Advertisement

اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی تاریخی الفاظ میں از محمد شمیم رضا مصباحی

 

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی حاضر جوابی تاریخی الفاظ میں


از : محمد شمیم رضا مصباحی شراوستی
 خادم: دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ مئو ۔


              امام احمد رضا بریلوی (ولادت: 1856ء_ وفات: 1921ء) نے اپنی مختصر سی زندگی میں جو دینی،فکری،اصلاحی،اعتقادی،سیاسی اور سماجی تحقیقات پیش کی ہیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ،
         محض ساڑھے چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن پاک مکمل کر لینا  چھ سال کی عمر میں میلاد النبی کے موضوع پر خطاب کرکے سامعین کو حیرت میں ڈالنا اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے مسند افتا کو زینت بخشنا آپ کا خاصہ ہے۔
              امام احمد رضا نہ صرف 50  سے زائد علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے بلکہ  قدیم و جدید تمام علوم و فنون میں ایسی ایسی یادگار اور تحقیقات چھوڑی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔
           جہاں پر آپ کو فقہ وحدیث،قرآن و تفسیر،  فصاحت و بلاغت میں ملکۂ خاص حاصل تھا وہیں آپ کے اندر بر جستہ گوئی اور حاضر جوابی و تاریخ دانی بھی بدرجہ اتم و موجود تھی۔
        محدث اعظم سید محمد اشرفی کچھوچھوی  فرماتے ہیں کہ جب دارالافتاء میں کام کرنے کے سلسلے میں بریلی شریف میرا قیام تھا تو رات دن ایسے واقعات سامنے آتے تھے کہ اعلی حضرت کی حاضر جوابی کو دیکھ کر لوگ حیران ہو جاتے ان حاضر جوابیوں میں بالخصوص آپ کی علمی حاضرجوابی تھی جس کی مثال سنی بھی نہیں گئی۔
استفتاء آیا دارالافتاء میں کام کرنے  والوں نے پڑھا اور ایسا معلوم ہوا کہ نئے قسم کا مسئلہ دریافت کیا گیا ہے اور جواب اب جزیہ کی شکل میں نہ مل سکے گا فقہاےکرام کے اصول عامہ سے استنباط کرنا پڑے گا پھر اعلی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا گیا عجب قسم کے سوالات آتے ہیں ہم لوگ کیا طریقہ اختیار کریں؟  (تو اعلیٰ حضرت نے) فرمایا:  یہ تو بڑا پرانا سوال ہے ابن ہمام نے "فتح القدیر" کے فلاں صفحے میں،  ابن عابدین نے "رد المحتار" کی فلاں جلد اور فلاں صفحہ پر (لکھا ہے)  فتاوی "ہندیہ" میں "خیریہ" میں یہ عبارت صاف صاف موجود ہے ۔
       اب جو کتاب کھولا تو صفحہ و جلد اور بتائی گئی عبارت میں ذرا بھی فرق نہیں 
            مانا عرب نے تجھکو یگانہ گایا عرب نے ترا ترانہ
            مانے ہے تجھکو سارا زمانہ حامی سنت اعلیٰ حضرت 

    آپ صرف فقہ وفتاویٰ میں مہارت نہیں رکھتے تھے بلکہ جس فن کا بھی مسئلہ آیا اعلی حضرت نے اسی فن میں اس کا جواب باصواب عنایت فرمایا ۔ مسند افتا پر بیٹھ کر بیک وقت مختلف سوالات کے جوابات الگ الگ املا کرانا  آپ ہی کا خاصہ ہے
آپ کی خداداد صلاحیت،برجستہ گوئی اور حاضر جوابی کے دو واقعات ناظرین و قارئین کی ضیافت طبع کے لیے پیش ہیں  پڑھیں اور اپنے امام کی جلالت علمی پر فخر کریں۔
       اعلیٰ حضرت کی عمر کا 14واں سال تھا کہ ایک صاحب خدمت اقدس میں حاضر ہو کر  عرض گزار ہوئے ۔ کہ ایک صاحب نے امام باڑا بنایا ہے ان کی خواہش ہے کہ حضور امام باڑے کا تاریخی نام  تجویز فرمادیں تاکہ امام باڑے کے دروازے پر لکھا دیا جائے اعلی حضرت نے یہ عریضہ سن کر فی البدیہ اور تنقید آمیز تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:ان سے کہیے امام باڑے کا نام "بدر رفض" 1286ھ رکھیں۔ (یہ سوال 1286ھ میں کیا گیا تھا اس لیے آپ نے اس کا عدد نکالا) اس جواب کو سن کر وہ صاحب بولے اصل میں امام باڑہ سال گذشتہ ہی تیار ہوگیا تھا، ان کا مقصد تھا کہ اعلی حضرت کوئی دوسرا مادۂ تاریخ تجویز فرمائیں جس میں لفظ "رفض" نہ ہو اعلی حضرت نے فوراً ہی فرمایا تو "دار رفض"  1285ھ  رکھیں۔ یہ سن کر وہ صاحب چپ ہو گئے پھر  تھوڑی دیر کے بعد بولے کہ اس کی ابتدا 1284ھ  میں ہوئی تھی, اس لیے اسی سال کا تاریخی نام زیادہ مناسب ہوگا اس پر اعلی حضرت نے برجستہ فرمایا تو "در رفض"1284ھ رکھ لیں ۔(حیات اعلیٰ حضرت،صفحہ نمبر 309)  
              قارئین! اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کس قدر آپ کو ذہانت و فطانت عطا کی تھی ایک طرف رافضی ہے جو تاریخ بدل بدل کر لفظ "رفض"  ہٹانا چاہتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ احمد رضا کے سامنے اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔یہ تو صرف تین ہی مرتبہ تاریخ بدلا میرا خیال ہے کہ اگر دسیوں بار بدلتا تو بھی اعلی حضرت لفظ رفض نہ ہٹا تے  اور تاریخی نام بتا دیتے۔واضح رہے کہ اس نے لفظ رفض ہٹانے کی بات نہیں کی تھی لیکن اعلی حضرت نے اسے دیکھ کر اندازہ لگا لیا اور اس کو منہ توڑ جواب عنایت فرما یا-
              اسی طرح ایک اور رافضی نے خلفاے ثلاثہ کی تنقیص شان کرتے ہوئے بطور طنز سوال کیا۔کہ  إِنَّا مِنَ ٱلۡمُجۡرِمِینَ مُنتَقِمُونَ ۔ بے شک ہم مجرموں سے بدلا لینے والے ہیں  کے اعداد (1202) ہیں اور یہی عدد ابوبکر، عمراور عثمان کے ہیں آخر ایسا کیوں؟. واضح رہے کہ یہ سوال ایک رافضی نے قاضی فضل احمد نقشبندی سےکیا تھا جس کا مقصد خلفائے ثلاثہ پر طنز کرنا اور ان کو اس کا مصداق بناکر تنقیص شان کرنا تھا۔
قاضی صاحب نےجواب تو دے دیا ولکن لیطمئن قلبی کے تحت وہی سوال اعلی حضرت کی بارگاہ میں پیش کردیا ۔اعلی حضرت کا جواب آپ بھی ملاحظہ فرمائیں 
الجواب۔روافض لعنھم اللہ تعالی کی بناۓ مذہب ایسے ہی اوہام بے سر وپاپر ہے۔
            اولا: ہر آیت عذاب کے عدد اسماے اخیار سے مطابق کر سکتے ہیں اور ہر آیت ثواب کے عدد اسماے کفار سے کہ اسما میں وسعت وسیعہ ہے۔
         ثانیاً: امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے تین صاحبزادوں کے نام ابوبکر،عمر عثمان ہیں۔
رافضی نے آیت کو اِدھر پھیرا کوئی ناصبی اُدھر پھیر دے گا، اور دونوں ملعون ہیں۔
            ثالثاً: رافضی نے اعداد غلط بتلائے امیر المومنین عثمٰن غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام میں الف نہیں لکھا جاتا تو عدد1201 ہیں، نہ کہ دو۔
           ہاں رافضی! بارہ سو دو عدد کا ہے کے ہیں؟ ابن سبا رافضیہ کے 
           ہاں رافضی! بارہ سو عدد ان کے ہیں: ابلیس، یزید، ابن زیاد، شیطان وغیرہ۔
          ہاں رافضی! اللہ عزوجل فرماتا ہے: ان الذین  فرقوا دینھم وکانو شیعا لست منہم فی شیء: بے شک جنہوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور شیعہ ہو گئے اے نبی تمہیں ان سے کچھ علا قہ نہیں۔(سورہ انعام آیت۔١٥٩)
اس آیت کریمہ کے عدد 2828 ہیں،اور یہی عدد ہیں روافض، اثنا عشریہ،شیطانیہ،اسمٰعیلیہ کے اور اگر اپنی طرف سے اسمٰعیلیہ میں الف چاہیے تو یہی عدد ہیں روافض، اثنا عشریہ،و نصیریہ، اسماعیلیہ کے۔
مزید اور دلیل دینے کے بعد فرماتے ہیں: الحمدللہ آیت کریمہ کا تمام و کمال جملہ مدح بھی پورا ہو گیا اور حضرت عشرہ مبشرہ کے اسماے طیبہ بھی آگئے جس میں اصل تکلف اور تصنع کو دخل نہیں۔  
اس کے بعد فرماتے ہیں: کچھ روز سے آنکھ دکھتی  ہے یہ تمام آیات عذاب و اسماے اشرار وآیات مدح  واسماے اخیار کےعدد محض خیال سے مطابق کیے جن میں صرف چند منٹ صرف ہوئے اگر لکھ کر اعداد جوڑے جاتے تو مطابقتوں کی بہار نظر آتی مگر بعونہ تعالی اس قدر بھی کافی ہے وللہ الحمد واللہ تعالی اعلم۔
         یہ فتوی نقل کرنے کے بعد قاضی صاحب تحریر فرماتے ہیں راقم الحروف عرض کرتاہے  کہ شیعہ یعنی رافضی کا تو ماشاء اللہ دلیہ نہیں بلکہ قیمہ ہو گیا۔  اب مجال دم زدن نہیں_ فقیر نے یہ کرامت اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد مائۃ حاضرہ امام اہل سنت وجماعت بچشم خود ملاحظہ کی کہ چند لمحوں میں ان تمام آیات و اعداد کی مطابقت زبان فیض ترجمان و الہام سے فرمائ 
          یہ رات کا وقت تھا قریب نصف گزر چکی تھی،واللہ باللہ عدداخیار و اشرار کے اسماء بلا سوچے اور بے تأمل کیے فرما دیے کہ فقیر سوا اس کے اور اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ اعلی حضرت کی کرامت کا اظہار بذریعہ القاے ربانی و الہام سبحانی تھا
     صرف اتنا ہی نہیں آگے اور بھی لکھوایا
(1) أَهۡلَكۡنَٰهُمۡۚ إِنَّهُمۡ كَانُواْ مُجۡرِمِينَ    کے اعداد 668 ہیں جو برابر ہیں رشید احمد گنگوہی کے. 
وَلَقَدۡ قَالُوا۟ كَلِمَةَ ٱلۡكُفۡرِ وَكَفَرُوا۟ بَعۡدَ إِسۡلَـٰمِهِمۡ  کے اعداد ہیں 1268 جو برابر ہیں اشرف علی تھانوی کے
  اسی طرح اور بھی بہت سارے گل اور بوٹے کھلائے ہیں جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں- ع
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں

          اس واقعے سےاعلیٰ حضرت کی تاریخ گوئی، قرآن فہمی اور حاضر جوابی کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح آپ بلا جھجک،بغیر تأمل کے برجستہ جواب عنایت فرمادیتے 

نوٹ: یہ واقعہ انوار آفتاب صداقت مصنفہ قاضی فضل احمد نقشبندی  مجددی سے اختصاراً نقل کیا گیا ہے تفصیل کے لیے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں , واضح رہے کہ اس کتاب پر اکابر علماء کی تصدیقات و تقریظات کے ساتھ اعلیٰ حضرت کی تقریظ بھی موجود ہے. 

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے