Advertisement

اگر اللہ تعالی نے آپ کو دولت سے نوازا ہے تو قرض معاف کرنا سیکھیں از سراج احمد قادری مصباحی

اگر اللہ تعالی نے آپ کو دولت سے نوازا ہے تو قرض معاف کرنا سیکھیں از سراج احمد قادری مصباحی
 

اگر اللہ تعالی نے آپ کو دولت سے نوازا ہے تو قرض معاف کرنا سیکھیں



از: سراج احمد قادری مصباحی، مرغیا چک، سیتامڑھی بہار۔
6355155781
۲۹/ستمبر ۲۰۲۲
۲۱/صفر المظفر ۱۴۴۴



اس دنیاے فانی کے اندر مختلف قسم کے انسان زندگی گزاررہے ہیں،ان انسانوں کے اندر وہ لوگ بھی جن کے پاس ہر طرح کی دولت موجود ہے،گھر، مکان، بنگلے، گاڑیاں، کمپنیاں، روپیے، پیسے اس تعداد میں ہیں کہ انہیں ختم ہوتے صدیاں گزر جائیں۔وہیں اس عارضی قرارگاہ میں ایسے بھی لوگ جی رہے ہیں جو اپنی تنگ دستی اور مفلسی کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں،صبح کھانے کو کچھ مل بھی جاتا ہے تو شام کے کھانے کا شدت سے انتظار کرتے ہیں،کئی کئی دنوں تک صرف پانی پر ہی گزارہ کرلیتے ہیں۔
اگر کوئی مزدوری کرتا بھی ہے تو وہ صرف اتنا کمالیتا ہے کہ دوروز کا کھانا کھاسکے،ان کے بچے بیمار پڑتے ہیں تو ان کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے، بیٹیاں شادی کے قابل ہوتیں ہیں تو ان کی شادیاں رچانے کے لیے روپیے نہیں ہوتے،نیا کپڑا تو کبھی نصیب ہی نہیں ہوتا، وہی پھٹے، پرانے کپڑے میں ملبوس ہوکر اس امید میں رہتے ہیں کہ آج نہیں تو کل نئے کپڑے مل جائیں گے، لیکن ایک عرصہ گزرجاتا ہے، نئے کپڑے میسر نہیں ہوتے۔
گزشتہ لاک داؤن کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں،بہت سے غریب، لاچار، مجبور،شدت بھوک کی خاطر اپنی جانیں گنوادیں،ان حالات کے شکار ہمارے علما بھی ہوئےانہیں بھی طرح طرح کی پریشانیاں جھیلنا پڑیں،چند علما تو ڈپریشن کے شکار ہوگئے، درجنوں علماایسے تھے کہ حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت بالکل بھی نہ تھی بالآخر دنیا کو الوداع کہ کر مالک حقیقی سے جاملے۔ (مولی ان پر رحمت ومغفرت کی برسات کرے)
جب تنگ دست افراد پراس طرح کی پریشانی اور مصیبت آتی ہے تو وہ مفلوک الحال،پریشان حال شخص اپنے خاندان، رشتے دار، دوست واحباب کا دروازہ کھٹکھٹاتاہے، دل میں یہ امید لیے کہ ان رشتے داروں اور احباب سے کچھ مدد مل جائے گی،پریشانی کا حل نکل جائے گا، غم کے بادل چھٹ جائیں گے، خوشیاں ہم بھی دیکھ سکیں گے۔
ایسے حالات میں خاندانوں،رشتہ داروں اور مالداردوست واحباب کو چاہیے کہ وہ قرض حسن یا ہدیہ یا پھر صدقات وخیرات کے ذریعہ ان پریشان حال لوگوں کی مددکریں۔
اگر آپ  ان کی مدد قرض حسن کے طور پر کرتے ہیں تو فورا ان سے پیسے کا مطالبہ نہ کیجیے، انہیں مہلت دیجیے، اگر اس کے حالات اسی طرح ہیں، کچھ بھی بدلاؤ نہیں آیا ہے، قرض واپس کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو آپ ان کے قرض کا کچھ حصہ یا آدھا حصہ یا کل قرض معاف کردیں،یقینا جو قرض معاف کردیتا ہے وہ قیامت کے دن کی ساری تکالیف، پریشانیوں سے محفوظ رہے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا جبکہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا، وہ شخص اللہ کی رحمت کا حقدار ہوگا۔
ارشاد ربانی ہے:
 وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  (البقرۃ، آیت: ۲۸۰)
ترجمہ: اوراگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لیے اور بھلاہے اگر جانو۔
تفسیرخازن میں ہے:تمہارے قرضداروں میں سے اگر کوئی تنگ دستی کی وجہ سے تمہارا قرض ادا نہ کر سکے تو اسے تنگ دستی دور ہونے تک مہلت دو اور تمہارا تنگ دست پر اپنا قرض صدقہ کر دینا یعنی معاف کردینا تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اگر تم یہ بات جان لو کیونکہ اس طرح کرنے سے دنیا میں لوگ تمہاری اچھی تعریف کریں گے اور آخرت میں تمہیں عظیم ثواب ملے گا۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۰، ۱ / ۲۱۸)  
قرض دار کو مہلت دینے اور قرض معاف کردینے کی بہت ساری فضیلتیں احادیث وروایات میں وارد ہیں ان میں سےچند نقل کی جارہی ہیں پڑھیں اور اپنے بھائیوں کے قرض کو معاف کردیں یا مہلت دے دیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے اور خریدنے اور تقاضا کرنے میں آسانی کرے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب السہولۃ والسماحہ فی الشراء والبیع، ۲ / ۱۲، الحدیث: ۲۰۷۶ )
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ  تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی تکلیفوں سے نجات دے وہ کسی مُفلِس کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔ (مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۵، الحدیث: ۳۲(۱۵۶۳))
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا جبکہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔(ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی انظار المعسر۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۲، الحدیث: ۱۳۱۰)
صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں حاضر اُس معاف کرنے والے، مالدار پر آسانی کرنے اور تنگدست کو مہلت دینے والے شخص سے فرمایا’’ میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار ہوں ، اے فرشتو! میرے اس بندے سے درگزر کرو۔(مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۴، الحدیث: ۲۹(۱۵۶۰))
حضرتِ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ آپﷺ نے ارشادفرمایا: ’’ایک تاجر، لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ پھر جب دیکھتا کہ کوئی محتاج ہے، تو اپنے غلاموں سے کہتا ، اس کو معاف کردو۔ شاید اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم کو بھی معاف کردے۔ آخر ( جب وہ مرگیا تو) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو بخش دیا‘‘۔ (سنن النسائی)
میں قرض داروں سے گزارش کروں گا کہ ہمیشہ قرض کے سہارے زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ آپ خود کی محنت کی کمائی سے زندگی گزارنے کی کوشش کیجیے۔
اور قرض کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ خاص طور سے ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے رہیں۔
اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ‘‘ یعنی اے اللہ! مجھے اپنے حلال کے ذریعے اپنے حرام سے تو کافی ہوجا، اورمجھے اپنی مہربانی سے اپنے سوا سے بے پرواہ کردے۔(ترمذی، احادیث شتی، ۱۱۰- باب، ۵ / ۳۲۹، الحدیث: ۳۵۷۴)
اور ہوسکے تو وضو کے دوران یہ دعا بھی پڑھتے رہیں آپ کے قرض کی ادائیگی کے اسباب جلد ہی نکل آئیں گے۔
اللھم اغفرلی ذنوبی ووسع لی فی داری وبارک لی فی رزقی۔
اس تحریر کو لکھنے پر میرے ایک دوست کے جملے نے مجبور کیا، وہ جملہ بعد میں آرہا ہے، میرے ایک بہت ہی قریبی دوست ہیں کئی جہتوں سے میرے محسن بھی ہیں،میں نے ان سے ایک خطیر رقم قرض حسن کے طور پر لیا تھا،جب انہیں پتہ چلا کہ میں حرمین شریفین کی زیارت کے لیے جارہا ہوں،انہوں نے واتساپ پر لکھا کہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے آپ کا بقیہ قرض معاف کیا۔  
میں نے دوست کا تذکرہ صرف اس لیے کیا کہ اللہ تعالی نے جنہیں مال ودولت سے نوازا ہے وہ میرے دوست کی طرح قرض داروں کے کچھ یا آدھا یا پورا قرض معاف کردیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سبھوں کو قرض دار کو مہلت دینے والا یا قرض معاف کرنے والا بنائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے