوگوں کی مدد کی گئی ، متعدد علاقوں میں حضرت مولانا غلام رسول بلیاوی صاحب کے ذریعے اور رانچی کے گردونواح میں حضرت مولانا قطب الدين رضوی صاحب کے توسط سے یہ کام انجام پایا ۔ 
تری پورہ میں فساد زدگان کی مالی امداد کی گئی ۔  کئی مواقع پر تو وہاں جانے والوں کی جان خطرے میں پڑگئی تھی مگر بفضل الٰہی اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے ۔  اس کارواں کو حضرت علامہ غلام رسول بلیاوی صاحب نے حضرت مولانا قطب الدین رضوی صاحب کے ہمراہ روانہ کیا تھا ۔
2022 میں گجرات میں پہلے زلزلہ آیا اس میں مسلمانوں کا بھی جانی، مالی نقصان ہوا، اس کے لیے مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ کا ریلیف مشن کام کر رہا تھا کہ پھر اسی سال گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی ، بڑے درد ناک دور سے مسلمانوں کو گزرنا پڑا، اس موقع پر بھی حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے حکم پر غازی ملت مولانا غلام رسول بلیاوی صاحب کی پوری ٹیم ریلیف مشن کی تیاریوں میں لگ گئی . اس حوالے سے حضرت مولانا مجاہد حسین حبیبی (کولکاتا) کی معلوماتی تحریر ملاحظہ فرمائیں :
ملک میں جب بھی فرقہ وارانہ فساد ہوا علامہ فوراً میدان عمل میں اتر پڑے ، اور راحت رسانی کے لیے فوراً اقدام کیا ۔ گجرات کا حالیہ فساد بھی ان کی نگاہوں کے سامنے تھا، مگر پے در پے مہلک امراض کے سبب وہ اس قابل نہ تھے کہ اپنے سابقہ کارناموں کی طرح گجرات کے حالیہ فساد سے متاثر مظلومین کی دلجوئی میں کوئی اہم رول ادا کرتے ۔ انہیں اپنی اس مجبوری کا اس قدر احساس ہوا کہ بستر علالت پر ہونے کے باوجود اپنے قائم کردہ ادارہ شرعیہ کے مہتم مولانا غلام رسول بلیاوی کو اور راقم الحروف کو اپنی لرزتی ہوئی آواز سے بذریعہ فون یہ حکم دیا کہ فساد زدہ مظلومین کا ریلیف فنڈ فوراً اکٹھا کیا جائے ۔ (سہ ماہی رفاقت. ص: 121-جون 202)

"عرسِ قائد اہل سنت“ قریب ہے، اس مناسبت سے یہ چند سطور بستر علالت پر لکھ رہا ہوں، بلکہ یوں کہہ لیں کہ یہ حضرت رئیس القلم کا روحانی تصرف ہے کہ ناسازئ طبیعت کے باوجود کچھ لکھنے کی سعادت مل جارہی ہے ۔ بہرحال حضرت کے درج ذیل اقتباس کو اپنی نامکمل تحریر کا اختتامیہ بنا رہا ہوں، زندگی رہی تو آئندہ کسی موقع سے مکمل کی جائے گی ۔ إن شاء اللہ تعالیٰ

ان کی تحریر کا یہ اقتباس پورے اطمینان و سکون کے ساتھ پڑھیے:

"اپریل 1979ء میں جمشید پور کا وہ قیامت خیز سانحہ پیش آیا جس کی دھمک پوری دنیا میں محسوس کی گئی۔ خاک و خون کا طوفان تھم جانے کے بعد ہزاروں لٹے پٹے مظلوم مسلمانوں کی امداد و آباد کاری کا سوال کھڑا ہو گیا۔ کئی مہینے کے لیے فیض العلوم کی عمارتیں اور آس پاس کے میدان پناہ گزینوں کے کیمپ میں تبدیل ہو گئے۔
 ابھی ہماری زندگی کا کھویا ہوا قرار بھی ہمیں واپس نہیں ملا تھا اور اجڑے ہوئے لوگ اپنے گھروں میں اطمینان کا سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ فرقہ پرستوں کی سازش سے 28 /اگست 1979ء کو دوبارہ پھر فساد پھوٹ پڑا۔ اس بار بھی مدرسہ فیض العلوم کی عمارتوں اور آس پاس کے میدانوں میں کئی ہزار پناہ گزینوں کی بھیڑ جمع ہوگئی اور بہت دنوں تک پھر ہمیں میزبانی کے فرائض انجام دینے پڑے۔ (زیروز بر ص: 5، 6 ، مطبوعہ جام نور، دہلی )
دیکھیے! کس قدر وہ قوم وملت کی فلاح و بہبودی کے لیے کام کرتے تھے، سطر سطر سے ملت کا درد نمایاں ہے، کوئی دوسرا ہوتا تو وہ خود میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیتا ۔  لیکن یہ مرد درویش اس محاذ پر بھی ڈٹا رہا، اور احساسِ تنہائی کے باوجود پوری ملت کا قرض چکاگیا ۔

نیچے واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں:


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے