Advertisement

ایک نشست میں تلاوت قرآن کریم از ڈاکٹر غلام زرقانی یو ایس امریکہ

ایک نشست میں تلاوت قرآن کریم از ڈاکٹر غلام زرقانی یو ایس امریکہ 

ایک نشست میں تلاوتِ قرآن کریم

رسم کہن پر افادہ واستفادہ کے پس منظر میں غورنہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے


از: ڈاکٹر غلام زرقانی قادری، امریکہ 
 ghulamzarquani@yahoo.com
۴؍فروری ۲۰۲۳ء؁

                ہندوپاک کے مدارس اسلامیہ میں تعلیمی سال اختتام پذیر ہونے والا ہے اور اب آنے والے ایام میں جلسہ دستار بندی کی گونج ہر طرف سے سنائی دینے لگے گی ۔ ایسے حسین مواقع پر حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرنے والے نونہالان ملت اسلامیہ بھی نوازے جائیں گے۔ ظاہرہے کہ پورے قرآن کریم کو حرف بہ حرف اپنے سینوں میں محفوظ کرلینا کوئی امر سہل نہیں ، بلکہ اس کے لیے اوسطا تین چار سالوں تک شبانہ روز محنت ومشقت اور جدوجہدکرنی پڑتی ہے ، اس لیے بجاطورپر حفاظ قرآن کریم کی عزت افزائی ہونی چاہیےکہ ان میں سے ہر ایک روئے زمین پر تحفظ قرآن کی تحریک سے جڑے لاکھوں مسلمانوں کے درمیان ایک متحرک اکائی کی حیثیت سے نہایت ہی فعال ومتحرک کردار ادا کررہاہے ۔
          مجھے نہیں معلوم کہ برصغیر پاک وہند کے دینی مدارس میںحفاظ قرآن سے ایک نشست میں قرآن کریم سننے کی ابتدا کب ہوئی ، تاہم یہ خوش گمانی ضرور ہے کہ ہمارے اسلاف نے قرآن کریم کو بہتر ڈھنگ سے یاد رکھنے اور زیادہ سے زیادہ شوق ورغبت دلانے کے لیے یہ رسم شروع کی ہوگی اور پھر اس پر انعامات واعزازات سے نوازے جانے کے شوق میں طلبہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں بھی کرتے رہے ہوں گے ۔اس طرح لازمی طورپر اسے ایک محمود کوشش کے ذیل میں سمجھنا چاہیے ۔
           ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کا اعتراف بھی کرناچاہیے کہ ایک نشست میں قرآن کریم سننے سنانے کے حوالے سے منعقد ہونے والی بزموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے طلبہ ذوق وشوق کے ساتھ قرآن کریم کو باربار دہرانے کی کوشش کرتے ہیں ، جس سے ان کی یادداشت مستحکم ہوتی ہے اور ان کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتاہے ۔ اس لیے ’ایک نشست میں قرآن کریم ‘ پڑھنے کے پس پردہ مقاصد واہداف سامنے رکھنے کے بعد مجھے اس رسم معہود سے کوئی شکوہ نہیں ہے ۔
         اب آئیے ذرا ایک دوسرے زاویے سے نگاہ ڈالتے ہیں ۔دیکھیے کہنے کو تواسے ’ایک نشست‘ سے موسوم کیا جاتاہے ، لیکن عملی طورپر یہ ایک نشست میں نہیں ہوتا، بلکہ ادائے نماز ، طعام اور حوائج ضروریہ سے فراغت کے لیے کئ کئی بارطلبہ دوران تلاوت اٹھتے ہیں اور پھر جہاں پر سلسلہ تلاوت رکاتھا، وہیں سے دوبارہ شروع کردیتے ہیں ۔اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک نشست میں نہیں ، بلکہ صبح سے شام اور رات تک کئی نشستوں میں مسلسل پڑھنے کے بعد تکمیل کی منزل تک پہنچتاہے ۔گفتگو کی اس منزل پر پہنچ کر عرض کروں کہ بہ استثناء چند، اس طرح کی قرآن خوانی کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جلدی جلدی مکمل قرآن پڑھنے کی کوشش میں طلبہ بلاکی رفتار سے تلاوت کرتے ہیں اور تجوید کی رعایت کرنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتے ،بلکہ سچی بات یہ ہے کہ دور سے سننے والوں کے لیے الفاظ کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوجاتاہے ۔ یقین نہیں آتا توکسی ایسی ہی محفل میں شریک ہوکر خود ملاحظہ کرلیجیے ، یا پھر شرکاء بزم سےاستفسار کرلیجیے ۔ اور اس سے بڑھ کر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب مادر علمی میں ہی بعجلت تمام قرآن پڑھنے کی پذیرائی ہورہی ہو، توفراغت کے بعد عملی زندگی میں خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھنے کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے ؟ 
           آگے بڑھنے سے پہلے تلاوت قرآن کریم کے حوالے سے اسلامی ہدایات پر نگاہ ڈال لیجیے ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے :’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً‘‘ (مزمل )یعنی قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف اور عمدہ طریقے سے پڑھو۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح قرآن پڑھتے تھے ، توانھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر کرتے اور آہستہ آہستہ تلاوت کرتے (مسند احمد، ۲۶۷۴۲)۔اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے کئی مفسرین نے متذکرہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تلاوت فرماتے کہ اگر سننے والا حروف شمار کرنا چاہے ، توبہ آسانی کرلے ( تفسیر کشاف، تفسیر تحریرو تنویر)۔اور پھر مہبط قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلیقہ سکھاتے ہوئے فرمایا کہ قرآن پاک کو اپنی آواز سے خوبصورت بناؤ کہ اچھی آواز سے قرآن کاحسن دوبالا ہوجاتاہے (شعب الایمان)۔اور یہ بھی سنتے چلیے کہ آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت اچھی آواز میں تلاوت قرآن سننے کے لیے اُس شخص سے زیادہ متوجہ ہوتاہے ، جو گانے والی سے اپنا نغمہ سن رہاہو(مستدرک، ۲۰۹۷)۔  
           کالم کی تنگ دامانی کا شکوہ نہ ہوتاتوٹھہر ٹھہر کرحسن ادائیگی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کے پس منظر میں نہ صرف کئی احادیث ، بلکہ مفسرین ، محدثین اور فقہاء کرام کےبے شمار ارشادات پیش کیے جاسکتے تھے ، تاہم متذکرہ بالا ایجاز سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حروف کے درست مخارج کے ساتھ اور ٹھہر ٹھہر کر اچھی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنا،اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے ، مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اور ہدایت بھی ہے اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو طریقہ بھی رہاہے، بلکہ جان کی امان ملے توعرض کروں کہ پورے عرب میں میرے علم کے مطابق کسی حافظ سے پورا قرآن ایک نشست میں سننے کی رسم نہیں ہے ۔اور یہ بات تومیں پورے وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ صرف حافظ ہی نہیں ، بلکہ عام مسلمان پارہ قرآن کو جلدی سے جلدی ختم کرکے فخریہ انداز میں جوخم ٹھونک کر مسکراتے دیکھے جاتے ہیں، اس قابل مذمت رسم کی ایجاد بھی برصغیرپاک وہند میں ہوئی، اسی سرزمین پر یہ پروان بھی چڑھی ہے اور یہیں کی یہ مستقل رہائشی بھی ہے ۔ الاماں والحفیظ 
            صاحبو!  ذرا دل پر ہاتھ رکھ کرلمحے بھر کے لیے غورکیجیے کہ ’ایک نشست میں تلاوت قرآن ‘ کی جگہ اگر ’تین ایام میں تلاوت قرآن‘ کی رسم شروع ہوجائے ، توکون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی ؟ کیا یہ ہوجائے توحفظ قرآن کے ذوق وشوق میں کوئی کمی واقع ہوجائے گی، یامدارس اسلامیہ کی شہرت وعزت پر آنچ آجائے گی ، یا پھر مدرسین حفظ وقرأت کی توقیر گھٹ جائے گی؟ ہاں اس طرح یہ ضرور ہوگا کہ تلاوت قرآن کریم کی عزت واہمیت بڑھ جائے گی اور خوبصورت انداز میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنے کا ماحول بن جائے گا۔
            یقین کیجیے کہ حسن نیت اپنی جگہ پر، لیکن اگر کسی رسم کہنہ کے نتائج توقع کے برعکس ظاہرہونے لگیں ، توہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم کھلے دل سے اعتراف بھی کریں اور اس کی اصلاح بھی کریں۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں:

ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے