Advertisement

موجودہ مدارس اسلامیہ تاریخ کے آئینے میں از محمد توصیف رضا قادری علیمی


موجودہ مدارس اسلامیہ تاریخ کے آئینے میں


از : محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار، بہار۔)
متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی ، بستی ، یوپی ، انڈیا ۔
شائع کردہ: 29/ستمبر/2022 
 aalahazratmission92@gmail.com


اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دینی مدارس کا قیام جہاں بھی ہوا وہاں حق کی شمع جلنے لگی،اسلامی روایات صاف نظر آنے لگے، اور اگر یہ کہا جائے کہ مدارس اسلامیہ نے ہندوستان میں مسلمانوں کو دین اسلام پر قائم رکھنے میں اہم رول ادا کیا تو قطعاً ہے جا نہ ہوگا اور تاریخی اعتبار سے کسی دور میں کم اور کسی دور میں زیادہ، مگر ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں مدرسہ کا وجود ملتا ہے۔

نیز اگر بر صغیر پاک و ہند کی بات کی جائے تو سلطان محمد تغلق کے زمانہ میں صرف دلی میں ایک ہزار سے زائد مدرسے اِنسانیت کو سنوار رہے تھے، انگریزوں کے تسلط سے قبل ہندوستان کا چپہ چپہ مدارس کے وجود سے تابناک و تابندہ تھا۔ سلاطین ہند نہ صرف یہ کہ مدارس کی سرپرستی کرتے بلکہ ان کے لیے جاگیریں اور جائدادیں مختص کر رکھی تھیں۔ 

علماء کے لیے شاہی خزانہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت علماء فکر معاش سے آزاد، خوش حال و فارغ البال تھے، پوری دل جمعی و دلچسپی کے ساتھ دینی خدمات میں مصروف رہتے، جس سے گلستانِ دین ہرا بھرا پھولتا پھلتا رہتا تھا، اور اس کی دلآویزی مشک و عنبر پورے معاشرے کو مشتاق و شیدا بناتی رہتی، 

مگر ستم کی پہاڑ اُس وقت ٹوٹ پڑی جب سقوط سلطنت مغلیہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریزی حکومت کی ظلم و تشدد نے سب سے زیادہ باعثِ زوالیت کا شکار مدارس اسلامیہ اور علمائے دین کو بنایا، انگریز اس راز کو سمجھ چکا تھا کہ اہلِ اسلام میں ایمانی جوش اور ہوش علماء ہی سے پیدا ہوتا ہے اور چونکہ یہ علماء مدارس اسلامیہ ہی کی پیداوار ہوتے ہیں، لہذا ایک طرف وہ مدارس کی بیخ کنی میں عمل پیرا ہوۓ اور دوسری طرف علماء کے درپئے ایذا میں جوٹ گئے،  

تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد دِل افسردہ ہوا کہ نمرودی و فرعونی حکومت انگریزوں نے کم و بیش ۵۱ ہزار علماء کرام کو جگہ جگہ پھانسی پر چڑھایا اور  شہید کر دیا گیا (إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رٰجِعونَ) اور جو باقی بچے انہیں نہتا، بے بس و لاچار، کمزور و مجبور کرنے کے لیے مدرسہ، مسجد اور خانقاہ سب جن پر علماء کرام کا اختیار و کنٹرول تھا، وہ عوام اور جوہلا کے سپرد کر دیے گئے، بلآخر انگریز نے اہلِ اسلام کو بے بال و پر کرنا چاہتا تھا، دین محمدی کو صفحہ ہستی سے مٹانہ چاہتا تھا، اور مدارس اسلامیہ کے زیر قیادت میں چلنے والے اسلامی معاشرہ کو پامال کرنا چاہتا تھا جو بہت حد تک اس مقصد میں اُن کو کامیابی ملی۔  

بہرحال! اگر مدارس اسلامیہ ختم ہوجائیں گے تو اسپین جیسا حالات ہونے میں دیر نہ لگے گی کہ جہاں ۸ سو سالہ اسلامی تہذیب مسمار ہو کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا اور اہم وجہ یہ تھی کہ وہاں مدارسِ دینیہ کی زوال ہو چوکی تھی-

اس لئے امت مسلمہ پر فرض کہ وہ ان مدارس کی خون جگر سے آب یاری کرے ، اپنی جان ومال سے ہر ممکنہ تعاون کرے، ان مدارس پر آئی ہر مصیبت کے لئے سینہ سپر رہے، قریب و بعید سب میں حصہ لے، اتنا ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی جانب ترغیب دلائے، کیوں کہ ان دنوں دینی مدارس کا وجود شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے، آج پوری دنیا مدارس اسلامیہ کو مٹانے کے لیے مسلمانوں کے ذہنی و ایمانی جذبات سے کھیل رہے ہیں۔

فتنہ انگیز آندھیوں کی طرح قوم و ملت کے ہر فرد کو اپنی رنگینیوں اور چکا چوند کردینے والی فریب کاریوں سے دلوں کو غیر محسوس طریقہ پر اعتقادات وعبادات، اخلاقیات و معاملات ،معاشرت اور شعائر اسلام کے اصول و ضوابط کو ذہنوں سے مٹا کر اپنی گندی چھاپ کو بٹھا رہی ہے اور آنے والی نسلوں کو شک کے دائرے میں رکھ کر اُن مدارسِ دینیہ سے نفرت کی بیچ بو رہے ہیں لہذا ان نازک ترین حالات میں ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کی بقا کے لیے اپنی اپنی ذمّے داری نبھائیں- اللہ تعالیٰ ہم سب کو مدارسِ اسلامیہ سے محبت اور اس کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے