Advertisement

جلسۂ تعزیت کے بجائے "محفل توقیر وعزت" سجائی جائے از ڈاکٹر غلام زرقانی امریکہ

جلسۂ تعزیت کے بجائے "محفل توقیر وعزت" سجائی جائے از ڈاکٹر غلام زرقانی امریکہ

جلسۂ تعزیت کے بجائے "محفل توقیر وعزت" سجائی جائے

افادیت واہمیت کے پس منظر میں اپنی روایات کا غیر جانبدارنہ تجزیہ نہ کرنا بہت بڑی ناانصافی ہے

از: ڈاکٹر غلام زرقانی قادری، امریکہ 
 ghulamzarquani@yahoo.com
۱۲؍نومبر۲۰۲۲ء

                ہند و پاک کی روایت یہ رہی ہے کہ جب کوئی مشہورومعروف عالم دین ، صوفی باصفا یا خدمت انسانیت میں نمایاں کردار اداکرنے والی شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے ، توہم تعزیتی بیانات بھی جاری کرتے ہیں اور ایسے اجلاس ومحافل کا انعقاد بھی کرتے ہیں ، جن میں جانے والی شخصیت کی ذاتی قابلیت، دعوت وتبلیغ اور انسانی خدمات کے حوالے سے اس کے کارنامے گنائے جاتے ہیں۔
         میں یہ نہیں کہتا کہ خراج عقیدت پیش کرنے کی ہماری متذکرہ تہذیب مناسب نہیں ، بلکہ مدعائے سخن صرف یہ ہے کہ ہمیں جلسہ تعزیت کی افادیت پر سنجیدگی سے غور کرناچاہیے ۔ اب یہی دیکھیے کہ کسی کے جانے کے بعد ہم جلسہ تعزیت میں عام طور پر ان کے کارہائے نمایاں شمار کراتے ہیں ، ان کی علمی فضیلت وبرتری کا ذکر جمیل کرتے ہیں اور پھرایصال ثواب کے ذریعہ اپنے عقیدت ومحبت کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ تعزیتی جلسوں سے دوفائدے حاصل ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ایصال ثواب کے ذریعہ مرحوم کے   اخروی درجات میں بلندی کی توقع ہوجاتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ان کی حیات وخدمات کے تذکرے سے معاشرے میں ان کے نقوش قدم پر چلنے کے جذبات بیدار ہوجاتے ہیں ۔ اور کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں فائدے نظر ستائش سے دیکھے جانے کے لائق ہیں ۔
           اب آئیے ، موضوع سخن کے دوسرے حصے کی طرف پلٹتے ہیں ۔ تصور کیجیے کہ ہم کسی بڑی شخصیت کے جہان فانی سے رخصت ہونے پر جلسہ تعزیت کے بجائے محفل توقیر وعزت سجانے کی روایت پر زیادہ توجہ دیتے ، توممکنہ نتائج کیا ہوتے ؟ یہی نا کہ ہم ان کی حیات میں انھیں مدعو کرتے ، ان کی عزت افزائی کرتے اور ان کے کارہائے نمایاں کا ذکر جمیل کرتے ۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں دوفائدے ہوتے ۔ ایک یہ کہ معاشرے میں ان کے نقوش قدم پر چلنے کے جذبات بھی بیدار ہوجاتے اور ممدوح مکرم بھی دینی ودنیاوی خدمات کے لیے مزید اپنے اندر حوصلہ وامنگ محسوس کرتے اورپہلے سے کہیں زیادہ لوگ ان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کے لیے آمادہ ہوجاتے ۔  
             موضوع سخن کی دوجہتی تصویر آپ کے سامنے ہے ۔ از راہ کرم غیر جانبدارنہ تجزیہ کیجیے اور یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ معنویت وافادیت کے پس منظر میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں ۔ جہاں تک رہی بات ایصال ثواب کے ذریعہ مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی، تویہ امر بغیر کسی جلسے اور تقریب کے بھی بدرجہااولیٰ ہوسکتاہے ۔ آپ قرآن مقدس کی تلاوت کریں ، سورتیں پڑھیں اورآیت کریمہ کے ورد کے بعد دعا کے لیے اپنے ہاتھ بلند کردیں ، توجلسہ تعزیت کے دوسرے فائدے کی تکمیل بہ آسانی  ہوجاتی ہے ۔ تاہم دونوں بزموں کے حوالے سے معاشرے میں خدمات دین ودنیا کے جذبات بیدار کرنےکے پس منظر پر غور کیجیے تویہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جلسۂ تعزیت کے مقابلے میں محفل توقیر وعزت کہیں زیادہ سود مند بھی ہے اورنتائج کے اعتبار سے کار آمد بھی ۔
              ظاہرہے کہ اگر جلسہ تعزیت کے بجائے جلسہ توقیر وعزت کے انعقاد پر زیادہ توجہ دی جائے ، تویقین کامل ہے کہ خادم دین وملت کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہ مزید جدوجہد ، تگ ودو اور جانفشانی کے ساتھ آگے بڑھنے میں جٹ جائیں گے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اس طرح دوفائدے حتمی ہیں ۔ پہلا فائدہ تویہ ہے کہ قوم وملت دینی ودنیاوی میدان میں مزید مستحکم ہوگی اور ہم فلاح وترقی کے نت نئے منازل طے کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔اوردوسرا فائدہ یہ ہے کہ جناب والا خود بھی زیادہ سے زیادہ خدمات کے ذریعہ اپنے نامہ اعمال میں مزید حسنات ثبت کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
             یہ تورہی ایک بات، اب ذرا ایک دوسرے رخ سے بھی کچھ گفتگو ہوجائے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے یہاں اصحاب کمال کی پذیرائی کی روایت نہیں ہے ، بلکہ کہنا یہ چاہتاہوں کہ یہ روایت کمیاب ضرور ہے ۔ اور اس پر تماشایہ بھی ہے کہ ہم کبھی کبھار کسی بڑی شخصیت کو اعزاز واکرام اور تمغات سے نوازتے بھی ہیں ، توان میں زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جو اپنے حیات فانی کے آخری لمحات گزار رہے ہیں ، بلکہ بعض توایسے بھی ہوتے ہیں ، جو اپنے پیروں پر چل کر محفل توقیر وعزت تک جابھی نہیں سکتے ، لوگ انھیں سہارا دے کر کسی طرح بہ مشکل اسٹیج پر لاتے ہیں ۔حاشا وکلا ، میں یہ نہیں کہتاکہ ہمیں اپنے بزرگوں کی اعلی خدمات کی پذیرائی نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ عرض یہ ہے کہ معاشرے کے بزرگوں کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں ایسے نوجوانوں کی بھی پذیرائی کرنی چاہیے ، جنھوں نے کسی حدتک کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور ان کے اندر مزید کچھ کرگزرنے کے جذبات موجزن ہیں ۔ اور اس فہرست میں ایسے نام بھی شامل کرلیں توکوئی مضائقہ نہیں کہ جنھوں نے اب تک توکچھ قابل ذکر خدمت نہیں کی ہے، لیکن ان کے متحرک وفعال شب وروز صاف بتارہے ہیں کہ جلد ہی وہ مستقبل میں قوم وملت کے لیے سود مند ثابت ہوں گے ۔  
             اور ساتھ ہی ساتھ پذیرائی کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ اصحاب قرطاس وقلم کے نگارشات سجا سنوارکر طباعت کے مراحل سے گزار ے جائیں اور کسی خاص موقع پر انھیں دعوت دی جائے اور ان کے ہاتھوں سےرونمائی کی تقریب مکمل کرائی جائے ۔ یقین جانیے کہ ایک فن کار کے لیے اس سے بڑھ کر فرحت ومسرت کے لمحات نہیں ہوسکتے کہ جب اس کے فن پارے کی پذیرائی کی جائے ۔ کیا عجب اس طرح ان کے حوصلے پروان چڑھیں اور وہ مزید ہمارے لیے قیمتی نگارشات پیش کرنے پر راضی ہوجائیں ۔خیال رہے کہ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے ، بلکہ اسے حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی تڑپ ہے ، تواپنے علاقے میں کسی مصنف ومرتب سے ملاقات کیجیے اور معلوم کرنے کی کوشش کیجیے کہ خون جگر پلاکر صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے والے کتنے شہہ پارے اب تک تشنہ طباعت رہ گئے ہیں ۔
             صاحبو!  وقت کم ہے اور کام زیادہ کرناہے ، نیز یہ بھی آفتاب نیم روز کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ ہم دوسروں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ لوگ طعنے دیتے ہیں اوربجادیتے ہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دوسری سب سے بڑی تعداد میں ہونے کے بعد بھی ہم علوم وفنون ، تحقیق وجستجو اور تعمیر وترقی کے اعتبار سے چھوٹی چھوٹی قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے شب وروز کے معمولات میں غور وفکر کریں اور ہر ان ممکنہ اقدامات کی نشاندہی کریں ، جن سے بلا واسطہ یا بالواسطہ ہماری قوم کامیابی وکامرانی کے مرحلے میں داخل ہوسکتی ہے۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں:

ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے