Advertisement

حافظ ملت علیہ الرحمہ کا روشن تعلیمی نظام اور جماعت کا فکری ارتکاز از فیاض احمد برکاتی مصباحی

حافظ ملت علیہ الرحمہ کا روشن تعلیمی نظام اور جماعت کا فکری ارتکاز از فیاض احمد برکاتی مصباحی

حافظ ملت علیہ الرحمہ کا روشن تعلیمی نظام اور جماعت کا فکری ارتکاز


از: فیاض احمد برکاتی مصباحی
جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ
مہراج گنج بازار ترائی بلرامپور



‎ حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ نے ملک کے   جن حالات میں تعلیم و تربیت کا روشن اور تابناک تعلیمی و تربیتی نظام قوم مسلم کے سپرد کیا وہ ایک بڑی کرامت سے کم نہیں ہے ۔ خاص کر اگر آپ غور کریں تو بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آئے گی کہ آپ کا کوئی مضبوط بیک گراؤنڈ نہیں تھا ۔ نہ آپ ایسے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے متعلقین لاکھوں نہیں تو ہزاروں ہوں اور نہ کوئی سیاسی پہونچ تھی کہ حکومت وقت سے کوئی امدادی فنڈ کی حصولیابی ممکن ہوجاتی ۔ ایک متوسط گھرانے کے ایک سادہ مزاج عالم جو حصول علم کا شوقین تو تھا لیکن تدریس سے کنارہ کش رہنے کا خواہاں تھا  ۔ اس زمانے میں یقینا ایسی کوئی مضطرب صورت حال ضرور رہی ہوگی جس کی وجہ سے آپ نے عام دھارے سے الگ رہ کر اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔  یہ ایک اہم پہلو ہے جس پر سنجیدگی سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس عالم نے اپنے استاذ کی فرمائش پر درس وتدریس کی دنیا میں قدم رکھا اور ایسے علمی قلعے کی داغ بیل ڈالی کہ پورا ملک اپنے سارے کروفر کے ساتھ بھی اس درویش صفت انسان کے تعلیمی نظام کا مقابلہ نہ کرسکا ۔   انسانی سروں کا سمندر اکٹھا کرکے  سب کچھ کرنے کے بعد بھی اس مرد قلندر کی تعلیمی کرامات کا کوئی بدل نہیں مل پارہا ہے  ۔  آخر کیا صورت حال تھی اس وقت کہ فراغت کے بعد حافظ ملت نے بھوج پور میں گھریلو زندگی گزارنے کو ترجیح دیا تھا ؟ جماعت کا مزاج کیا تھا ؟ سربراہان جماعت کس رخ پر اپنی کشتی ڈال رہے تھے ؟ عقل وشعور رکھنے والے علم کی چکاچوند سے نظر ملانے کی ہمت جٹا پارہے تھے یا نظر نیچی کرکے بس اپنی دھن میں مست تھے ؟ کیا تحقیق وتدقیق کی دنیا میں ، معرفت کے  زیر سایہ علم وعرفان کے شناور کی نئی پود لگانے کی کوشش ہورہی تھی یا پھر مدارس کی بھیڑ میں بازارو تقاریر کو علم سمجھا جانے لگا تھا ۔؟   آپ تصور کریں کہ اگر اس مرد قلندر نے اشرفیہ کا مضبوط تعلیمی نظام نہ دیا ہوتا تو آج جماعت علمی سطح پر کہاں کھڑی ہوتی ؟ آج جماعت کے پاس جتنا بھی اور جہاں بھی مضبوط تعلیمی اور تربیتی نظام ہے اس کے پشت پر اسی قلندر صفت عالم کی کرامت کارفرما ہے ۔ اس سے سر موانحراف کی صورت میں جماعت کا پورا تعلیمی ڈھانچہ دھڑام سے زمین بوس ہوجاتا ہے ۔  

‎جس معاشرے میں ہر طرف جلسے کی باز گشت سنائی دے رہی تھی ، لے کی نئی نئی طرح ڈال کر نعتیہ محافلوں کو مشاعرہ کی شکل دینے کی کوشش ہورہی تھی ، مناظرانہ ماحول کی پرزور پرورش ہورہی تھی ۔  بے ہنگم اور بے مقصد آواز کو تقریر کہنے کی تیاری ہورہی تھی ۔ پورے ملک میں چند ایک مدارس تھے جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا ۔ ان مدارس میں بھی چند اساتذہ اور کچھ مخصوص کتاب کی پورے سال میں پانچ دس صفحات کی ورق گردانی ہوتی اس پر مستزاد  دوچار سال بعد سند فراغت ۔ مدارس میں لائبریری کا کوئ نظم ونسق نہیں ۔ مشائخین عظام نے اسفار وملاقات کو کرامات کے خانے میں ڈال دیا تھا ۔  کتاب خوانی اور مطالعے کو کسی حد تک معیوب سمجھا جانے لگا تھا ۔ چرب زبانی ، بے مقصد کی حاضر جوابی اور لایعنی منطقیت نے ایک بھونچال پوری جماعت میں پیدا کردیا تھا ۔ سنجیدہ علمی مزاج درسگاہ ، کی طرف توجہ بہت کم تھی ۔ جن کے علمی طنطنوں کا شوروغوغا تھا وہ اپنی کج کلاہی کے سامنے کسی کی نہیں سنتے تھے ۔  مبارک پور کی سرزمین پر  کمزور وناتواں جسم اور بلند حوصلوں کا ایک عالم خاموشی کے ساتھ جماعتی دھارے سے ہٹ کر ایک علمی منہج طے کرتا ہے اور اس کی درسگاہ فیض سے اٹھنے والے علم کا بادل بن کر پورے ملک دینی آسمان سے جھماجھم برسنے لگے تھے ، کتنے  ہی گم نام خاندانوں  علمی معراج کی بنیاد پر  شہرت کے ساتویں آسمان پر اپنے قدم جمادیئے  ۔ 

‎حافظ ملت کس تعلیمی نظام کے خواہاں تھے اس کا اندازہ آپ کے اس عمل سے ہوتا ہے جو آپ نے قیام جامعہ سے پہلے اور بعد میں دنیا کے سامنے رکھا ، آپ کا قول آج بھی مصباحی علماء کے لیے حرز جاں ہے ۔  حافظ ملت ملک کانیا  سیاسی نظام بھی سمجھ  رہے تھے اور آفاق میں پھیلتی ہوئی علم کی نئی شاخوں پر بھی آپ کی گہری نظر تھی ۔ آپ کے شاگرد رشید علامہ عبد الرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ  کے تعلق سے یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ آپ نے طلبہ کو جدید فلسفہ اور سائنس پڑھانے کے لیے جدید آلات بھی منگوائے تھے ۔ آج بھی جامعہ میں جدید سائنس کی تھیوری پڑھائ جاتی ہے ۔ حافظ ملت کی نگاہ میں جدید تعلیمی نظام بھی تھا اور آپ  اس جدید تعلیمی نظام  سے اپنے شاگردوں کو بلکہ اپنے خون جگر سے سینچے گئے ادارے کو بے نیاز نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔۔

‎آپ کے زمانے سے ہی عالم عرب میں جدید عربی ادب کا شورہونے لگا تھا اور بلا کے عربی ادیب مصر وعرب میں پیدا ہوچکے تھے ۔ دنیا عرب کی علمی مصروفیات سے باخبر رہنے کے لیے جدید عربی ادب کے ماہرین کی ایک مضبوط ٹیم کا جماعت میں ہونا ضروری تھا ۔ اسی طرح نئے تعلیمی اداروں کے رجحانات کو  جاننے اور ان تک  دین کی درست تفہیم کی ترسیل کے لیے ان اداروں سے واقف حضرات کی بھی شدید ضرورت تھی ۔ بڑا تعجب ہوتا ہے کہ دنیا کی ہنگامہ خیزی سے الگ تھلگ رہ کر ایک مرد درویش اپنے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد کو ہر میدان میں روانہ کرتا ہے ۔ جس زمانے میں کالجز ، یونیورسٹیز میں جانا ہی عیب سمجھا جاتا تھا آپ کے شاگرد اس زمانے میں کالجز اور یونیورسٹیز کی لکچرر شپ حاصل کررہے تھے ۔  عربی ادب اور جدید عربی ادب سے واقفیت کے لیے خیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی کی آپ نے خط وکتابت کے ذریعے بھرپور رہنمائی کی اور ان کے حوصلے کو سراہا ۔ استاذ گرامی علامہ محمد احمد مصباحی کی عربی دانی پر آج جدید عربی کے ماہرین بھی انگشت بدنداں ہیں ۔  

‎دارالعلوم ندوۃ العلماء ہندوستان میں جدید عربی ادب کی تحصیل کا واحد مرکز تھا ۔ مصر ، لبنان ، لیبیا یا عراق جانے کے اتنے آسان ذرائع اس وقت  نہیں تھے ۔ عربی ادب کا پیاسا یا تو بغیر اساتذہ کے اپنا پتہ پانی کرتا یا پھر ندوۃ العلماء کا رخ کرتا تھا  ۔ آپ نے اپنے کچھ مخصوص شاگردوں کو عربی زبان وادب پر  کمال حاصل کرنے کے لیے لکھنئو بھیجا ۔ کئی شاگردوں کو  جدید علوم کی تحصیل کے لیے عصری دانش گاہوں کی طرف بھیجا ۔  خود اپنے فرزند کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھیجا ۔ ان تمام کڑیوں کو ملا کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ جامعہ اشرفیہ کو کس بلندی پر لے جانے کے خواہاں تھے ؟ ۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ جامعہ اشرفیہ نے برق رفتاری سے ہر شعبے میں ترقی کی ہے لیکن ارباب جامعہ کو بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ آج بھی زندگی کے بہت سے اہم شعبے ہیں جن کا تعلق اسلامی زندگی سے ہے ،  توجہ طلب ہیں ۔ خاص کر اسلامی معیشت ، جس کے لیے کتاب البیع کی زیارت کرائی جاتی ہے بے حد  قابل توجہ ہیں ۔  

‎حافظ ملت کا روشن تعلیمی نظام کا ہی خوبصورت انعام ہے کہ فرزندان اشرفیہ کے علمی دلائل کے سامنے پل مارنے کی جرات بھی بڑے بڑوں کو نہیں ہو رہی ہے ۔ اسی روشن نظام کی کرامت ہے کہ فرزندان اشرفیہ ہر محاذ پر کامیابی کے پھریرے لہرا رہے ہیں اور اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں ۔  اس نظام کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آج تک اس کے تسلسل میں کوئ رکاوٹ یا گراوٹ نہیں آئی ۔ مصباحی علماء نے طب و حکمت ، فلسفہ و منطق ، ادب وشاعری ، صحافت وسیاست ، حدیث واصول حدیث ، فقہ اور اصول فقہ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ جماعت اہل سنت کا  پورا علمی ڈھانچہ ان کے دسترخوان علم سے علمی لقمے حاصل کرنے پر فخر محسوس کرنے لگا ۔  تحریری میدان میں  ایسے باکمال فضلاء ہوئے کہ ان کی تحریریں اہل ذوق باوضو تلاوت کرنے لگے ۔  رات کی تاریکی کے پس منظر میں ہدایت کا جو نور ظلمت کا سینہ چاک کرنے کی صلاحیت سے لبریز ہے اسی کو اہل علم وفن حافظ ملت کا باغ فردوس کہتے ہیں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے