Advertisement

کیا دیوبندی و سنی کے درمیان صرف عقائد کا اختلاف ہے؟ اور مسائل میں اتحاد ہے؟

کیا دیوبندی و سنی کے درمیان صرف عقائد کا اختلاف ہے؟ اور مسائل میں اتحاد ہے؟


کیا دیوبندی و سنی کے درمیان صرف عقائد کا اختلاف ہے؟ اور مسائل میں اتحاد ہے؟


مسئلہ:

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید کہتا ہے کہ وہابی اور سنی میں صرف عقائد کا فرق ہے ، مسائل واحادیث میں دونوں کا خیال ایک ہے۔ اگرچہ عمل ان کا اس کے خلاف ہے ۔

الجواب:

 سبحان اللہ زید کے ایمان کا کیا حال ہے ۔ عقائد کے اختلاف کو شیر مادر کی طرح بیان کرتا ہے ۔ کہتا ہے کہ صرف عقائد کا اختلاف ہے گویا زید کے نزدیک عقائد کے اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں ۔ زید کو بتا دیجیے کہ عقائد ہی مدار کفر و ایمان ہیں اور عقائد کے اختلاف کی وجہ سے سارے وہابی دیوبندی کافر ومرتد ہیں ، اورجب وہ کافر و مرتد ہیں تو ان کے بتائے ہوئے مسائل کا کیا اعتبار ۔ زید کا یہ کہنا کہ مسائل و احادیث میں دونوں کا خیال ایک ہے ۔ یہ بھی زید نے غلط کہا ۔ یا تو اسے وہابی مذہب کی تفصیل نہیں معلوم ، یا پھر وہ وہابیوں کی محبت میں ان کی پردہ پوشی کر رہا ہے ۔ وہابیوں کی دو قسمیں ہیں ، غیر مقلد اور دیوبندی ۔ غیرمقلدین اور اہل سنت کے مابین ہزاروں مسائل میں شدید اختلافات ہیں ، وہ وہابیت کا مطالعہ کرے ، پھر غیر مقلدین کی کتابوں کا تو اسے معلوم ہو گا ۔ تفصیل کے لئے دفتر درکار ہے ۔ اسی طرح دیوبندیوں نے نئے عقیدوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں نئے نئے مسائل گڑھے ہیں ۔ ہمارا ان کا سینکڑوں فروعی مسائل میں اختلاف ہے ۔ مثلا دیوبندیوں کے یہاں کوا کھانا ثواب کا کام ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عبادت ہے ، ہمارے یہاں حرام و گناہ ۔ دیوبندیوں کے یہاں بکرے کا خصیہ کھانا حلال ، ہمارے یہاں حرام ۔ دیوبندیوں کے یہاں منی آڈر سے روپیہ بھیجنا حرام ہمارے یہاں جائز ۔   دیوبندیوں کے یہاں اذان کے بعد دعا مانگنا حرام اور ہمارے یہاں سنت ۔ دیوبندیوں کے یہاں’’السلام عليك ايها النبي ‘‘ التحيات میں نماز کے اندر پڑھنا شرک اور ہمارے یہاں واجب ۔ دیوبندیوں کے یہاں جماعت ثانیہ حرام و گناہ ہمارے یہاں بہتر اور افضل ، دیوبندیوں کے یہاں قربانی کا گوشت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت ہے اللہ و رسول کے دشمن منکرین کو دینا جائز ، ہمارے یہاں حرام ، وغیرہ ذلک ۔ اس کی تفصیل کے لیے سیکڑوں صفحات چاہئیں جس کی مجھے فرصت نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

حوالہ :

 فتاویٰ شارح بخاری، جلد سوم، ص: ۱۷۸ و ۱۷۹، مطبوعہ: دائرۃ البرکات،  گھوسی ، ضلع مئو۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے