Advertisement

مذہبی دل بدلو از غلام مصطفی نعیمی

 

مذہبی دل بَدلُو


از : غلام مصطفی نعیمی
روشن مستقبل دہلی
١١ صفرالمظفر ١٤٤٤ھ
9 ستمبر 2022 بروز جمعہ



اب تک دَل بَدلُو کی اصطلاح کا استعمال سیاسی دنیا میں زیادہ ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ وقت سے مذہبی انتساب رکھنے والے افراد کی بدلتی ہوئی وفاداریوں اور اِس ڈال سے اُس ڈال چھلانگ لگانے کی روش سے یہ طبقہ بھی خود کو دَل بَدلُو کی اصطلاح کا حق دار ثابت کرچکا ہے۔

سیاسی اور مذہبی دَل بدلُوؤں میں فرق


سیاست ہو کہ مذہب، دونوں طرف دَل بدلُوؤں کی بہار ہے۔ تبدیلی وفاداری قدر مشترک ہے لیکن دونوں طرف کے دَل بدلُوؤں میں خاصا فرق بھی پایا جاتا ہے۔جسے آپ ان نکات کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں:
٭ سیاسی دَل بَدلُو کا جس فرد سے اختلاف ہوتا ہے، اسی تک محدود رکھتے ہیں، اور وسعت ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی سابقہ جماعت کے سپریم لیڈر/فکری رہنما پر سوال اٹھانے/اعتراض کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
٭ مذہبی دَل بَدلُو تبدیلی وفاداری کے بعد کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مخالف کے ساتھ ساتھ اُن کے اور اپنے مسلمہ بزرگوں تک کا لحاظ نہیں کرتے اور ان پر بھی نہایت بھونڈے اور بازاری تبصرے کرتے ہیں۔
٭ سیاسی دَل بَدلُو سابقہ جماعت کے چنندہ افراد سے اختلاف رائے ظاہر کرتے ہیں دیگر افراد کے تئیں ان کا رویہ احترام واکرام ہی کا رہتا ہے۔
٭ مذہبی دَل بَدلُو سب کو ایک ہی ڈنڈی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر ایک کو نامحترم ثابت کرنے کے لیے جھوٹ گڑھنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
٭ سیاسی دَل بَدلُو تبدیلی وفاداری کے باوجود سابقہ جماعت/لیڈران اور معاونین سے اخلاق ومروت کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔
٭ مذہبی دَل بَدلُو وفاداری بدلتے ہی اپنے سابقہ اکابرین ومحسنین کی عیب جوئی اور کردار کشی کرنا فرض سمجھتے ہیں حتی کہ جنون تنقید میں بنیادی شرافت و تہذیب بھی بھول جاتے ہیں۔

مذہبی دَل بدلیاں

عرصہ ہوا "اتہامات عبدالرزاق ملیح آبادی پر ایک نظر" نامی کتاب نگاہوں سے گزری تھی۔جس کے مؤلف نوشاد عالم چشتی ہیں۔جس میں موصوف نے مولانا ابوالکلام آزاد کے قریبی ساتھی مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے ان اعتراضات کا تحقیقی جائزہ لیا تھا جو انہوں نے امام احمد رضا پر لگائے تھے۔مؤلف کے نزدیک ان اعتراضات کا الزام وبہتان ہونا اس قدر بدیہی تھا کہ موصوف نے کتاب کا نام ہی "اتہامات عبدالرزاق" رکھا۔یعنی موصوف کے نزدیک ملیح آبادی صاحب کے سارے اعتراضات سراسر کذب وبہتان تھے جسے پڑھ کر ایک مومن کا دل کانپ جائے، موصوف خود لکھتے ہیں:
"چونکہ ملیح آبادی صاحب آزاد صاحب کے معتمد خاص تھے اس لیے اپنے ممدوح کی حمایت میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ پر ایسے ایسے الزامات لگائے کہ خدا کی پناہ! جن کو پڑھنے یا سننے ہی کے تصور سے ایک مومن کا دل جو خدا ورسول کی ذات پر، قیامت پر اور جزا وسزا کے عقیدے میں ایمان رکھتا ہو کانپ اٹھتا ہے۔" (اتہامات عبدالرزاق ص:36 مطبوعہ رضا اکیڈمی لاہور)
ہمیں یقین ہے کہ اس وقت مؤلف خود کو یقینی طور پر مومن سمجھتے ہوں گے اور بقولے خود ان کا دل ملیح آبادی صاحب کے اتہامات وافترا سے کانپ اٹھا ہوگا۔کتاب کی تالیف بھی یہی بتاتی ہے کہ وہ یقیناً کانپ گئے تھے اسی لیے انہوں نے ایسے بہتان لگانے والے مفتری کے مکر وفریب کی نقاب کشائی ضروری سمجھی تاکہ آئندہ کوئی کذاب امام احمد رضا جیسی معظم شخصیت پر الزام تراشی کی جرأت نہ کر سکے۔جیسا کہ انہوں نے مقدمہ کتاب میں لکھا ہے:
"آپ [امام احمد رضا] نے جس محنت ولگن کے ساتھ شان الوہیت کے گستاخوں اور تنقیص رسالت کے مجرموں کا رد علمی و تحقیقی انداز میں کیا مخالفین اسلام نے اسی شدت کے ساتھ آپ کے خلاف طرح طرح کی الزامات اور بہتان بازی کی مہم بھی شروع کردی اور یہ سلسلہ نہ صرف آپ کی حیات تک ہی چلتا رہا بلکہ یہ "کار خیر" آج بھی بڑے منظم انداز میں جاری وساری ہے۔اس طرح کے "کار خیر" میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں عبدالرزاق ملیح آبادی کا نام بھی سر فہرست ہے۔موصوف نہ جانے کس طبیعت کے مالک تھے کہ عالم ہونے کے باوجود جھوٹ کا سہارا لیتے تھے۔" (ایضاً ص:33)

 اور دَل بَدل بدلتا ہے

کہتے ہیں دَل بدلتا ہے تو دِل بھی بدل جاتا ہے۔اس کا نظارہ حال ہی میں اس وقت بھی ہوا جب ہمارے ایک عزیز نے نوشاد صاحب کی حالیہ تحریر بغرض جائزہ ارسال کی۔اس تحریر میں موصوف نے اپنی ہی تحقیق سے جس انداز میں یوٹرن لیا ہے وہ یاد رکھنے کی چیز ہے۔اس یوٹرن کے پیچھے کچھ خاص افراد سے پزیرائی کا نہ ملنا بھی ایک اہم سبب رہا۔جس کے وہ خواہاں تھے اور ایک حد تک حق دار بھی!
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن افراد سے انہیں اختلاف تھا وہ اسے اُنہیں تک محدود رکھتے لیکن کچھ اپنی تیز طبیعت کا اثر اور کچھ حاسدوں کی "کرم فرمائیاں" شامل رہیں جس سے دل برداشتہ ہوکر نوشاد صاحب نے دَل ہی بدل لیا۔دَل بدلا تو وفاداری بھی بدلی۔تبدیلی وفاداری کے ساتھ ہی موصوف نے بھی اعلی حضرت پر اتہامات اور الزام تراشی کا "کار خیر" شروع کردیا جس کی شکایت اُنہیں ملیح آبادی صاحب سے تھی اور جن کی افترا پردازی پر انہوں نے بڑے کرب کے ساتھ کہا تھا:
"[اعلی حضرت کی] مخالفت بھی کس بات پر کہ شیخ الاسلام والمسلمين مجدد الامہ اعلی حضرت امام احمد رضا قادری اپنے آقا کا وفادار امتی کیوں ہے؟عشق رسالت کی بات کیوں کرتا ہے؟
رب قدیر کی ذات کو تمام عیوب ونقائص سے مبرا کیوں مانتا ہے؟ (ایضاً ص:32)
مگر حیرت بالائے حیرت ہے کہ آنجناب بھی پذیرائی نہ ملنے اور تند مزاجی کے باعث بغاوت پر اتر آئے اور "آقاﷺ کے عاشق اور وفادار امتی" کی توہین وتکذیب اور کردار کشی پر اتر آئے۔وقت کے ساتھ ساتھ احساس محرومی بڑھتا رہا اور موصوف کی تنقید، تنقیص وتضحیک سے گزرتی ہوئی نفرت وتعصب میں تبدیل ہو گئی۔جواب آں غزل ملنے پر ضد وانانیت کی آگ مزید تیز ہوتی گئی نوبت یہاں تک آگئی کہ اب یہ نفرت ان کے اعصاب پر بری طرح سوار ہو گئی اسی لیے کل جس بات کو جناب نے "اتہام، جھوٹ، اور فریب" قرار دیا تھا آج اسی "اتہام" کو امام احمد رضا کے خلاف ایک بڑا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔کل جس "بہتان" کے تصور ہی سے ان کا دل کانپ رہا تھا آج خود وہی "اتہام" لگانے میں انہیں لطف آرہا ہے۔اب اس کا فیصلہ نوشاد صاحب پر ہی چھوڑتے ہیں کہ وہ تالیف کتاب کے وقت مومن تھے، یا اب لذت ایمان سے آشنا ہوئے ہیں؟

خود کو جھٹلانا بھی شاید ایک فیشن ہے

عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی مرتبہ کتاب "آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی" میں اعلی حضرت اور مولانا خیر الدین (والد مولانا آزاد) کی ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے جو ان کے بقول 1901ء کو کلکتے میں ہوئی۔ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اعلی حضرت نے اپنا ایک رسالہ مولانا خیر الدین صاحب کو پیش کیا تھا، اس رسالے پر مولانا خیرالدین صاحب نے اعلی حضرت کا زبردست تعاقب کیا، ملیح آبادی صاحب کے الفاظ ہیں:
"انہوں نے خاص طور پر اپنا ایک رسالہ [مولانا خیرالدین کو] دیا۔اس میں عدم ایمان ابوین آنحضرت ﷺ اور ایمان ابوطالب پر زور دیا تھا۔چنانچہ اس پر کچھ دیر تک والد نے ان کا ایسا تعاقب کیا کہ وہ ہکا بکا رہ گئے اور خاموش چلے گئے۔جانے کے بعد ہم سے کہا کہ اس شخص کے عقیدے میں بھی فتور ہے۔" (ایضاً ص:38)
ملیح آبادی صاحب کے اس اعتراض کا تحقیقی جواب خود نوشاد صاحب نے بڑی شرح وبسط سے دیا ہے ہم اسی سے چند نکات پیش کرتے ہیں۔
٭ امام احمد رضا کی شیخ احمد دحلان سے پہلی ملاقات 1878 کو سفر حج کے موقع پر ہوئی۔جہاں آپ نے ان سے مختلف فنون میں استفادہ کیا۔
٭ ملیح آبادی کے بقول فاضل بریلوی ایمان ابوطالب کے قائل تھے جبکہ امام احمد رضا 1877 میں ہی عدم ایمان ابوطالب پر کتاب لکھ چکے تھے یعنی شیخ احمد دحلان کی ملاقات سے ایک سال قبل۔
٭ شیخ احمد دحلان کا انتقال 1886 میں ہوچکا تھا ایسے میں اعلی حضرت کا ان کے انتقال کے کئی سال بعد رسالہ لکھنا سمجھ سے باہر ہے۔
اس طرح کے کئی نکات ذکر کرتے ہوئے نوشاد صاحب نے ملیح آبادی صاحب پر کئی دل چسپ تبصرے بھی کئے ہیں:
"یہ صرف ملیح آبادی صاحب کی اپنی ذہنی اختراع ہے جس میں حقیقت کی کوئی رمق نہیں پائی جارہی ہے۔"
"یہ الزام کہ اعلی حضرت نے.... شیخ احمد دحلان کے خلاف کوئی رسالہ لکھا سراسر کذب وجھوٹ پر مبنی ہے۔"
"اب میں جناب عبدالرزاق ملیح آبادی کا "ذکر خیر" اعلی حضرت کی ذات پر اس الزام تراشی کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں۔"
"ملیح آبادی صاحب کو آزاد صاحب کی حمایت میں شیخ الاسلام مجدد دین وملت امام اہل سنت اعلی حضرت احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے خدا واسطے کا بَیر تھا۔"
اب ان تبصروں کو نگاہ میں رکھیں اور نوشاد صاحب کی تازہ تحریر ملاحظہ فرمائیں جس میں آنجناب نے 180 ڈگری کا یوٹرن لیتے ہوئے ملیح آبادی صاحب کے "اتہام" کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس میں ملیح آبادی صاحب سے تفصیل تحریر کرنے میں جزوی غلطی ہوگئی ہے اور اسے بلا نظر ثانی شائع کردیا ہے۔مگر اس روایت میں امام اہل سنت علامہ خیرالدین نے جو فاضل بریلوی کا محاکمہ کیا ہے وہی اس روایت کی جان ہے۔"
یعنی جو روایت پہلے "ذہنی اختراع، کذب، بہتان اور اتہام" تھی۔جس میں حقیقت کی کوئی رمق نہیں تھی، جو سراسر کذب وجھوٹ پر مبنی تھی جسے پڑھ کر  نوشاد صاحب کا دل کانپ اٹھا تھا آج دَل بدلا تو وہی روایت امام احمد رضا کی کردار کشی کے لیے محاکمہ کی "جان" بن گئی:
آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا


اختتام تحریر پر نوشاد صاحب لکھتے ہیں:
"اب آپ لوگوں کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ فاضل بریلوی مولانا آزاد کی مخالفت میں شدت کے ساتھ کیوں پیش پیش تھے؟ مسئلہ شریعت کا کم بل کہ فاضل بریلوی کے نفس پرستی کا زیادہ تھا۔آزاد کے والد نے جو فاضل بریلوی کی سرزنش کی تھی، فاضل بریلوی اس غم سے خود کو زندگی بھر آزاد نہیں کر سکے۔"
ہم نوشاد صاحب  کے اس "کذب وبہتان" کا جواب خود انہیں کی تحریر سے پیش کرتے ہیں جو آنجناب نے دَل بدلنے سے پہلے لکھا تھا، آنجناب لکھتے ہیں:
"جب اعلی حضرت نے آزاد صاحب کی تفسیر بالرائے پر علمی گرفت قرآن وحدیث نیز اقوال سلف صالحین کی روشنی میں فرمائی تو یہ حضرات [آزاد اور ان کے ہمنوا] بجائے اس کے رجوع الی الحق کرتے ذاتی بغض وعناد اور الزام تراشی پر اتر آئے۔" (ایضاً ص:36)
اب یہ بتانا نوشاد صاحب کی ذمہ داری ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں جھوٹ بولا تھا یا حالیہ تحریر میں کذب وبہتان سے کام لے رہے ہیں؟
کیوں کہ ماقبل میں انہوں نے لکھا ہے کہ اعلی حضرت نے آزاد صاحب کی گرفت تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات پر تفسیر بالرائے اور شرعی بے احتیاطیوں کی بنا پر فرمائی تھی یعنی اعلی حضرت کا اقدام خالص شرعی تھا لیکن آج آنجناب خود کو ہی جھٹلاتے ہوئے کتنی دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ فاضل بریلوی آزاد صاحب کے والد سے خائف تھے اس لیے بیٹے سے ذاتی انتقام لے رہے تھے۔اب دونوں میں سے کوئی ایک بات ہی درست ہوسکتی ہے اس لیے اب یہ الزام خود معترض پر لوٹ کر آتا ہے کہ کہیں وہ اپنی ناقدری کرنے والوں کی خُنّس تو اعلی حضرت سے نہیں نکال رہے ہیں؟
ورنہ ایک ہی بات میں اتنا تضاد کس لیے:
اللہ رے خود ساختہ قانون کا نیرنگ
جو بات کہیں فخر وہ بات کہیں ننگ

وقت سب سے بڑا آئینہ ہے


اختلاف رائے مذموم ہے نہ معیوب، لیکن اس کے بھی کچھ حدود اور آداب ہیں۔جن کا پاس ولحاظ بے حد ضروری ہے۔اپنی ناقدری یا عدم پذیرائی کی بنا پر اختلاف کرنا دیانت نہیں نفسانیت ہے سوئے اتفاق کہ اس حمام میں کئی ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے ابتداً اچھے کام کیے تھے اور ان سے مستقبل میں کئی اچھے کاموں کی امید تھی لیکن کچھ حاسدین کی کرم فرمائیاں اور کچھ ان کی بے لگام طبیعتیں ایسا ماحول بنا دیتی ہیں کہ اچھے خاصے کام کے بندے ضائع ہوجاتے ہیں جس میں ان کا بھی نقصان ہے اور جماعت کا بھی!
ضرورت ہے کہ ایسے افراد کو تحمل و بردباری سے سنبھالا جائے اور ان کی طبیعت کے مطابق مثبت کاموں میں مصروف رکھا جائے تاکہ وہ منفی امور سے دور رہیں۔یہ ضرورت گذشتہ کئی سالوں سے محسوس کی جارہی ہے لیکن اب یہ مزید بڑھ گئی ہے۔
دوسری جانب ان ناقدین کو بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے جو محض پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے باغیانہ تیور اپنا کر انہیں نظریات کے خلاف سنگ باری کرتے ہیں جس کی اشاعت وحفاظت میں ان کی زندگی کا بڑا حصہ صرف ہوا ہے۔جن بزرگوں کی نسبتیں ان کا سرمایہ حیات ہوا کرتی تھیں آج انہیں نفس پرست کہتے ہوئے ان لوگوں کو کچھ تو شرم وحیا آنی چاہیے! 
اپنے ممدوح سے بھی اختلاف ممکن ہے لیکن اختلاف کو مخالفت اور دشمنی بنا لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟
اس رویے سے بزرگوں کی عظمت پر تو کوئی حرف نہیں آتا کیوں کہ انہوں نے جو کیا خلوص کے ساتھ کیا۔ان پر الزام تراشی کرنا خود کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔امام احمد رضا اپنے عہد سے لیکر آج تک حق پرستوں کے میر قافلہ اور نشان منزل رہے ہیں۔ان کی ذات آج بھی عرب وعجم میں سنیت کا نشان اور بدمذہبوں کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، نوشاد عالم چشتی خود لکھتے ہیں:
"الحمد للہ! اللہ رب العزت نے اپنے فضل وکرم سے اہل باطل کے تمام تر مکرو فریب تحریف وخیانت پر مبنی پروپیگنڈہ کے باوجود فاضل بریلوی کو سواد اعظم مسلک حقہ اہل سنت وجماعت کے پیروکاروں کے درمیان وہ قبولیت عامہ بخشی دی ہے کہ عرب وعجم کے اکابر علماے کرام آج بھی فاضل بریلوی کی ذات کو ہندو پاک میں سنیت کی پہچان اور بدمذہبوں کو پرکھنے کی کسوٹی سمجھتے ہیں۔" (ایضاً ص:23/24)
اب جس کی مقبولیت من جانب اللہ ہو اس کی مخالفت گویا خدائی فیصلے کی مخالفت کرنا ہے۔ایسا کرنے والوں کی نادانی پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے