Advertisement

تقریب عید میلاد النبی ﷺ روایتی نہیں بلکہ حقیقی ہونی چاہیئے از ڈاکٹر غلام زرقانی امریکہ

تقریب عید میلاد النبی ﷺ روایتی نہیں بلکہ حقیقی ہونی چاہیئے
      

تقریب عید میلاد النبی ﷺ روایتی نہیں بلکہ حقیقی ہونی چاہیئے



از: ڈاکٹر غلام زرقانی قادری، امریکہ 
 ghulamzarquani@yahoo.com



  اللہ رب العزت کا شکر بے پایاں کہ اس نے ہمیں مرکز عقیدت ومحبت سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے ماہ مقدس میں چند ساعتیں گزارنے کی توفیق عطافرمائی ۔آج سے تقریبا ساڑھے چودہ سوسال پیشتر جس ذات گرامی کی تشریف آوری سے یہ دنیا روشن ہوئی، اس کی کرنیں سرمایہ افتخار بن کر آج بھی ہمارے دلوں کے نہاں خانوں کو منور کررہی ہیں ۔ اورسچی بات یہ ہے کہ اُس نورانی کرن کی طاقت وقوت اورا ثرونفوذ میں آئے دن اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے ۔ 
           یہ درست ہے کہ عالم اسلام کے زیادہ تر ممالک میں مسلمان عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر تقریبات منعقد کرتے ہیں اور اپنے روایتی طریقوں سے اظہار مسرت وشادمانی بھی کرتے ہیں۔ جلوس نکالے جاتے ہیں ، جن میں لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں ۔ جگہ جگہ بڑے بڑے بینر آویزاں کیے جاتے ہیں۔ محلے کی سڑکیں جھنڈیوں سے آراستہ کی جاتی ہیں۔ گھروں میں قمقمے لگائےجاتے ہیں ۔ بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں ، اور تحفے ، تحائف اور میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔اور کہیں کہیں سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض گوشوں کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار بھی انعقاد پذیر ہوتے ہیں ۔اور بعض مقامات پر غربا، مساکین اور ناداروں کے درمیان ضروریات زندگی سے متعلق کھانے پینے اور پہنے اوڑھنے کی چیزیں بھی بانٹی جاتی ہیں ۔ 
         خیال رہے کہ مجھے اس سے مجال انکار نہیں کہ متذکرہ بالا طریقے مناسب نہیں ، بلکہ عرض یہ ہے کہ جس طرح ہماری جملہ تقریبات شرعی تقاضے کے مطابق عہد جدید سے ہم آہنگ ہورہی ہیں ، ٹھیک اسی طرح عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریبات میں بھی کسی حد تک وسعت ہونی چاہیے ، تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ کار آمد اور مفید بنایا جاسکے ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اظہار مسرت وشادمانی کے لیے کسی ایک مخصوص طریقے پر ہی گامزن رہنے کی بجائے زمانے کے لحاظ سے ایسے طریقے بھی اپنائے جائیں ، جوہمار ے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکیں ۔ مثال کے طورپر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر بڑی تقریبات منعقد کرنے والی تنظیمیں  سیرت پاک کے حوالے سے کوئی کتاب بچوں کے لیے منتخب کرلیں اور اعلان کریں کہ فلاں تاریخ میں ہونے والے سیرت کوئز پروگرام میں اسی کتاب سے سوالات پوچھیں جائیں گے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اگر انعامی رقم بہت موٹی ہوگی، توعلاقے کے بچیاں اور بچے ضرور شرکت کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس طرح آپ نے دوکام کرلیا، ایک یہ کہ بچوں کے دلوں میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت بٹھادی۔ اب وہ پورے سال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد رکھیں گے اور منتظر رہیں گے۔ اور دوسری طرف انھیں سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس کرادیا۔ خیال رہے کہ ہر سال سیرت کے کسی نئے پہلو پر یہ کوئز مسلسل کرایا جاتا رہے، تاکہ مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے سارے گوشے دھیرے دھیرے بچوں کے اذہان وقلوب میں اپنی جگہ بناتے جائیں ۔ٹھیک اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بھی یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے ، تاکہ انھیں بھی سیرت پڑھنے پر راغب کیا جا سکے۔ بہر کیف، مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ اگر ہم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں ، توضرور کریں ، لیکن کوشش یہ کریں کہ اس خرچ کے نتیجے میں کوئی ایسا مقصد ضرور حاصل ہوجائے ، جو عارضی نہ ہو، بلکہ دیرپا ہو۔  
             اسی طرح عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ سلم کے اہتمام تک ہی بات نہ رہ جائے ، بلکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پیغام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھنے کی کوشش کریں ، نیز تاریخ اسلامی کے اولین اوراق پر ایک سنجیدہ نگاہ ڈالیں تاکہ یہ احساس ہوسکے کہ کن مشکلات اور مصائب وآلام سے گزرکر یہ نعمت کبریٰ ہم تک پہنچی ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ جب بہ آسانی کوئی چیز ہاتھ لگ جاتی ہے ، تو اس کی قدر نہیں رہتی ،لیکن جب یہ احساس ہوتاہے کہ یہ چیز ہمارے اسلاف کی محنت شاقہ اور جہد مسلسل کے نتیجے میں ہم تک پہنچی ہے ، توپھر فورا ہی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور جب اہمیت بڑھ جاتی ہے ، تواس کے تقاضے پورے کرنے کے جذبات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔
            اور پھر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع کو ’یوم تجدید عہد ووفا‘ سے بھی موسوم ہونا چاہیے ، تاکہ ہر سال اپنا محاسبہ کرسکیں اور یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ ہم سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر قریب ہیں ؟ ہمارے شب وروز میں کوئی ایسا پہلو تونہیں ، جو ہمیں صراط مستقیم سے دور لے جارہاہے ؟ ہمارے اخلاق وکردار میں خلق مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے کس پہلو کی جھلک نہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے ؟ کیا ہمارے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر وعزت اور عشق ومحبت کی لو مدھم تونہیں ہورہی ہے ؟ کیا ہمارے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کے جذبات سرد تونہیں پڑ رہے ہیں ؟ غرض یہ کہ جب ہم ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن اظہار مسرت کریں ، توہمارے جذبات صرف اظہار مسرت وشادمانی کی حدتک سمٹ نہ جائیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد واہداف تک پہنچ جائیں اور انھیں پورا کرنے کے لیے کمال اخلاص کے ساتھ از سر نو عہد وپیمان بھی کیے جائیں ۔
               یہ تورہی ایک بات ، اب ذرا یہ بھی سن لیجیے کہ بعض روشن خیال یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ہر سال مسلمان عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ایک موٹی رقم خرچ کردیتے ہیں ، جب کہ انھیں غرباء ومساکین پر خرچ کیا جائے توکہیں زیادہ بہتر ہے ۔ میرے خیال میں اگر یہی فلسفہ ہمارے شب وروز کے ہر گوشے میں شامل ہوجائے ، توپھر نہ صرف ہماری تہذیب وتمدن کے حوالے سے جملہ تقریبات کے انعقاد پر لاتعداد سوالات کھڑے ہوجائیں گے، بلکہ ہمارے شب وروز کے تمام تر اہتمامات مشکل ہوجائیں گے۔ کھانے ، پینے ، پہننے ، اوڑھنے سے لے کر تعمیر مکانات، مساجد ، مدارس، نیز اسفار کے لیے گاڑی ، جہاز، ٹرین کا استعمال اور وہ سارے امور کی انجام دہی صعب ہوجائے گی ، جنھیں ہم بہ رضا ورغبت عام طورپر بلا چون وچرا انجام دیتے رہتے ہیں ۔
            صاحبو!  مدعائے سخن یہ ہے کہ روایتی اظہار مسرت وشادمانی کے ساتھ ساتھ حقیقی پیغام عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پوری توجہ رہے ۔ نیز یہ بھی کہ ہر چند کے دولت آپ کی ہے ، آپ جس طرح چاہیں خرچ کرسکتے ہیں ، تاہم کوشش یہ ضرور ہونی چاہیے کہ اسے اظہار مسرت کے کسی ایسے کام کے لیے استعمال کیا جائے ، جو عارضی نہ ہو، بلکہ پائیدار ہو، دیر پا ہواورملت اسلامیہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مفیدبھی ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے