Advertisement

امام احمد رضا علم و فن، مقام و مرتبہ از محمد توصیف رضا قادری علیمی

امام احمد رضا علم و فن، مقام و مرتبہ از محمد توصیف رضا قادری علیمی

 امام احمد رضا علم و فن، مقام و مرتبہ


از : محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار، بہار۔)
متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی، یوپی، انڈیا۔
شائع کردہ: 22/ستمبر/2022


رب کریم اپنے فضل وکرم سے جب کسی بندہ کو کچھ عطا کرنا چاہتا ہے ، تو اپنی رحمت سے ان کو اتنا بخشتا ہے ، کہ بندہ کو تنگی دامان کی شکایت ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ امام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضلِ بریلوی قدس سرہ انہیں خوش نصیبوں میں سے ہیں کہ قدرت الہٰیہ نے اُنہیں علم و آگہی کا وہ وافر حصہ عطا فرمایا،  جو ہر میدان میں یکتا و منفرد نظر آتے ہیں ۔
۔۔۔ وہ کونسا علم ہے کہ رب کریم نے انہیں نہیں بخشا ؟ اور وہ کونسا فن ہے کہ جس میں امام اہل سنت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کے قلم نے اسرار پنہاں کی عقدہ کشائی نہیں کی ؟ ہم جہاں کہیں بھی دیکھتے ہیں ، ہر بساط پر ان کا کھنکتا ہوا سکہ چلتا نظر آتا ہے مگر افسوس کہ حوادث زمانہ نے ان کے بیشتر کارناموں کو اپنے میں چھپا کر ، ہم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا۔
جب ہم بنی نوع انسان کی اس زریں تاریخ کے چند مزید اوراق الٹتے ہیں ، تو عہد قریب میں ہمیں ایک ایسی شخصیت جلوہ ساماں نظر آتی ہے ، جو ایک طرف ائمہ اسلام کی ہمدم و ہمراز، ان کی دینی بصیرت ومذہبی شعور سے آگاہ، اور غزالی ورازی کے اسرار سے باخبر ہے ، تو دوسری طرف ابن سینا، فارابی اور بطلیموس کی تدقیقات سے کھیلتی، ابن ہشیم ،ارشمیدس اور ثاؤ ذوسیوس کی ریاضیات سے مسکرا کر باتیں کرتی۔ آئن اسٹائن اور گلیلیو کے نظریات کا تعاقب کرتی ، ٹوری سیلی اور نیوٹن کے کلیات کے پرخچے اڑاتی ، اور پرسٹلے اور لیوازیلے کے کیمیائی اکتشافات کی تشریح کرتی نظر آتی ہے ۔ جب ہم اس ہمہ جہت ہستی کو عمیق نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ عناصر اربعہ سے مرکب نہیں ، سراسر حکمت و دانائی کا پیکر ہے ، سراپاعلم وفن کا مجسمہ ہے، اور یہ شخصیت ہے مجدد قرن رابع عشر، امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ، اس یگانہ روزگار نے تقریبا پچاس ساٹھ علوم و فنون میں اپنی بیش بہا تصنیفات بطور میراث چھوڑی ، قدرت نے ان تصنیفات کو اپنی حمایت و حفاظت کا ایسا صیقل عطا فرمایا، کہ دست بغض و عناد کی گرفت میں آج تک کچھ نہ آسکا۔
یہ فاضل بریلوی کی خلوص وللہیت کا انعام ہی ہے ، کہ قدرت نے انہیں صیانت قلم سے نوازا۔ امام احمد رضا نے جہاں کہیں تفسیر و حدیث، فقہ واصول، منطق وفلسفہ ، ہیئت و هندسہ، مساحت و توقیت ، لوغارثم و جرالاثقال ، جبر و مقابلہ، اجرام وابعاد ، مثلثات وآکر ، متناسبه متعددہ، مناظر و مرایا، ارثماطیقی و نجوم اور دیگر مبادیات، مثلا صرف و نحو، معانی و بلاغت اور بیان و بدیع میں کمال حاصل کیا، وہیں انہیں ایسے علوم سے بھی وافر حصہ ملا، جن کا شمار علم الاسرار میں ہوتا ہے

مقام و مرتبہ:

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ خاک ہند کی خمیر علم وفضل زہد و تقوی سے گندھی ہوئی ہے ۔ اس خاک سے ہر قرن اور ہر زمانے میں علم و حکمت کے پیکر ابھرے ۔ اس کے وسیع و عریض دامن میں ہمیشہ علوم و معارف کے بیل بوٹے جھلملاتے رہے ۔ اسکی قسمت کا ستارہ برابر اوج ثریا پر چمکتا رہا۔ اسکے افق پر ہمیشہ فہم و ذکاوت کے آفتاب اپنی خنک تاب تپش آمیز کرنوں سے قلوب اذہان کو گرماتے اور جگمگاتے رہے۔ اس کا آفتاب ہمیشہ نصف النہار پر رہا کبھی ملاجیون جیسے ماہتاب علم وفن نے تاریک گوشوں کو روشنی بخشی۔ تو کبھی بحرالعلوم عبدالعلی اور محقق روزگار ملامحب اللہ جیسی دودھیا چاندنی نے ظلمت و تیرگی پر کمندیں ڈالیں اور کبھی امام فکر وفن علامہ فضل حق خیر آبادی جیسی شعاع تیز تاب نے سرد قلوب کو گرمایا ۔ مگر جو آفتاب عالمتاب تیرہویں صدی کے نصف اخیر میں طلوع ہوا اسکی ضوفشانی کا حال ہی عجب ونرالا رہا، وہ خنک چاندنی بھی تھا اور ستارہ نیم شب تاب بھی۔ وہ سحاب فیض بھی تھا اور سوز دردوں بھی ، وہ باد بہاری بھی تھا اور باد حموم بھی ۔ 
وہ نسیم سحری بھی تھا اور صباء پیش خرام بھی ۔ وہ ابر بہار بھی تھا اور ساؤن کی رم جھم فوار بھی ۔ وہ برسا اور خوب برسا۔ اس کے باران فیض کے چھینٹے بھی سیلاب بن گئے ۔ اس کے پرنالے بذات خود بحر بیکراں ہو کے بہہ نکلے ۔ وہ تو تنہا تھا مگر انجمن کی انجمن اس کی تنہائی پر قربان، وہ اکیلا تھا مگر لاکھوں کا ازدحام ۔ اس کے اکیلے پن پہ نثار ، اسکی بزم خموشاں میں نغمہ لاہوتی بکھرتے رہتے ۔ اس کا وجود تو خاموش تھا مگر ساز ہستی پر ہمیشہ قال النبی کی انگشت پھرا کرتی ۔ اس کا مضراب تو بظاہر بے آواز کی دیکھائی دیتا مگر تار مضراب سے قال اللہ کی زمزمہ سنجی کی مدھر سنائی پڑتی ۔ 
وہ بظاہر سادہ مگر صبغتہ اللہ کی معنویت سے معمور تھا ۔ امام اعظم کا سچا جانشین، حسن بصری کا صحیح پیروکار حضرت ابن مسعود کا  سچا خلیفہ ، امام غزالی کا حقیقی نائب ، العلماء ورثۃ الانبیاء و علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل کی ایسی مکمل تفسیر تھا، جس نے مذعومات باطلہ اور مزخرفات فلاسفہ کی تعمیر منہدم کردی اور خیالات فاسدہ کا قلع قمع کر دیا۔۔
جس نے غلط اور باطل وعادی کے پرخچے اڑا دئے ۔ جو عشق نبوی میں ایسا محو تھا کہ اسی عالم محویت میں اس نے سب کچھ پالیا ۔ اس کی پونجی عشق رسول کی انمول اور لازوال دولت تھی ۔ وہ خاک ہند میں مسلم کا کرہ تھا۔ اس کا ہر خط اس کے مرکز علم سے مساوی تھا ۔ اس کا قطر علم ہند کے قطر علم کے ہم پلہ تھا ۔ اس کے جلالت علمی کا آفتاب ہمیشہ خط استوا اور نصف النہار پر رہا ۔ وہ بذات خود قطب بھی تھا اور محور بھی۔ وہ جزء لایتجزی تھا اور جز لایتجزی سے مرکب بھی ۔ 
وہ اجزاء لایتجزی کا اثبات بھی کرتا اور منکرین کا رد ابطال بھی، وہ خود تو حادث تھا مگر اس کے دلائل تو قویہ قدیم بالذات کے مثبت تھے ، وہ واحد ممکن مگر واجب بالذات واحد من کل جہت سے صدور تکثر کا مبرہن تھا، وہ خود بھی ناطق تھا اور ہر شیء کے نطق کا مقرو مثبت بھی ۔ وہ جسم تو تھا مگر ہیولی وصورت کا مردد و مبطل تھا ۔ وہ ایشیا کا ایسا عظیم مفکر تھا جس کے سامنے یورپ وامریکہ کے بڑے بڑے قدآور مفکرین اور ماہر ہیئت وجغرافیہ بونے نظر آتے ہیں ۔ وہ کشور علم و فضل کا تاجدار ، مملکت زہد و تقوی کا شہریار ، میدان فکر وفن کا شہسوار کاروان عقل محبت کا سردار، آخر وہ کون ہے وہ وہی ہے جسے دنیا امام عشق ومحبت مجدد دین و ملت ، اعلیحضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے نام سے جانتی ہے۔ جو صرف سرزمین ہند تک ہی محدود نہ تھا بلکہ عرب وعجم کے صنادید علم وفضل اور عمائدین فکر و فن بھی ۔ اس کی ستائش میں رطب اللسان تھے جس کی توقیر کوچۂ مصطفے میں کی گئی، جس کا خطبہ حرمین طیبین کی مقدس سرزمین پر پڑھا گیا جس کی ذات اب عالم اسلام میں محتاج تعارف نہیں ، دنیائے سنیت اس کے علم وحکمت سے روشن و تابناک ہے ۔ ارباب علم و دانش اور اصحاب تحقیق نے مختلف جہات قوم کے سامنے اس نادر زمن ہستی کا تعارف پیش کیا مگر حق تعارف کماحقہ اب تک ادا نہ ہوسکا ۔
الحاصل اس نابغہ روزگار شخصیت کو جس علم میں جس حیثیت سے بھی دیکھا جائے وہ اسی حیثیت سے اس فن میں امام ہی نہیں بلکہ امام الائمہ معلوم ہوتے ہیں مفسر کی حیثیت سے ان کی ذات پر نظرڈالی جائے تو بلاشبہ رئیس المفسرین فی العصر نظر آتے ہیں، محدث کی جہت سے پرکھا جائے تو وقت کے امام بخاری ومسلم دکھائی دیتے ہیں، تصوف کے اعتبار سے معلوم کیا جائے تو گروہ بزم صوفیا کی شمع فروزاں نظر آتے ہیں ۔ فقہی حیثیت سے دیکھئے تو اپنے زمانہ کے امام اعظم دکھائی دیتے ہیں۔ فقہی بصیرت و ذہانت کا یہ عالم تھا کہ بعض علماء نے یہاں تک فرمایا کہ امام احمد رضا اگر امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے عہد مبارک میں ہوتے تو ان کے صاحبان کرام کی صف میں ہوتے، نحوو صرف کے لحاظ سے دیکھئے تو امام النحو والصرف کہے جارہے ہیں ۔ شعر و شاعری کے اعتبار سے معلوم کیجئے تو نعت گوئی میں حسان الوقت نظر آرہے ہیں ۔ علوم عقلیہ میں دیکھا جائے تو علم ریاضی کا یہ عالم کہ اقلیدس بھی محو حیرت ہو جائے ۔ منطق وفلسفہ میں مہارت تامہ حاصل کہ امام المناطقہ والفلاسفہ نظر آتے ہیں‌۔غرضیکہ امام احمد رضا کو جس حیثیت اور جہت سے بھی دیکھا جائے تو وہ جہت سے امام ومقتدی کہے جارہے ہیں۔سچ کہا ہے کسی نے:

تیری شان عالمانہ نے یہ ثابت کر دیا
تجھ کو ہے زیبا امامت سیدی احمد رضا 


(ماخوذ از امام احمد رضا اور علوم عقلیہ و تحقیقات علم و فن؛ نوٹ: یہ دونوں مقالہ آن لائن ٹیلیگرام گروپ ”الغزالی اکیڈمی“ میں موجود ہے لہذا تفصیل کے لیے جوائن کیجئے )

اور اخیر میں عالمِ اسلام کو عرس رضوی 2022 مبارک


 نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے