Advertisement

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچویں قسط از مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی

 

علم غیب مصطفی ﷺ


گزشتہ سے پیوستہ

پانچویں قسط


از : مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی
استاذ : جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ، انڈیا ۔



 حضرت ابو بکر اس وقت مکے کے صرف ایک دیانت دار و فیاض تاجر تھے ، اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہ تھی ، اسی درمیان انھیں تجارتی مہم پر ملک شام کا ایک سفر در پیش ہوا اور وہ ضروری تیاریوں کے بعد روانہ ہوگئے ۔
ان کے ہمراہ ان کا وفادار غلام بھی شریک سفر تھا، راستہ طے ہوتا رہا، منزلیں بدلتی رہیں ، ہفتوں شبانہ روز چلتے چلتے اب ملک شام کی سرحد شروع ہوگئی ۔ عربی سوداگر کا یہ مختصر سا قافلہ اب ملک شام کی حدود میں داخل ہو چکا تھا، ایک دن ایسا ہوا کہ ایک لق و دق صحرا سے گزرتے ہوۓ شام ہوگئی ، سیاہ بادل کے بکھرے ہوۓ ٹکڑے تیزی کے ساتھ آفاق پر سمٹنے لگے ، دیکھتے دیکھتے کالی گھٹاؤں کے پردے میں سورج کی لرزتی ہوئی کرن ڈوب گئی ۔ اب شام کا وقت ، گر جتا ہوا موسم اور دامن صحرا میں دو ننھی جانوں کا قافلہ، ہر طرف سے مایوسیوں نے گھیر لیا۔ حیرانی کے عالم میں اونٹنی کی مہار تھامے ہوۓ تیز تیز قدموں سے چلنے لگے کہ فضا میں رات کی تاریکی جذب ہونے سے پہلے پہلے جنگل کی حدود سے باہر نکل جائیں ، رحمت باری شریک حال تھی ، چند ہی قدم چلنے کے بعد جنگل کی حد ختم ہوگئی ، اب کھلے میدان کا اجالا نگاہوں کے سامنے تھا۔ ویسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مسافر کی شام کتنی اداس و اندوہ ناک ہوتی ہے ۔ بحر ظلمات سے نکل آنے کے بعد بھی یہ فکر دامن گیر تھی کہ رات کہاں بسر کی جاۓ ۔
 خدا کی شان کی تھوڑی ہی دور کے فاصلے پر عیسائیوں کا ایک کلیسا نظر آیا ، آبادی کا نشان دیکھتے ہی جان میں جان آئی کہ رات گزار نے کے لیے ایک پناہ گاہ مل گئی تھی ۔ قافلے کی اونٹنی کلیسا کے سامنے پہنچ کر کھڑی ہوگئی ، سنسان ویرانے میں آدمیوں کی آہٹ پاکر ایک شخص باہر نکلا اور حیرت و تجسس کے ساتھ دریافت کیا: آپ لوگ کون ہیں ؟ کہاں سے آرہے ہیں ؟ حضرت ابو بکر نے جواب دیا: ہم عرب کے تاجر ہیں ، مکہ جہاں خدا کا محترم گھر ہے وہیں ہمار مسکن ہے ، ملک شام جاتے ہوۓ غالبا راستہ بھول کر ہم ادھر نکل آۓ ہیں، کلیسا میں ایک رات بسر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ اس شخص نے جواب دیا : یہ کلیسا عیسائی مذہب کے ایک بہت بڑے راہب کی عبادت گاہ ہے ، ساری دنیا سے رشتہ منقطع کر کے سو سال سے یہاں یاد الہی میں مصروف ہیں۔ صرف مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کے قریب جاسکتا ہوں، میرے سو کسی کو ان کی خلوت گاہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ، مجھے ان کی خدمت میں رہتے ہوۓ پچیس سال ہوگئے ہیں، ٹھیک ایک شیخ کی طرح انھوں نے ہماری روحانی تربیت کی ہے۔ سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوۓ کہا : اور جہاں تک رات بسر کرنے کی اجازت کا سوال ہے تو اس کے متعلق کلیسا کی ایک نہایت مشکل شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں رات وہی بسر کر سکتا ہے جس کے دامن زندگی پر گناہوں کی آلائش کا کوئی دھبا نہ ہو؛ کیوں کہ آج سے چند سال پہلے ایک بد کار شرابی سر شام یہاں بھٹکتا ہوا کہیں سے آ گیا اور مسافر سمجھ کر اسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ صبح اٹھ کر اس نے اپنی راہ لی لیکن کافی عرصے تک اس کے کردار کی نحوست کا تاریک سایہ ہمارے شیخ کی روحانی لطافت پر اثر انداز رہا، اسی وقت سے یہاں رات بسر کرنے والوں کے لیے طہارت قلب کی شرط لگا دی گئی ۔  
 اس کی گفتگو تمام ہو جانے کے بعد حضرت ابو بکر نے ارشاد فرمایا: لیکن تمھارے شیخ کے پاس کسی کی اندرونی حالت جاننے کا کیا ذریعہ ہے ؟ کیوں کہ کسی بد کار کی پیشانی پر اس کی مجرمانہ زندگی کی فہرست کندہ نہیں ہوتی ، ایسی حالت میں کلیسا کی اس شرط سے نیکو کار مسافروں کی حق تلفی کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاۓ گا ؛ اس لیے بہتر ہے کہ اس شرط کو منسوخ کرا دو ، یا پھر وہ ذریعہ بتاؤ جس کے بل پر بد کار و نیکو کار کے در میان خط امتیاز کھینچا جا سکے ۔
 ہزار حسن ظن کے باوجود ایک معقول سوال کی زد سے وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکا ، چند ہی جملوں میں ذہن کی بنیاد ہل گئی ، بے بسی کی کش مکش میں اس نے جواب دیا: میں صرف اتنا کہ سکتا ہوں کہ جب ایک بد کار انسان کے کردار کی نحوست شیخ کے تئیں محسوس ہوسکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک نیکو کار کی روحانی لطافت کے جانچنے کا ان کے پاس کوئی ذریعہ ہو۔ اس جواب کے بعد حضرت ابو بکر نے فورا کہا : تو پھر جاؤ اپنے شیخ سے میرے متعلق دریافت کر لو ، اگر انھیں میرے قیام پر اعتراض نہ ہو تو میں رات کا کچھ وقت کلیسا کے ایک گوشے میں گزار لوں ، بیاض سحر نمودار ہوتے ہی یہاں سے کوچ کر جاؤں گا ، ورنہ ایک مسافر کے لیے کھلے آسمان کا سایہ بہت کافی ہے ۔
 تھوڑی دیر تک پس و پیش کے بعد وہ راہب کے خلوت کدے میں داخل ہوا اور پیکر نیاز بن کرا سے یہ اطلاع دی: ملک عرب کے مکہ نامی ایک شہر سے دو مسافر بھٹکتے ہوۓ یہاں آگئے ہیں اور کلیسا میں رات بسر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ، ظاہری وجاہت کے لحاظ سے ان میں سے ایک آقا معلوم پڑتا ہے جب کہ دوسرے کے چہرے سے ایک وفادار غلام کی علامتیں نمایاں ہیں۔ راہب نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد دریافت کیا : کیا وہی مکہ جو پہاڑیوں کے جھرمٹ میں آباد ہے اور جہاں قدم قدم پر کھجوروں کے جھنڈ نظر آتے ہیں ؟ خادم نے جواب دیا: میں نے یہ تفصیل معلوم نہیں کی ہے ، اگر اجازت ہو تو دوبارہ جاکر دریافت کر لوں ۔ راہب نے پر تپاک لہجے میں کہا : ضرور دریافت کرو اور جسے تم آقا کہ رہے ہو اس کا نام بھی معلوم کرتے آؤ۔ خادم نے حجرے سے باہر نکلتے ہی دریافت کیا: یہ معلوم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ جس مکے کو آپ نے اپنا مسکن بتایا ہے کیا وہ پہاڑیوں کے جھرمٹ میں آباد ہے اور کیا جگہ جگہ وہاں کھجوروں کے جھنڈ کھٹرے ہیں ؟ ۔ حضرت ابو بکر نے جواب دیا : ہاں ! یہ دونوں باتیں واقعہ کے مطابق ہیں، پھر وقفے کا سانس لیتے ہوۓ اس نے دوبارہ سوال کیا: زحمت نہ ہو تو اپنے مبارک نام سے روشناس کیجیے : مجھے ابو بکر کہتے ہیں۔ الٹے پاؤں راہب کے سامنے حاضر ہوکر خادم نے اطلاع دی : مکے کے بارے میں جو باتیں آپ نے دریافت کی ہیں وہ صحیح ہیں ، اور وہ اپنا نام ابو بکر بتاتا ہے ۔ ابو بکر کا نام سن کر راہب کی پیشانی پر کچھ لکیریں ابھر آئیں ، جیسے حافظے پر زور دے کر وہ کوئی بات سوچنے لگا، تھوڑی دیر تک محویت خیال کی یہی کیفیت رہی اس کے بعد اچانک کھڑا ہو گیا اور ایک مقفل صندوق میں سے بوسیدہ کاغذات کا ایک دفتر نکالا اور مضطربانہ کیفیت میں اسے الٹنے پلٹنے لگا، ورق الٹتے الٹتے ایک صفحہ پر نظر جم گئی اور اچانک چہرے کے   اتار چڑھاؤ سے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی گم شدہ حقیقت کا سراغ مل گیا ہو۔ فوراً ہی بےتابی کے ساتھ وفادار غلام کو آواز دی اور کہا: مکے کے اس سوداگر سے اتنی بات اور دریافت کر لو کہ اس کے باپ کا کیا نام ہے؟ خادم نے پھر آکر دریافت کیا بار دیگر آپ کو اس امر کی تکلیف دیتے ہوئے شرمندہ ہوں کہ آپ کے والد بزرگوار کا کیا نام ہے؟ حضرت ابو بکر نے متحیر نگاہوں سے اسے دیکھا اور ایک لفظ میں جواب دے دیا: ”ابو قحافہ “۔ واپس لوٹ کر جیسے ہی راہب کو اس نے اس نام کی اطلاع دی اس کی آنکھیں حیرت و انبساط کی ملی جلی کیفیت سے چمک اٹھیں ، جذبات کے ترنگ میں وہ کھڑا ہو گیا اور خادم کو حکم دیا : جاؤ بغیر کسی تاخیر کے اسے میرے خلوت کدے میں بلا لاؤ۔ راہب کا یہ حکم سن کر خادم کو انتہائی اچنبھا ہوا، سکتے کی کیفیت میں وہ تھوڑی دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ سو برس کی روایات کے خلاف یہ بالکل اجنبی حکم کیا واقعی تعمیل کے لیے ہے یا یوں ہی زبان سے نکل گیا ہے۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر راہب نے پھر زور دیتے ہوۓ کہا: تمھیں پس و پیش کیوں ہو رہا ہے ، میں جان بوجھ کر اپنے دستور کی خلاف ورزی کر رہا ہوں ، حکم کی تعمیل کرو ،اظہار حیرت کا یہ موقع نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر اپنے تئیں اس امید میں کھڑے تھے کہ پوچھ گچھ کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد اب یہاں رات بسر کرنے کی اجازت مل جاۓ گی ، جوں ہی قدموں کی آہٹ ملی وہ راہب کا فیصلہ سننے کے لیے گوش بر آواز ہوگئے ۔

 جاری


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے