Advertisement

عید میلاد النبی ﷺ اور ہماری ذمہ داریاں از محمد نظام احسنی مصباحی

عید میلاد النبی ﷺ اور ہماری ذمہ داریاں

عید میلاد النبی ﷺ اور ہماری ذمہ داری



از: محمد نظام احسنی مصباحی (ایم اے اردو)
متعلم:  الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ



حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جان عالم، وجہ تخلیق کائنات اور افضل الرسل ہیں آپ کی ذات اقدس دنیا کی واحد ذات مقدس ہے کہ جس کے قول و فعل، خطاب اور انداز تکلم بلکہ ہر ہر ادا کو محفوظ کیا گیا اور سند کے ساتھ روایت کیا گیا ۔

ولادت باسعادت:

آپ ﷺ  کی ولادت 12 / ربیع الاوّل عام الفیل یعنی جس سال اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا بمطابق 8/ جون 570 عیسوی شہر مکہ میں ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریبا 570 سال کے وقفہ کے بعد حضور اقدسﷺ کی ولادت ہوئی اسی لیے لوگ بت پرستی کرنے لگے اب ایک لمبے عرصے کے بعد ان کو اسلام کی طرف بلانا ایک دشوار مرحلہ بن گیا تھا۔

آپ ﷺ سب سے افضل حسب و نسب والے ہیں:

ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے حضرت مطلب بن ابی وداعہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا لگ رہا تھا گویا کہ آپ ﷺ کو کوئی بات نا گوار سی سی لگی اس کے بعد حضور ﷺ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا میں کون ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا آپ رسول خدا ہیں آپ نے فرمایا ہاں پھر فرمایا کہ میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں  جب خدائے تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے سب سے بہترین انسانوں میں پیدا کیا پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے بہترین طبقے میں رکھا پھر مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں پیدا کیا اس کے بعد گھرانے بنائی تو مجھے بہت اعلیٰ گھرانے میں پیدا کیا اور میں ان میں سے اعلیٰ نسب والا ہوں رواه الترمذي في سننه و احمد في مسنده. امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ آپ حسب و نسب کے اعتبار سب سے افضل ہیں اور آپ حسن و جمال، شان و شوکت اور رفعت و بلندی ہر کے اعتبار سے تمام مخلوق سے افضل ہیں۔
 

عید میلاد النبی ﷺ کا ثبوت:

جشن عید میلاد النبی کا ثبوت قرآن و حدیث, اجماع و قیاس اور اس کے علاوہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے اور دوسری اصل چیز یہ کہ شرع میں اس سے منع وارد نہیں اور اشیاء میں اصل اباحت ہے اور قرآن و حدیث نے حرام و حلال کو واضح طور پر بیان فرما دیا اب اس کے غیر کو جو نا جائز و حرام کہے تو وہ دلیل لائے آئے اور حدیث موقوف سے یہ ثابت ہے  کہ جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ عند اللہ بھی اچھی اور حسن ہے۔ اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا لیکن کبھی احسان نہیں جاتایا لیکن جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو  اللہ پاک بطور احسان فرماتا ہے:
 لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا
ترجمہ بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا  مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے  ایک رسول  بھیجا ۔
 مزید رب تعالی فرماتا ہے:
  قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا
 ترجمہ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔ یہ آیت واضح طور پر اعلان فرما رہی ہے کہ اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی رحمت پر خوشی مناؤ او اور خوب چرچا کرو  اور قرآن پاک سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کو رب العزت نے رحمت بنا کر بھیجا ہے ارشاد فرماتا ہے:
  وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ 
ترجمہ اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔  قرآن پاک نے ہی   تفسیر کر دی کہ آپ اللہ کی رحمت ہیں اور سب سے بہتر تفسیر تفسیر القرآن بالقرآن ہے تو ثابت ہوا آپ اللہ کی رحمت ہیں اور آپ کی آمد پر خوشی منانے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے۔
حضرت ابو قتادہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو شنبہ  کو روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: «فیہ ولدت وفیہ انزل علي» یعنی اسی روز میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی 
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب  مرا تو ایک سال بعد میں نے اسے برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے سنا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب نہ ہوا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے حضرت عباس فرماتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور کی ولادت  پیر کے دن ہوئی تھی جب ابو لہب کی باندی ثویبہ نے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خبر اس کو دی  تو اس نے ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا  
 اس طرح کی کثیر آیات قرآنیہ اور احادیث کریمہ سے جشن ولادت منانا ثابت ہے لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ کچھ نہیں دکھتا بس دکھتا یہ ہے کہ كل بدعة ضلالة یعنی ہر بدعت گمراہی ہے ہمارے علماء کرام عرصہ دراز سے سمجھاتے آ رہے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ اس سے مراد بدعت سئیہ  ہے لیکن پھر بھی ان کو سمجھ نہیں آتی اور اس پر مزید کہتے یہ ہیں کہ کیا صحابہ کرام نے منائی کیا انہوں نے جلوس نکالے اب ان سے یہ پوچھا جائے کہ آپ بھی تو  بڑے زور و شور سے ختم بخاری اور اس کے علاوہ  بے شمار ایسے امور کو انجام دیتے ہو تو کیا صحابہ کرام نے ان کو کیا؟۔ دوم یہ کہ کیا صحابہ کرام کا عدم فعل  عدم جواز کی دلیل ہے؟  سوم یہ کہ خوشی منانے کا طریقہ اپنے اپنے سماج اور معاشرے پر مبنی ہے عہد رسالت اور عہد صحابہ میں یہ طریقہ نہیں تھا لیکن زمانہ بدلا تو جشن و خوشی منانے کا طریقہ بھی بدلا اب اس دور کے حساب سے خوشی اور جشن منانے کا یہی طریقہ ہے کہ روشنی کی جائے، قمقمے لگائے جائیں، جلوس نکالے جائیں، اجتماع کیا جائے تو اس میں کون سے حرج کی بات ہے اور اس میں کونسی ایسی چیز ہے جو نا جائز و حرام ہے بلکہ عوام و خواص میں یہی رائج ہے اسی طرح وہ اظہار مسرت و شادمانی کرتے ہیں۔

 آپ کے ذکر پاک کے لیے اجتماع کرنا سنت الٰہیہ ہے:

 قرآن پاک تفصیل سے بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام سے عہد لیا کہ جب تمہیں کتاب و حکمت لے کر بھیجوں اس کے بعد تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تم پر نازل کی ہوئی چیز کی تصدیق کرے تو تمہیں ان پر ضرور ایمان لانا ہوگا اور ان کا مددگار بننا ہوگا پھر اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے اقرار لیا اس کے بعد فرمایا تم سب اس بات پر گواہ ہو جاؤ میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں تو اللہ تعالی نے انبیاۓ کرام کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور مدح و ثنا کے لیے جمع فرمایا اور میلاد النبی میں بھی یہی ہوتا ہے۔

 میلاد کی حقیقت:

 علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب حسن المقصد فی عمل المولد میں میلاد النبی کی حقیقت یوں بیان فرماتے ہیں کہ محفل میلاد کی اصل یہ ہے کہ لوگ اکٹھے ہو قرآن کی تلاوت کریں اور ان احادیث کریمہ کو سنیں اور سنائیں جن میں حضور اقدس کی ولادت باسعادت کا ذکر ہے اس کے بعد شیرینی تقسیم کی جائے یہ اچھا عمل ہے اور ان پر اجر ہے اور اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت اور آپ کی آمد پر اظہار مسرت کیا جاتا ہے  اب آپ ہی فیصلہ کریں  کہ اس میں کون سا ایسا کام ہے جو خلاف شرع یا خلاف سنت ہے اب اس کے باوجود اگر کوئی اسے ناجائز وحرام کہے تو وہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روکنے والا شیطان لعین ہے۔  

 جلوس محمدی میں بے ہودگی سے بچیں:

جلوس محمدی ﷺ کے وقت بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ڈی جے بجاتے ہیں، ناچتے ہیں، کھانے پینے والی چیزوں کو چھتوں سے بری طرح لٹاتے ہیں کہ رزق نالیوں میں جاتا ہے تو یہ بالکل ناجائز ہے اور شریعت اور صاحب شریعت اس کی بالکل اجازت نہیں دیتے اور ان سب کا میلاد مصطفی  سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ملاد مصطفی کی توہین ہے  اس لیے ہم سب ملاد مصطفی خوشی خوشی شریعت کے دائرے میں رہ کر منائیں اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق گھر گھر چراغاں کریں اور حضور اقدس ﷺ کی زندگی کو اپنے لیے نمونۂ عمل بنائیں  اور اس کے مطابق زندگی گزاریں اللہ تعالی ہم سب کو توفیق خیر سے نوازے اور قرآن صاحب قرآن کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول 
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے