Advertisement

مروجہ تعزیہ داری اور ہمارا معاشرہ از محمد نظام احسنی مصباحی

اعلیٰ حضرت کا مختصر تعارف

مروجہ تعزیہ داری اور ہمارا معاشرہ



از: محمد نظام احسنی مصباحی ( ایم اے اردو )
متعلم:  الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ


ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لے چکی ہیں جن سے احتراز و اجتناب ایک دشوار کن مرحلہ بن چکا ہے کیونکہ آج کی عوام ان پر اتنی سختی سے عمل پیرا ہے کہ گویا کہ وہ اصل من اصول الدین یا فرائض و واجبات سے ہے حالانکہ کہ جو اصل دین ہے جیسے نماز و روزہ وغیرہ تو ان سے یہ عوام کوسوں دور نظر آتی ہے  ان برائیوں میں سے ایک برائی مروجہ تعزیہ داری بھی ہے جس کو بعض علاقوں میں ماہ محرم الحرام جبکہ دیگر علاقوں میں امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فاتحہ چہلم کے موقع پر بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور اس میں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتا ہے  تعزیہ داری کی ابتدا کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ سلطان  تیمور حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات بابرکت سے بہت عقیدت و محبت رکھتا تھا اور ہر سال آپ کے روضۂ انور پر حاضری کے لئے جایا کرتا تھا بلاشبہ ایک بادشاہ کے لیے دو تین ماہ کا سفر کرنا دشواری سے خالی نہ تھا اور اس کے امور سلطنت بھی موقوف ہو جاتے آخر کار وزیروں کے مشورے سے اس نے روضئہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیح  نقشہ بنوا لیا اور ہر سال اس کی زیارت سے بہرہ مند ہوتا  پس یہیں سے تعزیہ داری کی ابتدا ہوئی اس سے پہلے اس کا وجود نہ تھا، اگر اسی پر بس کیا جاتا کہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ انور کے نقشہ کو بطور تبرک گھروں میں رکھا جاتا جس طرح روضئہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر بزرگوں کے نقشوں کو بنایا جاتا ہے اور بطور تبرک ان کو گھروں میں رکھا جاتا ہے تو یہ بلا شبہ جائز و مباح ہے  اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آج کی عوام نے  مروجہ تعزیہ داری کی جو ہیئت و صورت بگاڑ رکھی ہے مثلا پریوں کی تصویریں لگانا، اس کو  گلی گلی کوچہ کوچہ لے کر پھرنا، ڈھول تاشے بجانا، علم نکالنا، مختلف قسم کے کھیل تماشے کرنا، تعزیہ کو دفن کرنا، اس کے لیے فرضی کربلا بنانا،  اس کے لیے امام باڑہ بنانا، مرد وعورت کے اختلاط کے ساتھ اس کی زیارت کو جانا، یہ سب کام ناجائز و گناہ ہیں ان کا اسلام اور اہل سنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ یہ تمام روافض کی رسوم ہیں جو کہ اہلسنت کی عوام میں رواج پا چکی ہیں۔ عوام کو ان رسومات سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔  
انہیں سب کو دیکھتے ہوئے علماء کرام نے امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ مبارک کی نقل بنانے کو بھی منع کیا اس لیے کہ وہ اپنی دور اندیشی سے جانتے تھے کہ یہ عوام کالانعام ہے لہذا عقیدت و محبت کے نام پر کسی بھی حد کو گزر سکتی ہے اسی ماہ محرم شریف کے موقع پر سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تصویریں بھی دیکھنے میں آئیں جن میں باقاعدہ غیرمسلموں کے معبودوں کی اور ان کے دیوی دیوتاؤں کی بھی تصویریں لگیں تھیں  معاذ اللہ صد بار معاذ اللہ اسی وجہ سے  اعلی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں کہ اولا تو نفس تعزیہ میں روضۂ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ہر جگہ نئی تراش نئی گھڑت جسے اس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت۔
 آگے فرماتے ہیں کہ مگر اب نقل بھی اہل بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہل اعتقاد کے لیے ابتلاۓ بدعات کا اندیشہ ہے۔ لہذا ہمارے اور آپ کے لیے ضروری ہے کہ ایسی خرافات و واہیات میں احتراز و اجتناب کریں۔
علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے

  کہہ دو غم حسین منانے والوں سے
       مومن کبھی شہداء کا ماتم نہیں کرتے

 ہے عشق اپنی جان سے زیادہ آل رسول سے
یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے تے


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے