Advertisement

مختصر احوال صاحب رد المحتار علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ از محمد توصیف رضا قادری علیمی

مختصر احوال صاحب رد المحتار علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ از محمد توصیف رضا قادری علیمی

مختصر احوال صاحب رد المحتار علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ


از: محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار، بہار۔)
شائع کردہ: 08/جنوری/2023
 aalahazratmission92@gmail.com


خاتم المحققین، جامع علوم فقہ وحدیث، علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزيز المعروف بابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بابرکات اُن مقدس اور اولوالعزم ہستیوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنی علمی استعداد و صلاحیت اور دینی حمیت و غیرت کے ساتھ اسلام و سنیت کی حفاظت و صیانت میں بے بہا کارنامہ انجام دیا، اور ہر محاذ پر امت مسلمہ کی مسیحائی فرمائی۔

ولادت وخاندان:

آپ 1198ھ بمطابق 1784ء شہر دمشق کے محلہ حی القنوات میں سادات گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کا نسب کئی واسطوں کے ساتھ نواسہ مصطفی ﷺ شہید کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے آپ کا خاندان فضل و شرف اور کمال میں معروف تھا۔

وجہ تسمیہ:

آپ ابن عابدین کے لقب سے معروف ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جد اعلیٰ محمد صلاح الدین اپنی کثرت عبادت و ریاضت، زہد و ورع اور تقویٰ کی وجہ سے عابدین کے لقب سے معروف تھے اور آپ ہی اس خاندان کی شہرت کی اساس اور بنیاد ہیں چنانچہ اسی نسبت سے آپ ابن عابدین کہلاتے ہیں۔

تعلیم و تربیت:

آپ نے قرآن کریم اور دیگر بنیادی تعلیم گھریلو ماحول میں ہی حاصل کی اور اپنی کم عمری میں ہی حفظ قرآن کریم مکمل کیا۔ آپ کے والد ماجد ایک تاجر تھے، ایک دن ایسا ہوا کہ آپ کے والد گرامی نے آپ کو تجارتی کاموں پر مشق و ممارست کے لیے تجارت گاہ میں بٹھایا۔ آپ تجارت گاہ میں تلاوت قرآن پاک فرما رہے تھے کہ وہاں سے ایک صالح آدمی کا گزر ہوا تو اس نے ناصحانہ انداز میں کہا: بیٹا ایک تو آپ کی قراءت تجوید کے اصولوں کے مطابق نہیں اور دوسرا یہ محل درست نہیں کیونکہ لوگ قرآن کریم سننے کی طرف متوجہ نہ ہونے کی وجہ سے گنہگار ہو رہے ہیں اور اس کا سبب آپ ہیں۔ چنانچہ اس نصیحت نے آپ کے دل کی دنیا بدل دی اور اس نے آپ کی رہنمائی شافعی مسلک کے بڑے عالم شیخ سعید حموی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرف کی اور اُن کی بارگاہ میں قرآن کریم تجوید و قراءت کے ساتھ حفظ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر علوم سے متعلقہ کتب پڑھیں۔ اسی طرح آپ شیخ محمد شاکر بن علی العقاد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے (جو اپنے دور کے جید، صالح اور باعمل حنفی عالم تھے) آپ نے اُن کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیں اور فقہ حنفی، اصول فقہ، فرائض، حساب، عقائد، تصوف اور علم معقول منطق وغیرہ سے متعلقہ متنوع کتب پڑھیں۔

راہ سلوک:

آپ کے زمانہ میں شہر دمشق ایسے مدارس سے بھرا پڑا تھا جن میں ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اور راہ حق کے طالب وہاں حاضر ہو کر جہاں ظاہری علوم سے اپنا دامن بھرتے تھے ساتھ ہی ساتھ اپنے قلب وروح کو ذکر وفکر عبادت وریاضت اور زہد وتقوی کے ساتھ راحت وسکون باہم پہنچاتے تھے چنانچہ آپ نے خاص طور پر شیخ خالد نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ نقشبندیہ اور شیخ شاکر العقاد سالمی سے سلسلہ قادریہ کا فیض حاصل کیا اور دونوں نے اپنے اپنے سلسلہ کی اجازت فرما کر علوم باطنیہ کے نور سے آپ کے سینہ کو نور فرما دیا۔

تصنیفات:

آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی حیات مستعار کا لمحہ لمحہ دین متین کی خدمت اور اشاعت و ترویج کے لیے وقف رکھا اور تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیا اور متنوع علوم میں انتہائی قیم اور قابل فخر کتب، حواشی اور شروح کی صورت میں تصنیف فرمائی ..چنانچہ آپ نے فقہ حنفی سے متعلق تیسں کتابیں تالیف فرمائیں ان میں چند کے اسماء یہ ہیں: (۱) حاشیہ ردالمحتار علی الدر المختار (۲) حاشیہ منحة الخالق على البحرالرائق (۳) حاشیہ علی شرح الملتقى للحصکفی (۴) حاشیہ علی النھر الفائق (٥) العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ (۲) نظم الکنز (۷) عقود رسم المفتی

اصول فقہ میں آپ نے چار کتابیں تصنیف فرمائیں، علم تفسیر میں حاشیہ علی تفسیر البیضاوی لکھا۔
تصوف میں دو کتابیں لکھیں۔ علوم عربیہ سے متعلقہ سات کتب لکھیں، اسی طرح علم کلام اور عقائد سے متعلق تین کتابیں لکھیں وہ یہ ہیں (۱) رفع الاشتباه عن عبارة الاشباه (۲) تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام او احد اصحابه علیه وعلیهم الصلاة والسلام (۳) العلم الظاہر فی نفع النسب الطاہر۔ اور علم حدیث سے متعلق: عقود الآلی فی الاسانید العوالی لکھی۔ 

نوٹ: یوں تو آپ کی ہر تصنیف قبولیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ردالمحتار کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ردالمحتار نصف النہار کے سورج پر شہرت میں فوقیت حاصل کر چکی ہے۔یہ مشہور زمانہ کتاب ہے، دنیائے سنیت کی کوئی دارالافتاء اس کتاب سے خالی نہیں ملےگا۔

وصال و نماز جنازہ:

آپ رحمۃ اللہ علیہ 21 ربیع الثانی 1252ھ بمطابق 1836ء بروز بدھ چاشت کے وقت شہر دمشق میں خالق حقیقی سے جا ملا چُنانچہ آپ کے وصال پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل رنجیدہ اور غمزدہ تھا اور آپ کی نماز جنازہ میں شریک ہونے والوں کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ شہر دمشق نے اتنا اژدحام اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ارجح قول کے مطابق آپ کی نماز جنازہ آپ کے شیخ حضرت سعید حلبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی اور ایک قول کے مطابق یہ فریضہ شیخ حامد العطار نے ادا فر مایا (مآخذ فتاویٰ شامی جلد اول)

اللہ تعالیٰ آپ کے مزار پر انوار پر رحمتوں اور عنایتوں کی برسات فرمائے اور آپ کا علمی فیضان تا قیام قیامت یوں جاری رہے آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے