Advertisement

قصیدہ کسی کا از مولانا محمد قاسم مصباحی جامعہ اشرفیہ مبارک پور

 

قصیدہ کسی کا


 مجھے بھاگیا حسن ایسا کسی کا
کہ دل ہوگیا میرا شیدا کسی کا

نگاہوں میں وہ حسن جب سے بسا ہے 
نہیں مجھ کو اب حسن جچتا کسی کا 

جو دیکھے وہ دیوانہ ہوجائے واللہ
کہ ہے حسن ایسا دل آرا کسی کا

کسی کی محبت میں تڑپا کروں میں 
رہے سر میں ہر وقت سودا کسی کا 

وہ محبوب و مطلوب اتنا حسیں ہے 
نہیں خلق میں حسن ویسا کسی کا

چمکتا ہوا چاند ہوتا تصدُّق 
اگر دیکھ لیتا وہ تلوا کسی کا 

 کسی کا تبسم گراتا ہے بجلی 
سکونِ جہاں مسکرانا کسی کا 

جچے کیا بھلا کوئی اس کی نظر میں 
کہ دیکھا ہے جس نے کفِ پا کسی کا 

خدا بھاتی صورت پہ قربان جاؤں 
فدائی ہے سارا زمانہ کسی کا

نہ کیوں ہو زمانہ کسی کا فدائی
کہ ہے حسنِ یوسف بھی شیدا کسی کا 

یہی ہے تمنا ، یہی آرزو ہے 
کروں ہر گھڑی میں نظارہ کسی کا 

بصد احترام اپنے لب چومتا ہوں 
زباں پر ہے جب نام آتا کسی کا 
 
دہن مشک و عنبر سے دھو لینا پہلے 
تو پھر با ادب نام لینا کسی کا

بنایا ہے یکتا نے یکتا کسی کو 
نہ ثانی ہواہے، نہ ہوگا کسی کا 

کسی کا ہو کیسے کوئی مثل و ثانی 
نہ رکھا خدا نے جو سایہ کسی کا 

نہیں گر چہ سایہ بدن کا کسی کے 
مگر کل جہاں پر ہے سایہ کسی کا 

جہاں سا تھ چھوڑا مِرا ہر کسی نے
وہاں عشق ہی کام آیا کسی کا 

سنبھالا کسی کی محبت نے آ کر
کہیں پر کبھی دل جو ٹوٹا کسی کا 

ہو ایسا کہ جب بھی کسی شے کو دیکھوں 
نظر آئے بس اس میں جلوہ کسی کا 

مِرے دل میں بھی کوئی آکر مکیں ہو 
بنے میرا دل بھی مدینہ کسی کا 

ہو اتنا کرم، جب کروں بند آنکھیں 
دِکھے خواب میں روئے زیبا کسی کا 

 دمِ نزع کوئی مِرے سامنے ہو 
زباں پر ہو جاری ترانہ کسی کا 

مجھے موت اس حال میں دے الٰہی
کہ سینے پہ ہو ہاتھ رکھا کسی کا 

سر حشر گرمی سے جھلسیں بدن جب 
ہو ظِلِِّ لِوا سر پہ مولا کسی کا 

نہیں دیکھا ہے میری آنکھوں نے اب تک 
ہے بِن دیکھے ہی دل دِوانہ کسی کا 

قرار آئے مجھ کو نہ مولا کسی پل 
اٹھے دردِ غم، دل میں ایسا کسی کا

کوئی میرے حق میں دعا اتنی کردے 
فزوں دردِ دل ہو خدایا کسی کا 

 کسی میں کہاں اتنی تاب و تواں ہے 
کہ جی بھر کے دیکھے وہ چہرہ کسی کا

کسی پر نظر جب ٹھہرتی نہیں ہے 
تو کیسے کوئی کھینچے خاکہ کسی کا 

قلم وجد میں آیا جھوم اٹھا کاغذ 
لکھا میں نے جب نامِ والا کسی کا 

کہا ایک دن یہ  کسی سے کسی نے 
کہیں حسن ایسا نہ دیکھا کسی کا 

کسی نے کسی کو نہ چاہا، نہ چاہے 
ہے رب چاہنے والا جتنا کسی کا 

خدا کو کسی سے ہے اتنی محبت 
بہت اس کو پیارا ہے، پیارا کسی کا

عطا کر کے تاج "رَفَعْنَا" کسی نے 
کیا ذکر اونچا سے اونچا کسی کا 

وہی ہو جو نکلے کسی کی زباں سے 
نہیں ٹالتا کوئی کہنا کسی کا 

فرشتے ہیں شام و سحر جس کے زائر 
مدینے میں ہے ایسا روضہ کسی کا 

سلامی دے جھک کر جسے آسماں بھی  
زمیں پر ہے وہ آستانہ کسی کا 

جہاں سے نہ محروم لوٹا ہے کوئی 
ہے طیبہ میں دربار ایسا کسی کا 

یہاں بے طلب ہر گدا پا رہا ہے 
یہاں دل نہیں توڑا جاتا کسی کا 

زمانے میں کوئی بھی ایسا دکھادو 
کہ جس نے نہ پایا ہو ٹکڑا کسی کا 

 کرے گا وہ کیا تاجِ شاہی کو لے کر 
ہے فضلِ خدا سے جو منگتا کسی کا 

ہوں میں اس کا منگتا خدا کے کرم سے 
جو ہونے نہیں دیتا منگتا کسی کا

ستارے فلک کے جھکے آرہے ہیں 
انھیں چاہیے آج صدقہ کسی کا 

کسی کے مکاں کی طرف جھک کے واللہ 
ادب کر رہا ہے یہ کعبہ کسی کا 

فلک سے فرشتوں کی بارات آئی 
ہے کیا خیر مقدم نرالا کسی کا 

 سبھی خوش ہیں لیکن ہے شیطان گریاں 
 لگا آج پشت پر تازیانہ کسی کا 

سبھی بت گرے منہ کے بل تھر تھرا کر 
ہے چھایا ہوا رعب ایسا کسی کا 

بھڑکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پڑے ہیں 
ہوا ایسا تشریف لانا کسی کا 

 کسی دوسرے کی نہیں اب چلے گی
چلے گا جہاں بھر میں سکہ کسی کا 

کوئی جا رہا ہے سر طور لیکن 
ہے عرش بریں سے  بلاوا کسی کا 

جہاں جبرئیل امیں کے جلیں پر 
وہاں سے بھی  آگے ہے جانا کسی کا 
 
کسی سے کوئی آج ملنے چلا ہے 
ہے عرش معلّٰی پہ چرچا کسی کا 

کسی کی ہے قصرِ دنا تک رسائی 
ہے ایوان قوسین و اَدنٰى کسی کا

 کہیں لن ترانی، کہیں اُدْنُ مِنِّي
کسی سے ہوا قرب ایسا کسی کا 

ملا آج محبوب اپنے محب سے 
کسی سے نہیں آج پردہ کسی کا 

کسی سے کوئی غیب کیسے نہاں ہو
کسی سے رہا جب نہ پردہ کسی کا 

سرِ لامکاں سے کوئی آ رہا ہے 
لیے اپنی آنکھوں میں جلوہ کسی کا 

کوئی دیکھ کر آ رہا ہے کسی کو 
زمیں سے فلک تک ہے شہرہ کسی کا 

لیے عرش سے آیا امت کی خاطر
نمازوں کی صورت میں تحفہ کسی کا 

نہ ہوگی کبھی مشک و عنبر کی چاہت 
جو مل جائے تھوڑا پسینہ کسی کا

بتاتی ہے گلیوں کی یہ بھینی خوشبو 
اِدھر سے ہوا ہے گزرنا کسی کا  

دے وہ راستہ مشک و عنبر سی خوشبو 
ہو جس راستے سے گزرنا کسی کا 

شفا پائیں بیمار پیتے ہی اس کو 
دوائے مرض ہے غُسالہ کسی کا 

بنے جس سے کھاری کنواں شیرۂ جاں
ہے آبِ دہن کتنا میٹھا کسی کا 

ہوا تھوڑا کھانا جماعت کو کافی 
لعابِ مبارک پڑا کیا کسی کا 

مکاں دل کا پاکیزہ رکھو ہمیشہ 
 نہ جانے کب ہو جائے آنا کسی کا 

تمنا مجھے موت کی اس لیے ہے 
کہ مرقد میں ہوگا نظارہ کسی کا 

مِرے دل کی کھیتی اسی دم ہری ہو 
نظر آئے جب سبز قبہ کسی کا 

برستی ہے ہردم جہاں تیری رحمت 
دکھادے خدا وہ مدینہ کسی کا 

یہ شمس و قمر، یہ فلک کے ستارے 
چمکتے ہیں پاکر کے صدقہ کسی کا 

 ہے "والّیل" زلف معنبر کسی کی 
تو ہے" والضّحیٰ" روے زیبا کسی کا

جو مشکات تن اور مصباح دل ہے 
تو نوری زُجاجہ ہے سینہ کسی کا

چلے تو زمانہ چلے ساتھ اس کے  
رکے تو کہاں کیسا چلنا کسی کا 

کسی کی رضا پا کے خورشید پلٹے 
کرے چاند ٹکڑے اشارہ کسی کا 

کسی کو سلامی دیں اشجار جھک کر 
پڑھیں سنگ ریزے بھی کلمہ کسی کا 

جھلاتے ہیں جھولا کسی کو فرشتے 
بنا چاند نوری کھلونا کسی کا 

کوئی انگلیوں سے بہاتا ہے چشمے 
کرے سِیر ستر کو پیالہ کسی کا

برسنے لگا جھوم کر ابر رحمت 
دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کسی کا 

بناتا ہے لکڑی کو تلوار کوئی 
کرے موم پتھر کو تلوا کسی کا

کسی کی طلب میں نکلتے ہیں تارے 
پتا ڈھونڈتا ہے یہ چندا کسی کا

عیاں ہے یہ اعجازِ شق القمر سے 
زمیں کیا؟ فلک پر ہے قبضہ کسی کا 

بیاں کیسے ہو جسم انور کی طلعت 
ہے جب رشکِ خورشید ذرہ کسی کا 

ہوا" مَن رَآنِي رَأى الحَقَّ" سے ظاہر 
کہ دیدارِ حق ہے نظارہ کسی کا 

کسی کی خموشی میں ہے راز پنہاں 
ہے وحیِ خدا بات کرنا کسی کا 

سجے گی اسی واسطے بزم محشر 
ہے مطلوب رُتبہ دکھانا کسی کا 

گنہ گارو! کھولے گا روز قیامت 
شفاعت کا دروازہ سجدہ کسی کا 

کوئی لاکے طوبیٰ کی اک شاخ دےدے 
کہ لکھنا ہے مجھ کو قصیدہ کسی کا 

 کسی سے کسی کی ہو کب مدح ممکن 
ہے مدّاح جب حق تعالیٰ کسی کا 

کرو لاکھ سجدے نہ مقبول ہوں گے 
اگر عشق دل میں نہ ہوگا کسی کا 

وہ پہنچے خدا تک نہیں ایسا ممکن
چلے چھوڑ کر جو بھی، رستہ کسی کا 

بہت ڈھونڈ تے، پر نہ پاتے خدا کو 
ہمیں گر نہ ملتا وسیلہ کسی کا 

مجھے اب نہیں ہے کسی کی ضرورت 
 ہے کافی مجھے بس سہارا کسی کا 

مجھے کوئی لاچار و بے بس نہ سمجھے
ہے میرے گلے میں بھی پَٹّا کسی کا
 
کوئی کر رہا ہے میری دست گیری 
نہیں ہے مجھے کوئی کھٹکا کسی کا 

نکمّا و نا کارہ جیسا بھی ہوں میں
مگر دل سے ہوں نام لیوا کسی کا 

کسی کی نظر سے ہے گرنا تباہی 
 تو معراج ہے قرب پانا کسی کا 

 کسی کی ہے پہچان بس اتنی قاسم 
نہیں اس کے جیسا سراپا کسی کا 

کسی کا ذرا نام بھی تو بتادے 
یہ کیا کَہ رہا ہے کسی کا کسی کا 

"کسی" کا ہے اسمِ مبارک "محمد"
خدا نے ہے یہ نام رکھا کسی کا 

 کرم ہے خدا کا اے قاسم یہ تجھ پر 
تجھے بھی ثنا خواں بنایا کسی کا 

وہ حامد وہ محمود و احمد، محمد 
درود و سلام اس پہ نازل ہوں بے حد


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

نتجۂ فکر: مولانا محمد قاسم مصباحی ادروی
استاذ : جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ، انڈیا ۔

پیش کش : ذیشان امجد، فرحان امجد قادری رضا نگر ادری ، مئو ، یوپی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے