Advertisement

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری قسط از مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی


علم غیب مصطفی ﷺ


گزشتہ سے پیوستہ

آخری قسط


از: مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی
استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔



 خادم کے چہرے سے حیرت و استعجاب کی پر اسرار خاموشی ٹپک رہی تھی، آتے ہی اس نے خبر دی: اب میرے لیے تمھاری شخصیت سر تا سر ایک معمہ بن گئی ہے ، کلیسا کی ایک صدی کی لمبی تاریخ میں تم پہلے انسان ہو جسے ہمارے تارک الدنیا شیخ نے اپنی خلوت خاص میں باریاب ہونے کی اجازت دی ہے بلکہ تمھاری سحر طراز شخصیت نے انھیں سراپا اشتیاق بنادیا ہے ، وہ نہایت بے تابی کے ساتھ اپنے خلوت کدہ میں تمھارا انتظار کر رہے ہیں ، جلدی چلوور نہ ایک لمحے کی تاخیر بھی جذبہ شوق کے لیے گراں بار بن جاۓ گی ۔ حضرت ابو بکر مجسمہ حیرت بنے ہوۓ اٹھے اور اس کے پیچھے پیچھے راہب کے حجرۂ خاص میں داخل ہوئے ۔ کئی سو برس کا بوڑھا راہب جس کی بھنویں سفید ہو کر لٹک گئی تھیں اور ہڈیوں کے ڈھانچہ کے سوا سر سے پا تک جسم انسانی کا کہیں کوئی گداز نظر نہیں آرہا تھا، خیر مقدم کے لیے کھڑا تھا۔
 حجرہ میں قدم رکھتے ہی ایک مدھم سی آواز کان میں آئی: اگر تم وہی ہو جس کی چند نشانیاں میرے پاس محفوظ ہیں تو آج تمھارے دیدار کا شرف حاصل کر کے میں ہمیشہ اپنی خوش نصیبی پر فخر کروں گا ۔ یہ کہتے ہوۓ اپنی لٹکی ہوئی پلکوں کو آنکھوں کے روزن سے ہٹایا اور چراغ کی تیز روشنی میں سر سے پا تک ایک بار سارے جسم کا جائزہ لیا، کبھی کتاب کے بوسیدہ ورق پہ انگلی رکھتا، بھی چہرے کے خد و خال کا مطالعہ کرتا ، نوشتہ کتاب اور صحیفۂ رخ کا کافی دیر تک تقابل کرنے کے بعد ایک مر تبہ عالم بے خودی میں آواز دی: زحمت نہ ہو تو اپنے داہنے ہاتھ کی کلائی ذرا میری آنکھوں کے قریب کر دو ۔ کلائی پر تجسس کی نگاہ ڈالتے ہی اس کے جذبات قابو سے باہر ہوگئے ، اپنے لرزتے ہوۓ ہونٹ سے انگلیوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا: اجازت دو کہ میں تمھیں امیرالمومنین ابو بکر صدیق کہ کر پکاروں ، تحیر آمیز لہجے میں حضرت ابو بکر نے کہا سمجھ میں بات نہیں آئی کہ صرف ایک رات بسر کرنے کے سوال پر کتنا بکھیڑا پھیلا دیا ہے تم نے ، کبھی ہم سے مکے کا جغرافیہ پوچھتے ہو ، کبھی میرا اور میرے باپ کا نام دریافت کرتے ہو، کبھی کئی سوبرس کا پرانا کاغذ لے کر میرے چہرے اور جسم کے نشانات کا جائزہ لیتے ہو، اور اب تم نے مجھے ایسے نام سے موسوم کرنے کی اجازت چاہی ہے جس نام سے میرے باپ نے موسوم ہی نہیں کیا تھا، تم ہی سوچو آخر یہ کیا تماشہ ہے ؟ ۔ درماندہ انسانوں کے ساتھ اس طرح کا مذاق ایک تارک الدنیا راہب کو ہر گز زیب نہیں دیتا۔ سیدھے سادھے انداز میں ایک رات بسر کرنے کی اجازت دینی ہو تو دے دو ورنہ آسمان کا شامیانہ ہمارے لیے بہت کافی ہے ۔ یہ کہ کر حضرت ابو بکر واپس ہی ہونا چاہتے تھے کہ راہب نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔   ہاۓ کاش ! آسمانی بشارت سن کر تم آزردہ خاطر ہوگئے ، معاذ اللہ ، روے زمین کی ایک محترم ہستی سے میں بھی مذاق نہیں کر سکتا تمھارے مقدر کے جو نوشتے میرے پاس محفوظ ہیں ، میں نے انھیں صرف پڑھ کر سنایا ہے۔ آج میری باتوں کا شاید تم یقین نہ کرسکو لیکن سن لو کہ مکہ کے افق سے رسالت کا وہ خورشید انور بہت جلد طلوع ہونے والا ہے جس کے جلو میں ایک روشن سیارہ کی طرح قیامت تک تم درخشاں رہوگے۔ آسمانی صحائف میں گیتی کے آخری پیغمبر کے جلوہ گر ہونے کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں، ان ہی کے ذیل میں تمھاری فضیلت و تقرب کی جو نشان دہی کی گئی ہے اس کی واضح علامتیں میں تمھاری شخصیت کے آئینے میں پڑھ رہا ہوں ، تمھارے دیکھتے ہوئے چہرے کی تو بات ہی کیا ہے کہ تمھارے داہنے ہاتھ کا یہ تل بھی ہماری کتاب میں موجود ہے ۔ عبرانی زبان سے واقفیت ہو تو اپنا سراپا تم خود ہی ان آسمانی نوشتوں میں پڑھ لو۔ بہر حال اب تم ایک غریب الدیار مسافر نہیں ہو ، تجلیات قدس کے نگار خانوں کے وارث و نگراں ہو، اس خانقاہ کی دیواروں کا سایہ تو کیا چیز ہے تم چاہو تو میری سفید پلکوں میں رات گزار سکتے ہو۔ ایک ہنگامہ خیز تیر کے ہجوم میں حضرت ابو بکر راہب کے خلوت کدے سے اٹھے اور کلیسا کے ایک حجرے میں آکر لیٹ گئے ، ساری رات راہب کی گفتگو بزم خیال میں گردش کرتی رہی، ذہن میں طرح طرح کے تصورات کا طوفان امنڈتا رہا، ایک لمحے کے لیے بھی انھیں نیند نہیں آئی۔ صبح کو جب رخصت ہونے لگے تو راہب کی الوداعی ملاقات کا منظر بڑا ہی درد ناک تھا ، اشک بار آنکھوں سے پیشانی کا بوسہ لیتے ہوۓ بوڑھے راہب کا یہ جملہ مکہ کی واپسی تک ان کے حافظے پر نقش رہا '' تمھاری زندگی میں فیضان الہی کی جب وہ سحر طلوع ہو تو مجھے بھی فیروز بخت دعاؤں میں یاد رکھنا ''
کئی مہینہ کے بعد آج حضرت ابو بکر اپنی تجارتی مہم سے مکہ کو واپس لوٹ رہے تھے ، شبانہ روز چلتے چلتے اب صرف ایک منزل کی مسافت رہ گئی تھی ، کھجوروں کے جھنڈ سے گزرتے ہوۓ راہب کے سوالات حافظے کی سطح پر ابھرنے لگے ۔ ام القری کی پہاڑیوں پر نظر پڑتے ہی ایک معنوی کیف سے دل کا عالم زیر و زبر ہونے لگا، فطرت الہی کی کوشش سے اونٹنی کی رفتار تیز ہوگئی ۔ تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد مکے کی عمارتیں چمکنے لگیں ، نظر پڑتے ہی جذبہ شوق کے تلاطم میں سواری سے نیچے اتر پڑے ، غلام نے اونٹنی کی مہار تھام لی ، آبادی میں داخل ہوتے ہی کہیں سے ابوجہل نے دیکھ لیا اور آواز دیتا ہوا دوڑ کر قریب پہنچا، ملاقات کے بعد ابوجہل نے فوراً یہ خبر سنائی : ” تم غالبا ایک عرصے پر اپنے سفر سے واپس لوٹ رہے ہو ، شاید تمھیں معلوم نہیں ہوگا کہ تمھارے جانے کے بعد یہاں کیا گل کھلا ہے “۔ حضرت ابو بکر نے جواب دیا: پردیس میں معلومات کا ذریعہ ہی کیا تھا، ویسے اپنے بعد یہاں کے واقعات کی مجھے کوئی اطلاع نہیں ہے ، کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہے تو سناؤ۔ ابو جہل نے طنز کرتے ہوۓ کہا: عبد اللہ کے بیٹے محمد کے متعلق تم بھی جانتے ہو کہ اپنے قبیلے میں وہ کتنا معزز اور ہر دل عزیز تھا۔ سارا شہر اس کی شرافت اور تقدس کا لوہا مانتا تھا لیکن تمھیں حیرت ہوگی کہ ادھر چند دنوں سے ایک عجیب و غریب ڈھونگ رچایا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ : میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں، میرے پاس ایک فرشتہ آسمان سے وحی لے کر اترتا ہے ،اب وہ کھلے بندوں اپنے آباو اجداد کے خداؤں کی مذمت پر اتر آیا ہے ، لات و ہبل کے سنگ آستاں سے باغی بناکر وہ لوگوں کو ایک نادیدہ خدا کی پرستش کی دعوت دے رہا ہے ، دنیاے عرب کے قدیم مشرب کے خلاف اس باغیانہ اقدام پر سارے مکے میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔   فی الحال ابوطالب کی ضمانت پر اس کے خلاف ابھی کوئی تعزیری کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی ہے ، لیکن حالات شاہد ہیں کہ جس دن وہ اپنے بھتیجے کی حمایت سے دست بر داری کا اعلان کر دیں گے اس دن مکے کی زمین اپنی وسعت کے باوجود اس پر تنگ ہو جاۓ گی ۔ قوم میں تمھاری ذہانت و سنجید گی ضرب المثل ہے ، عام طور پر تمھاری بات کا بہت زیادہ وزن محسوس کیا جاتا ہے ، ہمیں امید ہے کہ اس فتنے کی سرکوبی میں تم اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے اپنی قوم کو شکر گزار بناؤ گے ۔ ابوجہل کی گفتگو سن کر حضرت ابو بکر کی نگاہوں کے سامنے ایک نئی زندگی کا مستقبل چمکنے لگا ، راہب کی پیشین گوئی بظاہر حقیقت کے سانچے میں ڈھلتی ہوئی محسوس ہونے لگی ، جذبات کے تلاطم پر قابو پاتے ہوۓ انھوں نے جواب دیا : ابھی تو میں ایک طویل سفر سے واپس لوٹ رہا ہوں ، چہرے کی گرد تک صاف نہیں کر سکا ہوں بطور خو د حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی راے قائم کر سکوں گا ، ابھی سر راہ عجلت میں کیا کہ سکتا ہوں۔ 
ابوجہل سے پیچھا چھڑا کر سید ھے اپنے گھر تشریف لاۓ ، غلبہ شوق اور جذب طلب نے اتنی بھی مہلت نہیں لینے دی کہ سامان اتار کر گھر میں قدم رکھتے ، اسی مسافرانہ سج دھج میں بنوہاشم کے قبیلے کی طرف نکل پڑے ، سیدھے ابو طالب کے گھر پہنچے اور سرکار اقدس کی بابت دریافت کیا معلوم ہوا کہ وہ کوہ بوقبیس کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ ایک نامعلوم وارفتگی شوق کے عالم میں جیسے ہی وہ کوہ بوقبیس کے قریب پہنچے، دیکھا کہ دامن کوہ میں سر کار ایک چٹان پر تشریف فرما ہیں ، عارض تاباں سے رحمت و نور کا آبشار پھوٹ رہا ہے ، قدموں کی آہٹ پاتے ہی رخ اٹھا کر دیکھا اور مسکراتے ہوۓ ارشادفرمایا:
 مرحبا أهلاً وسهلاً : مبارک ہو تمھارا آنا مبارک ہو۔
خیر مقدم کا انداز بتارہا تھا کہ وہ یوں ہی نہیں بیٹھے تھے ، کسی نئے آنے والے کا انتظار تھا انھیں۔ اعلان نبوت کے بعد حضرت ابوبکر کی یہ بالکل پہلی ملاقات تھی ۔ مسرتوں کے انوار سے سرکار کا چہرہ جگمگا رہا تھا ، کیوں نہ ہو کہ آج امت مرحومہ کی بنیاد پڑنے والی تھی ، حضرت ابوبکر اپنے نوشتہ تقدیر کا انجام دیکھنے کے لیے حیرانی کے عالم میں خاموش کھڑے ہی تھے کہ گل قدس کی پتیوں کو حرکت ہوئی اور کشور دل کو فتح کرنے والی ایک آواز فضا میں بکھر گئی۔ ابو بکر ! کلمہ حق کی طرف سبقت کرنے میں پیچھے آنے والوں کا انتظار نہ کرو ، خدا کا آخری پیغمبر تمھیں حیات سرمدی کی دعوت دے رہا ہے اسے بغیر کسی پس و پیش کے قبول کرو۔ 
حضرت ابوبکر نے سر جھکاۓ ہوۓ جواب دیا خدا کے رسولوں کے متعلق میں نے سنا ہے کہ جب وہ دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو منصب رسالت کی تصدیق کے لیے اپنے ہمراہ کچھ نشانیاں لے کر آتے ہیں ، میں بھی اپنے تئیں اطمینان قلب کے لیے کسی نشانی کا امیدوار ہوں ۔ سر کار رسالت نے حضرت ابو بکر کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا :
 نشانیوں سے گزرنے کے بعد بھی تمھیں اب تک نشانی کی احتیاج باقی رہ گئی ہے ؟ کلیسا کی اس سنسان رات کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ یاد کرو!
 تمھاری داہنی کلائی کا تل دیکھ کر شام کے راہب نے تم سے کیا کہا تھا؟ میری رسالت کی تصدیق کے لیے کیا آسمانی صحائف کے وہ نوشتے کافی نہیں ہیں جنھیں رات کی تنہائی میں اس بوڑھے راہب نے تمھیں پڑھ کر سناۓ تھے؟ پھر تمھاری روح کا وہ اضطراب مسلسل جس نے تمھاری آنکھوں کی نیند اڑادی ہے اور جو تمھیں غبار آلود چہرے کے ساتھ کشاں کشاں یہاں کھینچ کر لایا ہے کیا میری رسالت کے اقرار کے بغیر بھی اس کی تسکین کا اور کوئی سامان ہو سکتا ہے؟   فرط حیرت سے حضرت ابو بکر پر ایک سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی ، سارا وجود حقیقت کے بے نقاب جلووں میں شرابور ہو کے رہ گیا۔ جذبات کے تلاطم میں بے محابا چیخ اٹھے : اب مجھے کسی اور نشانی کا انتظار نہیں ہے ، اپنی آنکھوں کے روزن سے جو ہزاروں میل کی مسافت پر پیش آنے والے واقعات کا تماشائی ہو یہ شان سواے رسول برحق کے اور کس کی ہوسکتی ہے ؟ جو عالم فانی کے مخفی امور کو بالکل مشاہدات کی طرح جانتا ہے اس کے متعلق یہ عقید ہ رکھنے میں اب کوئی تامل نہیں رہا کہ وہ عالم بالا کی حقیقتوں سے بھی یقینا باخبر ہے ۔ دل تو پہلے ہی مومن ہو چکا تھا اب زبان سے بھی اقرار کرتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور خداے واحد کے سوا کوئی پرتش کے قابل نہیں ہے۔ اسلام کی تاریخ میں توحید و رسالت کا یہ پہلا اقرار تھا جو رسول اللہ ﷺ کی غیب دانی کے پس منظر میں منصہ شہود پر آیا ۔ اب ذرا عقل نا ہنجار کی فتنہ سامانی دیکھیے کہ جس عقیدے کو قبول کر کے تاریخ کا سب سے پہلا مسلمان عالم ظہور میں آیا وہی عقیدہ آج کے بد اندیشوں کے تئیں حلقۂ اسلام سے اخراج کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ (زلف و زنجیر مع لاله زار، ص: 173 ت اص:182)


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے