Advertisement

کھلی جگہ میں نماز قانون و عدلیہ شریعت کی نظر میں از مفتی محمد ایوب مصباحی

کھلی جگہ میں نماز قانون و عدلیہ شریعت کی نظر میں

 کھلی جگہ میں نماز قانون و عدلیہ شریعت کی نظر میں



از: مفتی محمد ایوب مصباحی 
پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج، سلطان پور، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یو۔ پی۔ انڈیا۔
رابطہ : 8279422079 

اب کہاں ڈھونڈ نے جاؤ گے ہمارے قاتل
تم تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

           وطن عزیز ہندوستان میں متعدد مقامات پر جمعہ کے دن نمازیوں کی کثرت کے باعث صفیں مسجدوں کے باہر عام کھلی جگہ یا شاہراہ پر بچھ جاتی ہیں۔ اور نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے جسے لے کر آۓ دن وبال ہوتا رہتاہے۔ ہندو مسلم منافرت کو ہوا مل جاتی ہے، حزب اقتدار اور اقلیت ایک دوسرے کو جم کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں بعض اوقات وافر جانی ومالی خسارہ بھی ہوتاہے۔ ریاست ہریانہ کے گرو گرام (گڑگاؤں) کا مسئلہ ہمیشہ سرخیوں میں رہتا ہے۔ 
     کھلے میں نماز کو لے کر لوگوں کے ذہنوں میں متعدد سوالات گردش کرتے ہیں جو حسب ذیل ہیں : 
       ١۔ نماز کے لیے روڈ جام کرنا، مسافروں کی آمدو ورفت بند کرنا، دکانوں کو مقفل کرادینا اور مال و متاع کی نقل و حرکت بند کرا دینا درست ہے؟ 
       ٢۔ سرکاری زمین پر نماز پڑھنا صحیح ہے؟ 
      ٣۔ جماعت عامہ سے اداے نماز کے لیے زمین کا وقف ضروری ہے۔ تو کیا وہ اراضی موقوفہ ہیں؟ 
      ٤۔ اگر وہ وقف کی زمین ہے تو کیا یہ وقف بورڈ کی بے حسی اور ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے؟ 
      ٥۔ کیا ایسی عبادت ہونی چاہیے جس سے دوسروں کو تکلیف ہے؟ 
       علاوہ ازیں بے شمار سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہن ودماغ میں گردش کرتے ہیں۔ ہم اپنے اس مقالے میں_ ان شاء اللہ_اس عنوان پر قانون و عدالت اور شریعت کی رو سے بحث کریں گے جس سے تمام سوالوں کے جوابات فراہم ہوجائیں گے۔ 
        سب سے پہلے اس بابت یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ پھر اس پر انتظامیہ ، منسٹرس کا کیا کہنا ہے ؟ عدالت کا اس بابت کیا رد عمل ہے؟ اور شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
        در اصل یہ معاملہ ریاست ہریانہ کے گرو گرام (گڑگاؤں) کا ہے۔ جہاں مسلمان نماز جمعہ مسجدوں سے باہر خالی جگہوں میں ادا کرتے ہیں جس کے باعث بعض دفعہ راستہ بھی مسدود ہو جاتا ہے، مسافروں کی آمد و رفت ملتوی ہو جاتی ہے، گرد و پیش کی دکانیں مقفل ہو جاتی ہیں۔ ماضی قریب وحال میں سنگھ پریوار کو اس پر اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے اس پر ضد کی کہ اگر مسلمان کھلے میں نماز پڑھیں گے تو ہم بھی کھلے میں ہنومان چالیسہ پڑھیں گے ۔ معاملہ اس وقت قابو سے باہر ہوگیا جب آر۔ ایس۔ ایس کی کسی تنظیم کے کچھ بھگوادھاری جمعہ کے روز ان جگہوں پر اکٹھا ہوگئے جہاں نماز ادا کی جاتی ہے اور اس میں رخنہ اندازی کی کوشش کی۔

کھلے میں نماز کو لے کر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کا بیان غیر ذمہ دارانہ

         ریاست  ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے گرو گرام (گڑگاؤں) میں کھلے میں نماز پڑھنے پر ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے مسلمانوں کو ہراساں اور شرپسندوں کو حوصلہ دینے کا کام کیا۔ انھوں اپنے بیان میں کہا:
      "نماز ان مقامات پر پڑھی جاۓ جو نماز کے لیے مختص ہیں۔ جیسے : مسجد، عیدگاہ وغیرہ۔ اگر یہ جگہیں تنگ ہوں تو اپنی ذاتی جگہ پر نماز پڑھنی چاہیے ۔غیر ذاتی یا سرکاری زمین پر نماز پڑھنا اس وقت تک تو درست ہے جب  اس پر کوئی اعتراض نہ کرے لیکن اگر کوئی اعتراض کرے تو اس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔ "
         سی_ایم کے اس بیان کے بعد معاملہ طول پکڑ گیا ، شرپسندوں کے حوصلے مضبوط ہوگئے اور گرو گرام کے سیکٹر ۳۷ میں جم کر نعرے بازی ہوئی۔  

سی۔ ایم کے بیان کے بعد ہندو تنظیم بجرنگ دل کے ایک نیتا کی مسلمانوں کو کھلی دھمکی

         وزیر اعلی منوہر لال کھٹر کے اس بیان کے بعد غیر مسلموں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ کھلے عام دھمکیوں کا تسلسل قائم ہو گیا۔ آر۔ ایس۔ ایس کی ایک تنظیم بجرنگ دل کے ایک نیتا کل بھوشن بھردواج کا ایک بیان وائرل ہوا جس میں اس نے کہا: "ہندو سماج کسی بھی قیمت پر مسلم سماج کو عوامی جگہوں پر سڑک وغیرہ پر نماز نہیں پڑھنے دے گا چاہے کچھ بھی کرنا پڑ جاۓ اس سماج کو، مسلمانوں کے لیے مسجد بنی ہوئی ہے۔ ہندو اپنے مندر میں پوجا پاٹھ کرتاہے۔ ہندو سڑک کے اوپر آرتھی نہیں کرتا۔ ہندو کسی دھرم کے اندر انتشار پیدا نہیں کرتا۔ 
        واضح ہو گرو گرام کے جن مقامات پر لوگ کھلے میں نماز پڑھتے ہیں وہ مساجد کی ہی اراضی موقوفہ ہیں۔ جس کی جانکاری وقف بورڈ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ غیر مسلموں نے پہلے انھیں لیز پر لیا پھر ناجائز قبضہ جمالیا ۔ دوسرے یہ کہ کل بھوشن بھردواج کا یہ کہنا کہ ہندو کسی مذہب والے کی دل آزاری نہیں کرتا اور اپنے مندروں میں پوجا بھجن کرتا ہے ، حقائق سے کوسوں دور ہے۔ اس لیے کہ یہ بات نیم روز سے زیادہ واضح ہے کہ ہندو سماج کے لوگ کانوڑ یاترا میں روڈ جام کردیتے ہیں، ڈی۔جے بجا تے ہیں جس سے ضعیف القلب والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ 
      

 ہریانہ کے وزیر صحت انل وج کا بیان تعصب پر مبنی 

         ریاست ہریانہ کے وزیر صحت انل وج کا بھی یہ بیان سامنے آیا "کبھی کبھی کسی کو کھلے میں یا شاہراہ عام پر نماز پڑھنے کی ضرورت پڑ جاۓ تو اس کی اجازت ہےاور یہ سب کرتے ہیں لیکن اس پر قبضہ کرنے کی نیت سے ایسا کرنا غلط ہے۔ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ "
        محترم قارئین! یہ بیان بر بناے تعصب اور تنگ نظری یا حقائق سے چشم پوشی ہے۔ کیوں کہ یہ کہنا کہ قبضے کی نیت سے ایسا کرنا غلط ہے اس وقت صحیح ہوگا جب نماز سرکاری زمین یا غیر ملکیت پر پڑھی جاۓ حالاں کہ وہ مساجد کی ہی اراضی موقوفہ ہیں جن پر ناجائز قبضہ کرلیا گیا ہے۔

ہریانہ پولس اور سول انتظامیہ فرقہ وارانہ کشیدگی پر قدغن لگانے میں ناکام 

        گرو گرام کے سیکٹر ٣٧ میں کھلے میں نماز کو لے کر ہوۓ فرقہ وارانہ فسادات اور کشیدگی پر قدغن لگانے میں پولس اور انتظامیہ ناکام رہی۔ در اصل مسلمانوں کے کھلے مقامات اور عوامی جگہوں پر نماز پڑھنے پر ہندو تنظیموں اور مقامی باشندوں نے اعتراض جتایا اور اس پر نعرہ بازی بھی ہوئی_ جب کہ کھلے میں نماز پڑھنے کی اجازت مسجد کی جگہ تنگ پڑجانے کے باعث ہے_اور انتظامیہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور مذہبی تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔
        پولس اور انتظامیہ کے کاروائی نہ کرنے اور فرقہ وارانہ تشدد پر روک نہ لگانے پر دلیل یہ ہے کہ "انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بہوجن سماج پارٹی (بی۔ ایس۔ پی) سابق رکن پارلیمان محمد ادیب نے ہریانہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولس (ڈی۔ جی۔ پی) پی۔ کے اگروال اور چیف سیکریٹری سنجیو کوشل پر یہ الزام عائد کیا کہ یہ ان لوگوں پر کاروائی کرنے میں ناکام رہے جنھوں نے نماز پر روک لگانے کی کوشش کی، سابق ممبر آف پارلمینٹ محمد ادیب نے ڈی۔ جی۔ پی، پی۔کے اگروال اور چیف سیکریٹری سنجیو کوشل کے خلاف توہین عدالت اور ہتک عزت کا معاملہ درج کرایا اور دونوں کے خلاف کاروائی کی مانگ کی۔ اپنی پٹیشن میں یہ وضاحت کی کہ دونوں نے سپریم کورٹ کے سال 2018 میں تحسین پونہ والا کیس میں جاری کردہ رہنما اصول یا گائڈلائنس پر عمل نہیں کیا اس لیے دونوں پر توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جاۓ۔ 

تحسین پونہ والا معاملہ کیا ہے؟ 

       آۓ دن اتفاقا یا ارادتا ہونے والی ماب لنچنگ پر سال 2018 میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 17/جولائی 2018 کو تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈین کا فیصلہ سنایا تھا۔ جس میں کہا تھا ہجومی تشدد یا ماب لنچنگ پر روک تھام کے لیے مرکزی اور صوبائی سرکاریں مستقل اور مفصل قانون بنائیں۔ 
         اس کے ذریعے سپریم کورٹ نے پولس محکمہ کو جواب دہ اور ذمہ دار بنانے کی کوشش کی۔ 
            ماب لنچنگ کرنے والوں پر کس طرح کاروائی کی جاتی ہے؟ 
         دراصل ہندوستان میں ہجومی تشدد یا ماب لنچنگ کے معاملے میں مجرموں کے ساتھ جو سلوک و برتاو یا کاروائی کی جاتی ہے وہ انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے تحت کی جاتی ہے الگ سے کوئی مستقل قانون نہیں۔ اسی وجہ سے انڈیا پینل کوڈ کی دفعات کو باریکی سے دیکھنے کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ 
      گروگرام کی موقوفہ اراضی پر غیروں کا قبضہ اور ہماری ناعاقبت اندیشی وسرد مہری! ع
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے 
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں! 
   
        گروگرام ( گڑگاؤں) میں مساجد کے باہر مسلمان جن جگہوں پر نماز پڑھتے ہیں در اصل وہ مسلمانوں کی ہی اراضی موقوفہ ہیں جن پر غیر مسلموں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
      ١۔ وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے مطابق گڑگاؤں میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والےچوموہا گاؤں میں قریب چار ایکڑ زمین _جس میں ایک مسجد بھی ہے_ ٤٠/ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر میرٹھ سٹی کے ڈیفینس کالونی میں رہنے والی مسز میگھا چودھری کو لیز پر دی گئی تھی۔ یہ لیز ۳۱/دسمبر ٢٠١٦ء کو ختم ہوگئی اب یہ مسجد اور جگہ کیسر سنگھ نامی ایک شخص کے ناجائز قبضے میں ہے۔ 
        ٢۔ ہدایت پور چھاؤنی گاؤں کی ایک جامع مسجد کو پرتیک کمار، پریم پرکاش، سنجے گویل اور رام کرشن نام کے چار اشخاص نے مل کر وقف بورڈ سے کرایہ پر لیا تھا۔ سال ٢٠١٧ء میں یہ مدت لیز ختم بھی ہوگئی اور مسجد ابھی تک کرشن نام چند کے ایک شخص کے ناجائز قبضے میں ہے۔ یہ حال صرف مسجد کا نہیں بلکہ قبرستان اور عیدگاہوں کا بھی ہے۔ جس کی تفصیل تنگیی وقت کے باعث ترک کی جارہی ہے۔

وقف بورڈ اور وقف مینیجمینٹ آف انڈیا کے پاس مساجد کی تفصیلات:

      پورے ضلع گڑگاؤں میں  ۸۹/مساجد ہیں ۔ جب کہ شہر گڑگاؤں میں وقف بورڈ کے تحت آنے والی کل رجسٹرڈ ٣٥/ مساجد ہیں۔ جن کی فہرست وقف بورڈ اور وقف مینیجمینٹ آف انڈیا دونوں کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں سے ٢١ / پر غیر مسلموں کا ناجائز قبضہ ہے۔ جب کہ ایک مسجد پر پرائمری اسکول اور ایک پر گرودوارہ بن چکا ہے۔ ١١/مساجد کو موجود بتایا گیا ہے جن میں بعض کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ اور بعض کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ باقی تین مساجد کے بارے میں وقف مینجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔
           سال 2018 میں ہریانہ وقف بورڈ نے ضلع انتظامیہ کو 19/مقامات کی فہرست دی تھی جہاں مسلمان خود کی مسجد ہوتے ہوئے بھی نماز ادا نہیں کر پارہے۔ بورڈ نے ہریانہ ضلع کمشنر کو ایک خط لکھ کر یہ اطلاع دی تھی کہ وقف بورڈ کے تحت آنے والی 9/مساجد پر گاؤں والوں کا قبضہ ہے۔ اور 10/مقامات ایسے ہیں جو نماز کے لیے مختص ہیں۔ لیکن شر پسند وہاں نماز ادا نہیں کرنے دے رہے۔ یہاں وقف بورڈ پر یہ سوال عائد ہوتاہے کہ جب اس کے تحت 89/مساجد آتی ہیں تو پھر 19/مساجد کی ہی فہرست کیوں دی گئی؟ کیا باقی تمام مساجد بحال ہیں؟ اور دے ہی دی تو آگے کی کاروائی کیا ہوئی؟  (ماخوذ از: www.nic.in ) 
        قارئین کرام! مذکورہ جملہ معلومات کی روشنی میں ماقبل میں کیے گئےتمام سوالوں کے جوابات مل گئے 
      ١۔ جب وہ زمینیں مسجدوں کی ہی ہیں۔ وقف بورڈ نے جس کی وضاحت کردی تو مسلمانوں کا ان جگہوں پر نماز پڑھنا اپنی جگہوں پر نماز پڑھنا ہے اب اگر اس سے روڈ جام ہورہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقف کی زمین پر روڈ بن گیا اور انتظامیہ نے وہ زمین حق والے یعنی مسلمانوں کو نہ دلائیں جس کی وجہ سے راستے کی آمد ورفت بند ہوئی، دکانیں مقفل ہوئی۔ مسلمانوں کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ لیکن عصبیت کی انتہا تو دیکھییے! مسلمانوں کو وہ زمینیں واپس دلانے کے بجاے انھیں ہی مجرم قرار دیا جاتاہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام 
وہ قتل بھی کردیں تو چرچا نہیں ہوتا

         ٢۔ جب وہ اراضی موقوفہ ہیں تو سرکاری زمین پر نماز پڑھنا بھی نہیں پایا گیا۔ بے اذن تو حاشا وکلا! 
         ٣۔ دلائل سے قطعا ثابت ہوگیا کہ وہ وقف کی ہی زمین ہے۔ 
        ٤۔ بلا شبہ وقف کی زمینوں کا غیروں کے قبضے میں چلے جانا وقف بورڈ کی ناعاقبت اندیشی ہے کہ غیر مسلموں کو کبھی مسجد کی زمین کرایہ پر نہیں دینی چاہیے تھی کہ یہ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں مسلمانوں کے لیے ان کے قلوب بغض و عداوت سے لبریز ہیں اور سرد مہری یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی مضبوط کاروائی نہ کرائی کہ مساجد بحال ہوتیں
         ٥۔ جب وہ جگہیں مسلمانوں کی مساجد کی ہیں تو دوسروں کا تکلیف میں مبتلا ہونا بے کار ہے۔ بلکہ یہ تو دوسرے کے مال پر اپنا حق جمانا ہے۔ یا پھر "بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانہ" کی مثل ہے  کہ زمین ہے مسلمانوں کی اور شر پسند انھیں ہی الزام دیتے ہیں۔ 
      وقف بورڈ کی اس وضاحت کے بعد جتنے بھی سوالات کھلے میں نماز کو لے کر کیے جاتے ہیں سب ھباءا منثورا ہوگئے۔

١٩٩٤ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟ 

      (نظریں بدل گئیں تو نظارے بدل گئے) 
       بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک میں اب قانون نہیں بچا۔ ١٩٩٤ء میں عدالت عالیہ نے بابری مسجد کیس میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے، نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ فیصلہ دے کر بابری مسجد غصب کرنے کی کوشش کی ، جو اب غصب کرلی گئی ہے اور ہندو دھرم کے لوگوں کو خوش کرتے ہوۓ ساری زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دینا چاہی جو اب دے بھی دی گئی ہے اور رام مندر تعمیر بھی ہوگیا اور مسلمانوں کو ان کے اپنے حق سے یہ کہ کر محروم کردیا گیا کہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد ضروری نہیں، نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے آج جب یہی بات مسلمان کہتا ہے تو اور اس فیصلے کی روشنی میں گرو گرام میں کھلے میں نماز کی اجازت طلب کرتا ہے حالاں کہ یہ بھی محقق و مسلم ہے کہ وہ زمینیں مسلمانوں ہی کی ہیں جس کے لیے کسی سے اجازت کی چنداں ضرورت نہیں۔ تو سپریم کورٹ اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیتا ہے اور صوبائی اور مرکزی سرکاروں کو قانون سازی کا اختیار مرحمت کردیتاہے۔ 
         ہم سب سپریم کورٹ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ  ١٩٩٤ء کا دیا گیا فیصلہ باقی رکھا جاۓ اور مسلمانوں کو کھلے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ یا پھر تمام مساجد کو بحال کیا جاۓ۔ اور جہاں مساجد نہ ہوں وہاں سرکار مساجد کی تعمیر کے لیے سہولیات فراہم کرے اور کھلے میں نماز کو لے کر جو تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات مچانے کی کوشش کرے ان پر سخت سے سخت کاروائی کی جاۓ۔

گروگرام کے بعد اترپردیش کے مختلف اضلاع میں ہونے والے تنازعات! 

       ١۔ اترپردیش کی راجدھانی شہر لکھنؤ کے لولو مال میں کچھ لوگوں کے نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہوئی اس کے بعد ہندوتوادی تنظیموں نے ہنومان چالیسہ پڑھنے کا اعلان کیا اور اس مال میں کچھ شرپسندوں نے ہنومان چالیسہ پڑھ بھی دیا جس کے بعددونوں فریق کو گرفتار کرلیا گیا یہ مال لکھنؤ کا سب سے بڑا مال ہے ۔ ١٠ /جولائی کو لولو گروپ انٹرنیشنل کے چئیرمین یوسف علی ساکن کیرلہ مقیم متحدہ عرب امارت سی_ایم یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ اس لولو مال کے افتتاح میں موجود تھے۔ 
       ٢۔ ٢١/جولائی کو پریاگ راج میں ریلوے اسٹیشن پر دس افراد کے نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس پر تحقیقات کے بعد پولیس نے کاروائی کی بات کہی۔ 
      ٣۔ ٢٥/جولائی کو میرٹھ سٹی سہراب  گیٹ پر ایک شاپننگ مال میں نماز پڑھتے ہوئے ایک شخص پر کاروائی کی گئی۔ 
       ٤۔ قبل ازیں جنوری میں بنگلور کے ایک اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں نماز پڑھتے کچھ لوگوں کو دیکھ کر دنگائی اور شرپسند وہاں آۓ اور ہنومان چالیسہ ہڑھنا شروع کردیا۔ 
         اس کے علاوہ ملک مختلف اکناف و اضلاع میں کھلے میں نماز پر وبال کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

کھلے میں نماز کا از روے شرع کیا حکم ہے؟ 

       غصب شدہ زمین پر  نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، اس کا اعادہ واجب ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت جلد سوم ہیں ہے:
 "زمین مغصوب یا پراے کھیت میں جس میں زراعت موجود ہے یا جتے ہوے کھیت میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔"  (بہار شریعت، حصہ :٣، ص: ١٧٠) 
     ایسا ہی فتاوی رضویہ میں ہے کہ آپ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ چوری کیے ہوئے کپڑے پہنے کر نماز پڑھی تو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:
      " چوری کا کپڑا پہن کر نماز پڑھنے میں اگرچہ فرض ساقط ہوجاۓ گا، لان الفساد مجاور مگر نماز مکروہ تحریمی ہوگی، للاشتمال علی المحرم جائز کپڑا پہن کر اس کا اعادہ واجب ہے۔  (فتاوی رضویہ، ج: ٣، ص٤٥١)
           فتاوی عالمگیری می ہے :
      "الصلوۃ فی ارض مغصوبۃ جائزۃ ولکن یعاقب بظلمہ فما کان بینہ وبین اللہ تعالی یثاب وماکان بینہ وبین العباد یعاقب کذا دی مختار الفتاوی۔ "
     فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے:
       "ناجائز طور پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا اپنے وقار اور مال کو داؤں پر لگانا ہے اور اس پر مسجد بنانا بھی جائز نہیں کہ کسی بھی وقت حکومت اسے واپس لے سکتی ہےجس کے نتیجے میں اس حصے میں تعمیر شدہ مسجد کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس لیے ملکی قانون کی خلاف ورزی کرکے ناجائز طور پر قبضہ پھر اس پر مسجد بنانا ہرگز روا نہیں اس سے اجتناب ضروری ہے۔  (فتاوی مرکز تربیت افتا، باب مایکرہ فی الصلوۃ)



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے