Advertisement

میلاد النبی ‎ﷺ کے اسباب، مسلم معاشرے پر اثرات عہد بعہد از مولانا فیاض احمد برکاتی مصباحی


میلاد النبی ‎ﷺ کے اسباب، مسلم معاشرے پر اثرات عہد بعہد


از: فیاض احمد برکاتی مصباحی
جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ
مہراج گنج بازار ترائی ضلع بلرامپور
Email: faiyazmisbahi@gmail.com


           انسانیت کا اصل مذہب اسلام ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا اصل مذہب ہے ۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا ہی کیاہے اپنی عبادت اور اپنی معرفت کے لیے ۔ بلفظ دیگر خالص توحید اور عرفان توحید ہی تخلیق انسانی کا واحد مقصد ہے ۔  یہ عرفان ، جس جام شیریں سے آتا ہے اس کے ساقی مدینے والے مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔انسانیت کا رشتہ جب بھی توحید کے مے خانے سے ٹوٹتا تھا ، کوئی نیا ساقی بارگاہ خداوندی سے  انسانیت کی طرف جلوہ فگن ہوتا تھا لیکن آخری ساقی اور آخری جام کے آجانے کے بعد اب نہ کسی ساقی کی ضرورت رہ گئی اور نہ کوئی نیا جام انسانیت کے کام آنے والا ہے ۔ اب جو بھی توحید کے مے نوشی کرنے کا خواہش مند بادہ خوار مست وبے خود ہوکر مست الست کی صدا لگانا چاہے گا اسے یہ جام مدینے کے ساقی ہی پلائیں گے ۔  مے توحید کا نام جپنے یا مے خانے کے قریب سے گزرجانے سے توحید کا خمار نہیں چڑھتا  ۔ نہ ہی عرفان توحید کا نام نہاد نشہ دنیا کے ہر نشہ کوہرن کرسکتا ہے ۔ جب تک ساقی سے رشتہ گہرا نہیں ہوگا یہ جام نہیں مل سکتا اور جب تک ساقی کے اوصاف ، کمالات ، حسن ، خوبصورتی ، اخلاق و پاکیزگی ، ژرف نگاہی دلوں میں نہ سماجائے اور دل کے راستے رگ رگ میں نہ پیوست ہو جائے عرفان توحید کا جام میسر نہیں آسکتا ۔ اگر یہ جام اتنی آسانی سے میسر آجاتا تو لاکھوں کی تعداد میں ہمالیہ کی چوٹی پر آسن پر آسن جمائے جوگی ناکامی کا منہ نہیں تکتے ۔ 

مدینے والے ساقی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد جب انسانیت کو اس بات کاخوب اچھی طرح ادارک ہوگیا کہ ہماری روح جس پاکیزہ اور منور جام کی متلاشی ہے وہ اسی در سے میسر ہوگا تو عشاق جوق در  جوق ٹوٹ پڑے اور جو جس قدر سنبھال سکا مست ہوکر مے خواری کرتا چلا گیا ۔ ساقی کے ہاتھ سے نہ مل سکا تو ساقی نے اپنا مے خانہ جن لوگوں کے سپرد کیا ان کے درکے گدا ہو ہوکر عشاقوں نے میے توحید نوش کیا اور مزہ دو آتشہ کرنے کےلیے محبوب کے ذکر سے اپنے سینے کو ٹھنڈک پہونچانے کا کام کیا  ۔ جو جدھر جاتا محبوب کے جلوؤں میں گم رہتا ۔ کوئی نرگسی آنکھ کا مستانا بنا تو کسی نے گیسوئے عنبریں کی قسمیں کھائیں ۔ کسی کی روح قمری  بن کر محبوب کے سرو جاں فضا کی مدح سرائی میں مگن ہوگئی  ۔ کوئی حسن لازوال کی پیچ وتاب میں ایسا گم ہوا کہ نہ خود کا پتہ رہا اور نہ خودی کا نشان مل سکا ۔ تذکرہ محبوب ہی اصل شراب کہنہ بن گئیں ۔  یہ سلسلہ صدیوں چلا ۔  پھر وہی ہوا جو پہلے بھی ہوچکا تھا ۔ انسانیت پھر اپنے اصل سے کٹنے لگی ۔   لوگ  نام تو اسی ساقی کا لے رہے تھے لیکن اب ان کے حصے میں نہ عشق تھا اور نہ ہی جام تھا ۔  ہر طرف لوٹ مچی تھی ، جو چند عشاق بچے تھے اور مے خانے سے تلچھٹ بچائے ادھر ادھر گھوم رہے تھے ان کو بڑی فکر ہوئی کہ اگر ان خانہ خرابوں کے ہاتھ میں یہ تلچھٹ بھی دے دی جائے تو ہوس پرست اسے بھی زیر زمین دفن کردیں گے ۔ اب بادہ خواروں کو مے توحید کے تحفظ کے لیے میے خانے کی تحفظ کی فکر ستانے لگی ۔ ان عشاقوں نے جگہ جگہ لا الہ اللہ کی دھونی رمانا شروع کردی اور ذکر محبوب کے اس چھوٹے چھوٹے  میے خانوں کو میلاد النبی اور یوم النبی کی محفل کا نام دیاجانے لگا  ۔

ان محافلوں میں جو بھی جاتا ذکر محبوب سن کر محبوب کی سیرت کے آئنے میں کھو جاتا ۔ زندگی پر اخلاق حسنہ کی چھاپ پڑ جاتی ۔ حسن محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے سے دل کے تار جھنجھنا جاتے اور ذاکر کی لے سے اس قدر بے خود ہوتا کہ دیوانگی کی کیفیت طاری ہوجاتی ۔  عشق رسالت مآب صلی اللہ وسلم میں بانسری بجانے والے انسانیت کو میے توحید سے سرشار کرنے کے لیے ان راہوں پر چل پڑے تھے جو عام شاہراہوں سے ہوکر نہیں گزرتی تھی بلکہ خاص گذر گاییں تھیں ، جہاں دنیا اور اس کے لوازمات سے بےگانہ ہوکر آنے والوں کو جگہ دی جاتی تھی یا وہ لوگ ان محافلوں کی زینت بنتے تھے  جو جلوہ محبوب کی تابانی میں اپنا سب کچھ جلا کر راکھ کرچکے ہوتے  ۔ 

محبوب کا ذکر ہوتا اور محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے معبود کا ذکر ہوتا ۔ انسانی روح پھر نشہ توحید سے مخمور ہونے لگی ۔  ہر طرف سے” ھو حق ھو” کی صدا سنائی دینے لگی ۔ ذکر محبوب کی یہ محفلیں جن جگہوں پر سجتی اسے خانقاہ کہا جانے لگا ۔ اسی منظر کو دیکھ کر کسی مستشرق نے کہا کہ " جب بھی ایسا لگا کہ اسلام اب مٹ جائے گا ان صوفیوں  نے اسے پھر سے زندگی عطا کردی " ۔ جب بھی ایسا لگا کہ انسانیت کا رشتہ توحید کے ڈور سے ٹوٹ چکا ہے عین اسی لمحے  ان بادہ نوشوں نے اس رشتے کی مضبوطی کا  راستہ طاقت ور بنیادوں پر فراہم کیا ۔ ذکر رسالت ، فکر رسالت ، ذکر توحید اور زم زمہ توحید کے نغموں کی انہی لیے کو میلاد النبی کا اسلامی ثقافتی نام دیا گیا ۔ 
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد مسلمانوں کا تعلق باللہ اور تعلق بالرسالت دوبارہ استوار کرنا تھا ۔ علماء ، صلحاء ، صوفیاء ، ائمہ ان مقاصد میں سوفیصد کامیاب رہے ۔ حکم راں چاہے جس راستے پر رہے ہوں لیکن صوفیا اور علماء کی ایک مخصوص جماعت نے مسلمانوں کے دلوں میں شمع توحید جلائے رکھا اور اس شمع کی روشنی عام سے عام کرنے کے لیے انہوں نے میلاد النبی کو اسلامی تہذیب وثقافت کا ایک اٹوٹ حصہ بنادیا ۔  

فرزندان توحید کے دلوں میں عشق الٰہی اور عشق رسالت کی لو تیز کرنے کے لیے دونوں کا تذکرہ کثرت سے کیا جانا ضروری ہے ۔ میے توحید کی وارفتگی کے لیے بھی ذکر رسالت صلی اللہ علیہ وسلم لازم ہے ۔ ذکر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جس محبت ، خلوص ، للہیت اور ایمان کی پختگی کے ساتھ کرنا چاہیے اس کی مثالیں صحابہ کی زندگی میں موجود ہیں ۔ جب محبوب کی زندگی بے مثال  ہوتی ہے تو  محبت کا سمندر موجیں لیتا ہے ۔ محبوب کا نسب ، محبوب کا اخلاق ، محبوب کا کردار ، محبوب کی رحمت ، محبوب کی شفقت ، محبوب کی قربانی ، محبوب کی  شجاعت آئنے کی طرح نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے تو پھر محب ، اپنے قدم آگے بڑھاتا ہے اور خدا کی عطا سے اپنی محبت کو عشق کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔ 

مسلم حکمرانوں کی واہی تباہی کے بعد اہل اسلام کے عشاقان نے چہار دانگ عالم میں توحید کا جو غلغلہ بلند کیا وہ اسی میلادی تہذیب کی دین تھی ۔  میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی شیفتگی اور اس شیفتگی کا نتیجہ عقیدہ توحید کی پختگی کی صورت میں سامنے آیا اور مسلم معاشرہ ، بے عمل ، بد عمل اور بے راہ رو ہونے سے محفوظ رہا ۔ ان تمام باریکیوں کو مد نظر رکھ کر علماء ، فضلا ، صوفیاء محدثین اور ادباء نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے کتابیں لکھیں ۔ حسن المقصد فی عمل المولد ، مولودالنبی ، شمائل النبی ، خصائص النبی جیسی معرکہ الآرا کتابیں تصنیف ہوئیں ۔

عرب ، مصر ، ترکی ، سوڈان ، الجیریا ، مغرب ، ہندوستان ، ماوراءالنہر ، سمر قند ، بخارا ، عراق اور ایران سمیت عالم اسلام میں میلادالنبی کی روایت رہی ہے اور چند ایک کو چھوڑ کر آج بھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا عالم اسلام کا معمول ہے ۔  مشہور شاعر ابوالحجاج یوسف کا مولود مصر میں کافی مشہور ہے۔ ترکی میں سلیمان چلبی کا  مولود کافی شہرت رکھتا ہے ۔ احمد بن دردیہ کا نثری مولود نامہ بھی کافی شہرت رکھتا ہے ، یہ مولود نامہ  ترکی اور مصر کے صوفیاء کے درمیان متداول ہے ۔ ترکی کے سہروردیہ سلسلے میں بانی سلسلہ کے صاحب زادے حمد اللہ جلبی حمدی کا مولود بہت شہرت رکھتا ہے ۔ نقش بندیہ سلسلے میں محمد عثمان المرغانی کے 'المولود المرغانی ' کو بڑی مقبولیت حاصل ہے ۔  اس مولود کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب کتاب کو خواب میں  یہ مولود نامہ لکھنے کے لیے کہا ۔ 

قادریہ صوفیہ کے سلسلے میں امام برزنجی کا مولود النبی بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے ۔ علوی طریقہ میں علی ابن محمد الجشی کا مولود ' سمط الدرر ' پڑھاجاتا ہے ۔ تیجانی سلسلے میں جوہرۃ الکمال کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ تیجانی سلسلے کے عقیدت مندوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر جوہرۃ الکمال اس کے لوازمات اور شرائط کے ساتھ سات بار پڑھاجائے تو اس کی ساتویں قرات کے درمیان خود نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس محفل میں تشریف لاتے ہیں ۔  تیجانی سلسلے کے ایک بزرگ نے ' مولد انسان الکامل ' لکھی  ۔  

عہد سلطنت میں میلاد رسول کا اہتمام ۔

ہندوستان میں جب سے اسلام آیا ، صوفیاء اور علماء نے میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام رکھا ۔ کیونکہ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلوں سے ہی اسلامی تعلیمات کی شمعیں روشن تھیں ، عہد سلطنت کی تمام خانقاہوں میں مکمل وارفتگی اور شیفتگی کے ساتھ محفل میلاد کا انعقاد ہوتا تھا ۔ اس دور کے عظیم الشان بزرگ مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحی منیری کے ملفوظ میں انعقاد  میلاد کا ذکر ملتا ہے ۔ 

سکندر لودھی بارہویں شریف کے ایام میں بارہ ہزار تنکے کا کھانا پکواتے تھے ، سکندر لودھی ہر پیر کو ایک لاکھ مرتبہ درود شریف کا ختم کیا کرتے تھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرفتوح کے لیے چار سو تنکہ کا چاول پکواتے تھے ۔  جون پور میں بادشاہ سکندر لودھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرس کیا کرتے تھے ۔جس میں چار سو من مصری کا حلوہ اور شربت تیار کیا جاتا تھا ۔  بادشاہ خود شہر کے غربا اور فقرا میں جاکر  یہ تبرک تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (مقدمہ مجلس میلاد مصطفے) 

عہد مغلیہ میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام ۔

عہد مغلیہ کے سلاطین ، علماء ، صلحاء اور صوفیا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ علامہ عبد الحق محدث محدث دہلوی اس محفل کا بڑی شیفتگی کے ساتھ اخبارالاخیار میں ذکر کرتے ہیں ۔  ولی الہی خاندان میں اس محفل کے منعقد کرنے کا توارث تھا ۔  مولانا اسماعیل دہلوی کے مبتدعانہ نظریات کے بعد جب دہلی کی مذہبی فضا مسموم ہوئی تو بہادر شاہ ظفر نے بدایوں سے اس پر تفصیلی فتوی طلب کیا ۔  امت کی بھلائی ، خیر خواہی اور دین سے یک گونہ عوام کا تعلق قائم رکھنے کے لیے علماء ، صلحا، سلاطین اور صوفیاء نے ان محافلوں کا انعقاد ضروری سمجھا جو دھیرے دھیرے اسلامی تہذیب کا حصہ بن گئیں ۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے