Advertisement

بیرون ممالک میں حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے خدمات از مولانا محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی


 بیرون ممالک میں حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے خدمات



از: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی ، رام گڑھ ۔
ڈائریکٹر: مجلس علماے جھارکھنڈ و ڈائریکٹر الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ۔



 نام ونسب:

 غلام رشيد بن عبد اللطيف۔ آپ کا اصل نام "غلام رشید" ہے مگر اپنے قلمی نام "ارشد القادری" سے دنیا میں مشہور ہوئے۔

ولادت: 

آپ کی پیدائش سید پور ضلع بلیا (یوپی ) میں ہوئی ۔ جام نور کے رئيس القلم نمبر میں  صفحہ 5/پر آپ کی تاریخ پیدائش 5/ مارچ 1925ء درج ہے جب کہ آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا غلام زرقانی قادری نے اپنی کتاب "دعوت اسلامی اور علامہ ارشد القادری"  کے صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے کہ ہے کہ پاسپورٹ پر لکھی تاریخ کے مطابق آپ کی ولادت 15 مارچ 1925ء میں ہوئی ۔
 ڈاکٹر چاند نظامی جنھوں نے آپ پر پی، ایچ، ڈی کا وقیع مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی ہے، ان کی تحقیق میں جو بات سامنے آئی ہے، اس کے مطابق آپ کی یہ تاریخ پیدائش 9 جنوری 1923ء ہے (علامہ ارشدالقادری حیات وخدمات، ص:19،چاند نظامی) ۔

تعلیم وتربیت:

 ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد محترم سے حاصل کی ۔ اس کے بعد مولاناعظیم اللہ صاحب کے پاس کلکتہ میں آمد نامہ ، فارسی کی پہلی ، گلستاں اور بوستاں پڑھیں ۔ پھر مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں چار ماہ تک تعلیم حاصل کی ۔ کچھ دنوں تک منظر اسلام بریلی شریف میں بھی  زیر تعلیم رہے ۔ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ کے برادر اکبر حضرت علامہ غلام آسی پیار حمۃ اللہ علیہ نے آپ کو مبارک پور کی شہرہ آفاق درسگاہ دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں پہنچادیا۔
آپ یہاں آٹھ سال تک بڑی محنت ولگن کے ساتھ اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہے اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے مخصوص شاگردوں میں اپنا ایک امتیازی مقام بنا لیا۔ 1360ھ /1944ء میں دار العلوم اشرفیہ کے سالانہ اجلاس میں آپ سند فراغت اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔
فراغت کے بعدسے تادم حیات قوم وملت کی خدمت میں لگے رہے، اہل سنت کی بقا اور قوم کی زبوں حالی کو بحال کرنے کی کوشش کرتے رہے، ہندوستان میں آپ نے مساجد و مدارس اور تنظیم وتحریک کی بنا ڈالی. جن کی ایک طویل فہرست ہے. اس اختصاص کی وجہ سے آپ کو بانی مساجد و مدارس کثیرہ بھی کہاجاتا ہے. 
کسی مدرسہ یا تحریک وتنظيم کو چلانا کتنا کٹھن کام ہے یہ باشعور طبقہ بخوبی جانتا ہے. لیکن قربان جائیے علامہ کی ذات پر جنھوں نے نہ صرف یہ کام ہندوستان میں کیا بلکہ کئی سمندر پار دیگر ملکوں میں بھی آپ نے مساجد و مدارس اور تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے سینچا سنوارا بھی، صرف یہ نہیں کہ بنیاد رکھ کر چلے آئے اور بانی بن بیٹھے، بلکہ اس کے لیے بڑی جد وجہد بھی کی ہے،انھیں نہایت صبر آزماں مراحل سے گزرنا پڑا ہے. 
حضرت علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ ہر فرد بشر کو اپنی زندگی میں اوج ثریا تک پہنچانے کے متمنی تھے۔ اس کے لیے آپ نے ملک و بیرون ملک کا دورہ کر کے ہرفرد کو ایک پلیٹ فارم میں جمع ہونے کی دعوت دی اور اعلٰی پیمانے پر تحریک و تنظیم کی بنارکھی۔  ملک وبیرون ممالک میں قائم کردہ مساجد و مدارس اور تنظیم ان کی زندگی کے عظیم کار نامے ہیں جسے رہتی د نیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص برطانیہ میں "ورلڈ اسلامک مشن" ہالینڈ میں "جامعہ مدینۃ الاسلام" بریڈ فورڈ میں "اسلام کالج"  جنوبی امریکہ میں  "انصاری دارالیتمی" اور "انصاری اسکول" سورینام (امریکہ ) میں "دارالعلوم علیمیہ" اور کراچی میں "دعوت اسلامی ‘‘ کی داغ بیل ڈالی.  
  قائد اہل سنت کے یہ ایسے عظیم کارنا مے ہیں جنھیں دیکھ کر اپنے تو اپنے بیگانے بھی حیران و ششدر رہ گئے۔ اب ذیل میں مذکورہ تحریکوں کا ایک مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں ۔ 
(1) ورلڈ اسلامک مشن لندن: 1972ء میں جب علامہ اپنے دوسرے سفر حج پر تھے تو انھوں نے مکہ معظمہ میں مختلف ملکوں سے آئے علمائے اہل سنت اور ممتاز مذہبی پیشواؤں کے ساتھ مل کر ایک میٹنگ رکھی اور باہمی مشورے سے عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کے لیے ایک تنظیم "ورلڈ اسلامک مشن" کی بنیاد رکھی اور 1973ء میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں اس کا دفتر قائم ہوا۔ (آج یہ ادارہ انگلینڈ میں حضرت علامہ قمر الزماں اعظمی مصباحی کی صدارت میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ چل رہا ہے.) 
(2) اسلامک مشنری کالج کا قیام : ورلڈ اسلامک مشن کو سطح زمین پر اتارنے کے لیے زمین کی تلاش شروع ہوئی اتفاق سے ایک چرچ جو بک ر ہاتھ لیکن قیمتی ہونے کی وجہ سے شرکا حضرات خریدنے کے سلسلے میں شش وپنج میں تھے، آپ کو پتہ لگا تو خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے چرچ کو خریدنے کے لیے تیار ہوگئے۔ رقم کی فراہمی کا معاملہ آسان نہ تھا، ایک تو وہ اپنے وطن (ہندوستان) سے دور تھے اس لیے آپ نےوہاں کے علما کو تیار کیا اور انگلینڈ کے شہروں کا دورہ کیا، جس میں عوام کو اسلام کے استحکام اور دینی ادارے کے قیام کے لیے ابھارا اور انھیں یہ احساس دلایا کہ یہ کتنا اہم کام ہے۔ اگرچہ علامہ کو اس کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر بالآخر آپ کے ہمت و ارادے کی جیت ہوئی اور اس چرچ کو خرید کر "اسلامک مشنری کالج" کے نام سے ایک دینی ادارے کی بنیاد رکھی ، اور اس سے متصل ایک مسجد کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔
 حضرت مولانا فروع القادری جو ورلڈ اسلامک مشن کے اہم رکن میں سے ہیں اور فی الوقت انگلینڈ ہی میں مقیم ہیں؛ آپ فرماتے ہیں : آج برطانیہ کے سینے پر سنیوں کی تقریبا آٹھ سو مسجد یں کھڑی ہیں آپ شاید یقین نہ کریں ان کی بقامیں موصوف ( علامہ ارشدالقادری ) کا خون جگر شامل ہے.(جام نور کام رئيس القلم نمبر، ص:107) 
( 3) جامعہ مد ینۃ الاسلام: قائد اہل سنت نے جب ہالینڈ کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی عادت کے مطابق وہاں کے حالات اور مسلمانوں کی خبر لی چناں چہ انھیں یہ سن کر بڑا افسوس ہوا کہ سوری نام (امریکہ ) سے منتقل ہونے والے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور دینی معمولات میں بڑی تیزی سے تبدیلی ہوتی جارہی ہے ۔ یہ سننے کے بعد علاقے کے ذی اثر لوگوں کو جمع کیا اور جامعہ مدینۃ الاسلام کی بنارکھی ۔   ابتداء یہ ادارہ کرائے کے ایک مکان پر چلتارہا جس میں حفظ وقرأت کی تعلیم ہوتی رہی ۔  جب کچھ بچوں نے حفظ قرآن مکمل کر لیا تو دستار حفظ کے لیے پروگرام رکھا گیا۔ چوں کہ آپ (علامہ ارشدالقادری ) اس ادارے کے بانی اور چئیر مین بھی تھے اس لیے آپ کو خصوصی طور پر (ہالینڈ) مدعو کیا گیا۔ پروگرام اتنا کامیاب رہا کہ ہالینڈ میں اس کاچرچا زوروں پر تھا، کئ ہفتے تک تو میڈیا والوں نے اس کی تشہیر کی ۔
 اس کامیابی کے بعد جامعہ کے اراکان اتنے خوش ہوئے کہ انھوں نے حفظ و قرأت کے ساتھ عالم و فاضل کی پڑھائی کےانتظام وانصرام میں لگ گئے. 
اس میں ان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جن لوگوں کی مادری زبان ڈچ، انگلش، جرمن اور فرنچ ہے، انھیں کی مادری زبان میں اسلام کا پیغام پہنچا سکے۔ جامعہ مدینۃ الاسلام کی بنیاد کے لیے جب زمین کی خریداری کے لیے  نکلے تو فضل مولیٰ سے ایک تین منزلہ عیسائی کالج کی شاندار عمارت مل گئی جو تعلیمی منصوبے پر پورے طور سے اتررہی تھی۔ فضل خداوندی دیکھیئے کہ اتنی کم قیمت میں وہ شاندار عمارت مل رہی تھی جتنے میں صرف اس کی زمین خریدی جا سکتی تھی، لوگ اس پر حیران تھے، مگر پھر بھی یہ رقم اکٹھا کرنے کے لیے دو مہینے کی مہلت لینی پڑی جب وقت مقررہ پر رقم اکٹھا ہونے کی صورت نظر نہ آئی تو علامہ شاہ احمد نورانی علامہ ارشدالقادری سے کہنے لگے !
 احباب جامعہ کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں کہ آپ واپس ہندوستان تشریف لے جائیں گے اور بقایا ر قم کی فراہمی ان کے سر پڑ جائے۔ یہ صورت حال ان کی استطاعت سے باہر ہو جائے گی۔ اس لیے جامعہ کی عمارت خریدنے سے پہلے ایک بار غور کر لیں۔ یہ سن کر علامہ صاحب نے جواب دیا کہ میں انھیں چھوڑ کر کہاں جا رہا ہوں کہ بقایا رقم کی فراہمی ان کے سر پڑے گی۔ جب تک جامعہ کی بقایا رقم کی ادائیگی نہیں ہو جاتی میں یہیں رہوں گا۔  
 چند دنوں کے بعد ایک مجلس منعقد کر کے چندے کی اپیل ہوئی ، پروگرام کے اختتام پر علامہ کی ایسی رقت انگیز دعا ہو ئی جس میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہے تھے۔ اسی محفل میں ایک امریکن نوجوان اپنے دوست کے ساتھ موجود تھا اس پر علامہ صاحب کی دعا کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے مطلوبہ رقم اپنے والد سے دلوا کر علامہ کی بے چینی دور کی۔
(4) "سرینام پولٹیکل کونسل" (سورینام) : ہالینڈ جانے سے قبل علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ سورینام پہنچے اور قیام کے دوران یہاں کے مسلمانوں کی سیاسی حصے داری کے متعلق معلومات حاصل کی جب انھیں پتہ چلا کہ یہاں کے مسلمان مختلف پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں، تو آپ نے ریڈیو کے ذریعے اپنی آواز مسلمانوں تک پہنچائی۔ اس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ دوسرے ہی دن سارے سیاسی اور مذہبی مسلم عمائدین کی ایک اہم میٹنگ آپ کے قیام گاہ میں ہوئی اور آپ نے "سر ینام پولٹیکل کونسل" کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد ڈال دی ۔
(5) "دار العلوم علیمیہ"  (سورینام): اسی سفر میں آپ نے اپنی عادت کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے لیے "دار العلوم علیمیہ"  سورینام) کی بھی بنارکھی۔
(6) دعوت اسلامی : علامہ ارشدالقادری کے ذہن میں ایک ایسی تحریک بھی تھی جو جماعت اسلامی کا دعوت و تبلیغ کے ذریعے جواب دے سکے اور دعوت وتبلیغ کے لیے خاص طور پر ایسے افراد ہوں جو اس کام کے لیے پورے طور پر وقف ہوں ۔ چناں چہ اس تحریک کے لیے آپ نے موزوں جگہ پاکستان کو پایا۔ 1982ء میں پاکستان پہنچے  اور وہاں کے ممتاز و معروف علما کے ساتھ مل کر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا خاکہ پیش کیا۔ علمائے پاکستان نے اس تحریک کی حمایت کی اور اس طرح دعوت اسلامی کی بنا ہوئی ۔ آپ ہی نے حضرت مولانا الیاس عطار قادری کو اس کا امیر منتخب کیا. بلکہ فیضان سنت کا ایک خاکہ بھی علامہ نے تیار کیا تھا. 
(7) بیرون ممالک کانفرنسوں میں بحیثیت مندوب شرکت : آپ اپنے ملک کےساتھ ساتھ بیرون ممالک میں بھی  اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ذیل میں ان بین الاقوامی کانفرنسوں کی فہرست ملاحظہ فرمائیں جن میں آپ نے شرکت کی ہے۔
(1) کلچرل کانفرنس، (ایران) 
 (2) اسلامی عالمی کانفرنس، (لیبیا) 
(3) حجاز کا نفرنس، (انگلینڈ) 
(4)امام احمد رضا کا نفرنس، (پاکستان) 
(5) مولانا عبدالعلیم کا نفرنس، (ہالینڈ )
(6) عالمی اسلامی کانفرنس،( عراق )
(7) عالمی میلاد کانفرنس،( پاکستان) 

وصال پر ملال :

۲۰/ اپریل ۲۰۰۲، کو (AIMS) دہلی میں اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی ۔ اس طرح اہل سنت کا عظیم محسن ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہو گیا اور آج تک یہ خلا پر نہیں ہوسکا ، آج جب بھی قوم کسی پریشانی میں ہوتی ہے تو لوگوں کو ان کی یاد بہت ستاتی ہے، بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے !
 کاش آج علامہ ارشد ہوتے!
 انھوں نے ہر مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کی ہے.
ایں سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

ابر رحمت ان کے مرقد پہ گہر باری کرے . 
(نوٹ: اس مضمون کولکھنےمیں رئیس القلم نمبر ( جام نور)، عینی مشاہدات ، دعوت اسلامی اور علامہ ارشد القادری. از:ڈاکٹر غلام زرقانی. سے مدد لی گئی ہے)


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے