Advertisement

علم، قلم اور تحریر پہلی قسط از محمد توصیف رضا قادری علیمی

علم، قلم اور تحریر پہلی قسط

علم، قلم اور تحریر


قسط اول


از : محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار، بہار۔)
شائع کردہ: 20/اکتوبر/2022 
 aalahazratmission92@gmail.com


قلم علم و آگہی کا وسیلہ ہے، اس کی شہادت خود قرآن پاک نے دی ہے، بلکہ رب کائنات نے قلم کی قسم کھا کر اس کی عظمت و اہمیت کو لازوال کردیا ہے۔ امت کے لیے تعلیم بالقلم اللہ کی جانب سے ایک عظیم نعمت اور احسان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تھی جس کو محفوظ رکھنا مشکل تھا، اس لیے وہ تعلیم دیرپا نہیں رہ پاتی، بہت جلد منحرف ہوجاتی، یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے قلم اور تحریر کا طریقہ سکھایا۔ 
اس کی اہمیت و افادیت ،قدر و منزلت اور حرمت و عظمت اصحابِ قلم و قرطاس کے نزدیک مسلم ہے. قلم دیکھنے میں تو ایک معمولی سا آلہ معلوم ہوتا ہے، مگر یہ اتنا طاقتور شئ ہے کہ انسان کو کسی مادی یا غیر مادی شئےکے مثبت یا منفی پہلوؤں سے روشناس کراتا ھے. قلم تاریخ کو محفوظ رکھتا ہے. رائے عامہ کی تشکیل و تطہیر کا فریضہ انجام دیتا ہے. قومی سطح پر یکجہتی و استحکام پیدا کرتا ہے. قومی سوچ کا رخ متعین کرتا ہے. قوم کی فکری تہذیب میں مدد دیتا ہے. 
نسل انسانی کے اندر تحقیق و تجسس کے جذبے کو ابھارتا ہے. قلمی رشحات و نگارشات اقوامِ عالم اور ان کی تہذیبوں کی بنیاد بنتی ہیں. قلم ہی ضمیر کے لئے زبان کا کام کرتا ہے. اسی سے مختلف افکار وخیالات کو تحریری شکل دی جاتی ہے، اس کا تاریخ کا دھارا بدلنے میں اہم کردار رہا ہے. علم و معرفت قلم ہی پر قائم ہے. قلم نفسیاتی جنگ اور تہذیبی یلغار کا بہترین حربہ اور علمی کاوشوں کو جاویدانی عطا کرنے کا ایک کار آمد آلہ ہے.  
قلم انسانی دلوں اور روحوں کو مسخر کرتا ہے، اور ان کے قلوب و اذہان میں انقلاب لاکر ان کی کایا پلٹ دیتا ہے. تلوار کی فتوحات عارضی ہوتی ہیں، مگر قلم کی فتوحات لازوال ہیں. یقیناً قلم وہ تیز ونازک ہتھار ہے جو تلوار سے زیادہ طاقتور اور لوگوں پر تشدد و طاقت کے استعمال سے زیادہ مؤثر ہے۔۔۔
آج کتنے اصحابِ سیف و سنان کو دنیا فراموش کر چکی ہے، مگر اصحابِ قلم وقرطاس زندہ و جاوید ہیں. یہ قلم ہی کی طاقت ہے کہ ایک کم عمر مفتی بریلي کی دھرتی پر نمودار ہوئے اور اپنی تحریروں کے ذریعے بر اعظم میں چھا گئے۔۔ اپنے تو اپنے غیر بھی آپ کو اعلیٰ حضرت کے نام سے یاد کرتی ہے۔
بہر کیف! دور جدید میں قلم اپنی شخصیت کو نکھارنے اور سماج میں اعلی مقام حاصل کرنے کا ایک عمدہ وسیلہ بھی ہے. نیز ایک صاحب قلم کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں اعتدال اور عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑے، کسی قوم يا جماعت سے دشمنی ان کو انصاف اور راہ اعتدال سے نہ ہٹنے دے ہر حال میں عدل و انصاف سے کام لے۔
اس سے تعمیری ادب میں قلم کی شان اور بان اور نکھر جاتی ہے اور قلم کے نقوش میں اگر خون جگر بھی شامل ہو تو وہ دو آتشہ بن جاتے ہیں، جو لوگ ادب برائے زندگی کے حامل ہوتے ہیں تعمیری اور فکری ادب کے لیے کام کرتے ہیں، ان کی تحریروں میں تاثیر زیادہ پائی جاتی ہے۔
اور اسلاف کی قلمی تحریریں ہر دور میں ہمارا سرمایۂ حیات، سرچشمۂ طاقت اور دعوتِ نشاط وعمل کے ساتھ لہو کو گرم رکھنے کا پاور ہاؤسز ہیں. اگر یہ قیمتی سرمایہ نہ ہوتا تو آج ہم کتنے مفلس،یتیم اور بے سہارے ہوتے، اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑا کر دینے والا ہے. قلمی تحریر کے نقوش جبینِ دَہَر پر ہمیشہ درخشندہ اور تابندہ ہوتے ہیں۔

جاری


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے