Advertisement

اعلی حضرت کے اقتصادی نظریات از غلام مصطفی نعیمی

اعلی حضرت کے اقتصادی نظریات از غلام مصطفی نعیمی

 اعلی حضرت کے اقتصادی نظریات


از : غلام مصطفی نعیمی
روشن مستقبل دہلی
٢٣ صفرالمظفر ١٤٤٤ھ
21 ستمبر 2022 بروز بدھ



امام احمد رضا قادری برکاتی(1272/1340ھ) اپنے عہد کے مجدد اور علماے ربانین کے سرخیل تھے۔جس طرح آپ نے فقہ وافتا اور حدیث وتفسیر میں گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے اسی طرح دیگر علوم وفنون میں بھی آپ نے مثالی رہنما کا فریضہ انجام دیا ہے۔آج کے اس مضمون میں ہم آپ کے اقتصادی نظریات پر گفتگو کریں گے تاکہ حیات رضا کا یہ پہلو بھی پوری آب وتاب کے ساتھ سامنے آسکے۔

_________اقتصاد کسے کہتے ہیں؟

انسان کی کچھ بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں جنہیں ہر حال پورا کرنا ہوتا ہے۔ان ضرورتوں میں روٹی،کپڑا اور مکان سر فہرست ہیں۔پیٹ بھر روٹی،تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے لائق گھر سب کو چاہیے۔ انہیں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے انسان خرید وفروخت کا سلسلہ شروع کرتا ہے۔ایک انسان کچھ خریدتا ہے تبھی دوسرے انسان کا گھر چلتا ہے،اسی طرح جب انسان کچھ بیچتا ہے تبھی اس کی روزی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے یعنی انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے خرید وفروخت ایک لازمی چیز ہے جس کے بغیر انسانی زندگی نہیں چل سکتی۔اسی نظام کو ہم نظام اقتصاد یا اکنامکس کے نام سے جانتے ہیں۔
______اقتصاد لفظ "قصد" سے بنا ہے جس کے معنی ہیں میانہ روی، کفایت شعاری اور اعتدال سے کام لینا۔جب کہ اصطلاحی اعتبار سے اقتصاد فضول خرچی اور کنجوسی سے بچنے کا نام ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور فرماتے ہیں:
والقصد في المعيشة :أن لا يسرف ولا يقتّر. (لسان العرب مادہ قصد)
"معاشی نقطہ نظر سے اقتصاد کا مطلب فضول خرچی اور کنجوسی سے بچنا اور دونوں کے درمیان رہنا ہے۔"
  اس کے علاوہ لغت میں اقتصاد کے معنی تدبیر ،نظام اور حکمت وغیرہ کے بھی آتے ہیں۔یعنی اقتصاد کا معنی بہر طور ایسے امور پر دلالت کرتا ہے جس سے انسان اپنی بھلائی کے راستے تلاش کر سکے۔اصطلاحی اعتبار سے اسی کو اقتصادیات،علم المعیشت اور اکنامکس (Ecnomics) کہا جاتا ہے۔
______________سن 1912 میں اعلیٰ حضرت نے "تدبیر فلاح و نجات و اصلاح" کے عنوان سے ایک معرکۃ الآرا تحریر پیش فرمائی تھی۔جس میں اعلیٰ حضرت نے فقہی دیدہ وری اور علمی بصیرت سے ایسے نکات تجویز فرمائے تھے جن پر آج بھی عمل کرلیا جائے تو مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھر سکتی ہے۔آپ نے قوم کی معاشی حالت بدلنے کا جو حل تجویز فرمایا تھا وہ چار اہم نکات پر مشتمل ہے۔آئیے ان نکات کو سمجھیں تاکہ فلاح امت کی راہ تلاشی جاسکی۔ 

____________اعلیٰ حضرت کے چار نکات:

نکتہ اول:
 "باستثنا ان معدود باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو، اپنے تمام معاملات (مسلمان) اپنے ہاتھ میں لیتے، اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے یہ کروڑوں روپئے جو اسٹامپ اور وکالت میں گھسے جاتے ہیں گھر کے گھر تباہ ہوگئے اور ہوئے جاتے ہیں، محفوظ رہتے۔" (تدبیر فلاح ونجات ص۶)
کسی بھی قوم کی معاشی ترقی کا پہلا زینہ مال کو غیر ضروری خرچوں سے بچانا ہے۔اگر ہم اعلی حضرت کے اس نکتے پر عمل کرلیں تو سالانہ کروڑوں روپے بچا سکتے ہیں۔ہمارا یہ گاڑھا پیسہ وکیلوں کی فیس،افسروں کو رشوت،اسٹامپ پیپروں کی خریداری،اور جیل کی مشقتوں سے بچنے کے لیے خرچ ہوتا ہے۔اسے بچانے کے لیے جہاں تک ہوسکے مقدمات اپنے درمیان ہی نپٹاے جائیں تاکہ جو پیسہ مقدموں میں برباد ہوتا ہے وہ محفوظ(save)رہے۔مقدمہ بازیوں میں پیسہ کس طرح برباد ہوتا ہے اسے جاننے کے لیے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں:
٭ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی تقریباً ساڑھے سولہ فیصد آبادی جیلوں میں ہے۔
٭جب کہ تقریباً 19؍فیصد آبادی مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔یعنی مسلمانوں کی کل 20؍سے 25؍فیصد آبادی کورٹ کچہری اور جیل کی مصیبتوں میں گرفتار ہے۔
یہ اعداد وشمار اُس وقت ہیں جب کہ ملک میں مسلمانوں کی کل آبادی ہی ساڑھے چودہ فیصد بتائی جاتی ہے یعنی مسلمان اپنی آبادی سے چار گنا زیادہ جیل اور مقدمہ بازیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔اگر اعلیٰ حضرت کے اس نکتے پر عمل کرتے ہوئے ہر مسلم بستی میں ذمہ دار افراد کی ایک ایسی ٹیم بنائی جائے جو مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کو اپنی سطح تک ہی سلجھائے تو ذرا سوچیے کہ اس کا کس قدر فائدہ ہوگا۔ایک طرف مسلمان کورٹ کچہری کی ذلت ورسوائی سے بچیں گے تو دوسری جانب ان کا کروڑوں روپیہ بھی محفوظ رہے گا۔اسے اس طرح سمجھیں کہ اگر مسلمانوں کے ایک لاکھ افراد بھی مقدمہ بازیوں میں لگے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے مقدمہ پر سالانہ دس ہزار روپے بھی خرچ ہوتے ہیں تو ایک سال میں قریب ایک ارب یعنی 100؍کروڑ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ سوکروڑ میں دو میڈیکل کالج،دس ڈگری کالج یا تین چار انجینئرنگ کالج بنائے جاسکتے ہیں،جب کہ اگر ان پیسوں کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے تو سالانہ ہزاروں آدمیوں کو روزگار دیا جاسکتا ہے مگر اسے ہماری بے حسی اور مجرمانہ غفلت ہی کہا جائے گا کہ ہمارا یہ پیسہ آپسی جھگڑوں میں خرچ ہوتا ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہم نے صرف بہ طور مثال ایک لاکھ شمار کیا ہے اصل تعداد اور خرچ تو اس سے دس گنا زیادہ ہے اگر سارے اعداد وشمار جمع کیے جائیں تو سالانہ کئی ارب روپے مقدموں کی نذر ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی باعث اطمیان ہوگی کہ حکومت خود لوگوں کو آپسی افہام وتفہیم سے معاملات سلجھانے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ عدالتوں پر کم سے کم بوجھ پڑے،اسی لیے حکومت "لوک عدالت" یعنی عوامی عدالت کا انعقاد کرتی ہے جہاں اس کے افسران فریقین کو بلا کر سمجھا بجھا کر عدالت کے باہر ہی صلح صفائی کے ذریعے مقدمات نپٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب حکومت خود یہ کام کرا رہی ہے تو کیا ہم یہ کام کیوں نہیں کر سکتے؟
ضرور کر سکتے ہیں بس تھوڑی سی توجہ اور ذرا سی محنت کی ضرورت ہے لیکن شرط یہ ہے ہمیں قومی درد کا احساس ہو تبھی ہم اپنے امام کی اس بات پر عمل کر پائیں گے۔

نکتہ دوم:
"اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا۔ اپنی حرفت و تجارت کوترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہیں رہتے یہ نہ ہوتا کہ یورپ و امریکہ والے چھٹانک بھر تانبہ کچھ صناعی کی گڑھت کرکے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر آپ کو دے جائیں اور اس کے بدلے پاؤ بھر چاندی آپ سے لے جائیں۔"(تدبیر فلاح ونجات ص۶)
  یعنی مسلم خریدار حتی الوسع مسلمان تاجر یا کاریگر سے ہی سامان خریدنے کو ترجیح دے تاکہ گھر کا نفع گھر میں ہی رہے۔اس سے اپنی حرفت و تجارت کو فروغ ملتا۔اس نکتے میں دو بنیادی باتیں ہیں؛
1۔ایک طرف کاروبار میں لگایا گیا روپیہ (Investment) بڑھتا۔ 
2۔دسری طرف مسلمانوں کی بے کاری میں کمی ہوکر روزگار (Employment) میں اضافہ ہوتا۔
  اس باہمی تعاون سے تاجروں اور صناعوں کی مالی حالت میں بہتری آتی اور محنت کشوں (Labourers) کو بھی معاشی فائدہ حاصل ہوتا۔اس  طرح قوم کے دونوں ہی طبقے ایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے اور مجموعی طور پر قوم کی معاشی صورت حال بہتر سے بہتر ہوتی۔اس بات کوقدرے تفصیل سے سمجھیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ اس نکتہ پر عمل نہ کرکے قوم مسلم کس قدر پریشانیاں اٹھانے پر مجبور ہے۔دہلی میں مسلمان کئی کاروبار اپنے دم پر چلاتے ہیں جیسے زردوزی(کپڑوں پر نقاشی کرنا) اور جینس وغیرہ مگر بجائے اس کے کہ مسلمان ایک دوسرے کے کاموں اور ہنر مندی سے فائدہ اٹھاتے اغیار کو اس کافائدہ پہنچاتے ہیں جس کی بنا پر مسلم کاریگر اور تاجر چھٹانک بھر منافع کماتے ہیں جب مسلمانوں کے تیار کردہ مال پر اپنا برانڈ لگا کر اغیار سالانہ اربوں کھربوں روپیہ کماتے ہیں۔یہاں ایک اور بات بھی لائق توجہ ہے کہ مسلم خریدار غیر مسلم سے سامان خریدنے کو ترجیح دیتا ہے جب کہ مسلم دکان دار غیر مسلم سے خرید وفروخت کو پسند کرتا ہے۔مسلم دکان داروں کو مسلم خریداروں سے شکایت ہے تو مسلم خریدار مسلم دکان داروں کے رویے سے ناراض رہتےہیں۔اس معاملے میں حقیقت یہی ہے کہ ہمارے دونوں ہی افراد کو تحمل اور سمجھ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔مسلم دکان داروں کو چاہیے کہ اپنے بھائیوں سے مناسب منافع پر سامان دے دیا کریں لیکن مسلم دکان داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک ہی خریدار سے پورے دن کا نفع کما لوں اس لیے مسلم دکان دار اتنے کامیاب نہیں ہوپاتے جتنا غیر مسلم دکان دار،پھر ایک دقت یہ بھی ہوتی ہے کہ مسلم دکان داروں کا رویہ بڑا روکھا پھیکا ہوتا ہے جس کے باعث لوگ ان سے بچتے ہیں جب کہ غیر مسلم میٹھے لب ولہجے کی بدولت کامیاب ہوجاتے ہیں۔مسلم خریداروں کو بھی چاہیے کہ وہ جتنی شرافت اور سنجیدگی سے غیروں سے سامان خریدتے ہیں اسی طرح اپنے بھائیوں سے خریدا کریں اگر تھوڑا بہت دام زیادہ بھی لگے تو یہ سوچ کر لے لیا کریں کہ آخر گھر کا نفع گھر میں ہی ہے۔

  نکتہ سوم:
"بمبئی، کلکتہ، رنگون، مدراس، حیدر آباد وغیرہ کے توانگر مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بنک کھولتے۔ سود شرع نے حرامِ قطعی فرمایا ہے۔ مگر اور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ" کفل الفقیہ الفاھم" میں چھپ چکا ہے۔ ان جائز طریقوں پر نفع بھی لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی بھی حاجت بر آتی اور آئے دن جو مسلمانوں کی جائیدادیں بنیوں کی نذر ہوئی چلی جاتی ہیں ان سے بھی محفوظ رہتے۔ اگر مدیون کی جائیداد ہی لی جاتی، مسلمان ہی کے پاس رہتی، یہ تو نہ ہوتا کہ مسلمان ننگے اور بنئے چنگے۔" (تدبیر فلاح ونجات ص:۶)
  اعلیٰ حضرت کا یہ نکتہ نہ صرف اپنے زمانے بل کہ آج بھی انتہائی قابل قدر مشورہ ہے،کہ مال دار مسلمان اپنے غریب بھائیوں کے لیے غیر سودی بینک قائم کریں کہ اس طریقے سے دونوں کا فائدہ ہے ایک طرف غریب مسلمانوں کی مالی ضرورتیں پوری ہوں گی اور دوسری طرف امیر لوگوں کو بھی منافع ملے گا۔
__________ہم سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں بینکنگ(Banking) ایک ایسا نظام ہے جس سے تقریباً سارے ہی عوام و خواص جڑے ہیں،مگر پوری دنیا میں بینکنگ کا نظام سودی سسٹم (intrest system) پر مشتمل ہے۔جس کے تحت اگر کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت کے لیے کچھ قرض لیتا ہے تو اسے اصل رقم سے زیادہ رقم واپس کرنا پڑتی ہے۔اگر قرض خواہ مقررہ وقت میں اصل رقم اور سود واپس نہیں کر پاتا تو بینک والے اس کی جائداد یا زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں ،اس طرح ایک غریب انسان مزید بے کار اور بے سہارا ہوجاتا ہے۔اسلام میں سود سرے سے حرام ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ۔(سورہ بقرۃ:۲۷۵)
اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام فرمایا۔
  نبی اکرم ﷺ نے جس مثالی معاشرے کی تشکیل فرمائی اس میں سود کے لیے رتّی بھر بھی گنجائش نہیں تھی۔ایک موقع پر طائف کا ایک وفد مدینہ منورہ پہنچا اور قبول اسلام پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے تین شرطیں مان لینے کا مطالبہ کیا،وہ تین شرطیں یہ تھیں:
1۔زنا کی حرمت سے انہیں مستثنی رکھا جائے۔
2۔شراب کی حرمت سے رخصت دی جائے۔
3۔سودی کاروبار کی اجازت دی جائے۔
  نبی اکرمﷺ نے بغیر کسی پس وپیش کے ان شرائط کو یکسر مسترد فرما دیا۔کیوں کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں مثالی کردار اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایک انسان زنا اور شراب سے محفوظ نہ ہو،اسی طرح کسی معاشرے میں ہمدردانہ جذبات اس وقت باقی نہیں رہ سکتے جب تک سودی نظام کا خاتمہ نہ ہو،اس لیے اہل طائف کی قبول اسلام کی مشروط پیش کش کو آقائے کریمﷺ نے قبول نہیں فرمایا حتی کہ انہوں نے غیر مشروط طریقے پر اسلام قبول کیا۔
  اعلیٰ حضرت کے زمانہ مبارکہ میں بھی سودی نظام کی دو شکلیں رائج تھیں:
1۔حکومتی سرپرستی میں چلنے والا بینکنگ سسٹم۔
2۔علاقائی سطح پر چلنے والا بنیوں کا سودی نظام۔
بینکنگ نظام انگریزوں نے قائم کیا جب کہ بنیے عرصہ دراز سے ذاتی طور سودی نظام قائم کیے ہوئے تھے۔دونوں ہی طبقات قرض خواہ کی زمین یا سونا چاندی گروی رکھ کر قرض دیتے اور اس پر سود کی ایسی شرحیں نافذ کرتے کہ انسان اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم دے کر بھی قرض دار رہتا تھا نوبت یہاں تک پہنچتی کہ اخیر میں قرض دار اپنی زمین اور زیورات سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔چلے تھے قرض لیکر مالی حالت سدھارنے مگر حالت کیا سدھرتی جو جمع پونجی تھی وہ بھی لٹا بیٹھتے۔اس لیے اعلیٰ حضرت قوم مسلم کی بھلائی اور ان کی اقتصادی حالت سدھارنے کے لیے اپنے عہد کے مشہور ومعروف شہروں کے امیر مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی دولت کا استعمال کرتے ہوئے بینک قائم کریں اور غیر سودی نظام کے ساتھ اپنے غریب بھائیوں کی مدد کریں۔اب یہاں یہ سوال آتا ہے کہ محض جذبہ اخوت کی بنیاد پر مستقل اپنا مال کوئی کب تک پیش کر سکتا ہے؟
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ بہ حیثیت مومن ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رہنا چاہیے:
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ۔(سورہ بقرہ:۲۴۵)
"ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گنُا بڑھا دے۔"
  دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت رقم طراز ہیں:
"سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے،مگر اور سوطریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہےـــ.... ان جائز طریقوں پر نفع بھی لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی بھی حاجت بر آتی اور آئے دن جو مسلمانوں کی جائیدادیں بنیوں کی نذر ہوئی چلی جاتی ہیں ان سے بھی محفوظ رہتے۔"(ایضاًص۶)
اعلیٰ حضرت کے اس نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک معاصر دانش ور پروفیسر عبد المجید لکھتے ہیں:
"اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک نہایت ہی انقلابی مشورہ مجددِ عصر اعلیٰ حضرت نے دیا تھا۔ اس زمانے میں بھی بنکنگ سسٹم کی بنیاد سود پر تھی۔ سود کے بغیر بنک کے وجود کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے دور میں اعلیٰ حضرت نے غیر سودی بنک کا نظریہ پیش کر کے دینی جدت طرازی کی ایک زبردست مثال قائم کر دی تھی۔ آپ نے چند مخصوص شہروں کے مالدار مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ غیر سودی بنک قائم کر کے اپنے ان مسلمان بھائیوں کی مالی اعانت کریں جو کسی حرفت یا صنعت میں قسمت کو آزمانا چاہتے ہیں، اور ان کے پاس سرمایہ کی کمی ہے۔ نیز، شریعت نے سود کو قطعی حرام قرار دیا ہے، مگر اور بھی بہت سارے طریقے ہیں جن کے ذریعے نفع کمایا جا سکتا ہے، اور وہ بھی حلال نفع ،اور یہ سارے طریقے فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ خود اعلیٰ حضرت نے بھی اپنی ایک تحریر میں ایک نہایت آسان طریقہ بیان فرما دیا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو قرض خواہوں کا اس میں دوہرا فائدہ ہے، ایک تو وہ سود جیسے حرام مال سے بچتے ہیں دوسرے انھیں بنیوں سے نجات مل جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ قرض دینے والے مالدار مسلمانوں کو بھی اپنی فاضل رقم (Saving) کو کاروبار میں لگانے (Investment) سے نفع ملے گا اور وہ بھی حلال۔"
(اعلیٰ حضرت مجدد علم معاشیات :ص۲۰)

نکتہ چہارم:
سب سے زیادہ اہم، سب کی جان سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی رسی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا، چار دانگ عالم میں ان کی ہیبت کا سکہ بٹھایا، نان شبینہ کے محتاجوں کو مالک بنایا اور اسی کے چھوڑنے، نے پچھلوں کو یوں چاہ ذلت میں گرایا فانا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔دین متین علم دین کے دامن سے وابستہ ہے۔ علم دین سیکھنا پھر اس پر عمل کرنا اپنی دونوں جہاں کی زندگی جانتے وہ انھیں بتا دیتا اندھو! جسے ترقی سمجھ رہے ہو سخت تنزل ہے۔ جسے عزت جانتے ہو، اشدذلت ہے۔"
نکتہ چہارم یقیناً سب سے اہم اور اصل ہے ایک مسلمان کے لیے ذرائع واسباب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری خالق اسباب کی اطاعت وفرماں برداری ہے۔اگر مسلمان صدق دل کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں تو آج بھی تمام تر ذلتیں ہم سے دور ہوسکتی ہیں۔ہماری مشکلات میں جہاں اسباب کی قلت اہم وجہ ہے اس سے زیادہ بڑی وجہ ہمارا دینی تعلیمات سے دور ہونا ہے۔ہمارے اسلاف دین پر قائم تھے تو قلت اسباب کے باوجود زمانے میں سرخ رو اور صاحب اقتدار رہے لیکن ہم لوگوں نے اسباب کو ہی حاصل زندگی سمجھ لیا اور دینی مزاج اور مذہبی غیرت چھوڑ بیٹھے نتیجہ یہ نکلا کہ عزت ونیک نامی نے ہم سے منہ موڑ لیا ۔اگر آج بھی ہم خود دینی سانچے میں ڈھال لیں تو ذلت ورسوائی کے کال بادل چھٹ سکتے ہیں۔
اہمیت و افادیت کے اعتبار سے اعلیٰ حضرت کا بیان کردہ آخری نکتہ حرف آخر سے کم نہیں ہے۔ان نکات کو بیان فرما کر اعلیٰ حضرت قومی جذبہ رکھنے والے افراد سے ایک اپیل کرتے ہیں:
"اہل الراے ان وجوہ پر غور فرمائیں، اگر میرا خیال صحیح ہے تو ہر شہر اور قصبہ میں جلسے کریں اور مسلمانوں کو ان چاروں باتوں پر قائم کردیں،پھر آپ کی حالت خوبی کی طرف نہ بدلے تو شکایت کیجیے ...یہ خیال نہ کیجیے کہ ایک ہمارے کیے کیا ہوتا ہے ہر ایک نے یوں ہی سمجھا تو کوئی کچھ نہ کرے گا...بلکہ ہر شخص یہی تصور کرے کہ مجھی کو کرنا ہے،یوں ان شاء اللہ تعالیٰ سب کرلیں گے ۔چند جگہ جاری تو کیجیے پھر خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے،خدا نے چاہا تو تو عام بھی ہوجائے گا...اس وقت آپ کو اس کی برکات نظر آئیں گی۔"(تدبیر فلاح ونجات:ص۹)
  اعلیٰ حضرت کے بیان کردہ نکات اور قومی جذبہ رکھنے اصحاب رائے سے آپ کی اپیل کے پیش نظر ہمیں امید نہیں بلکہ یقین کامل ہے کہ آج بھی اگر اعلیٰ حضرت کے ان نکات کو قومی احیا کے لیے ایک مہم اور تحریک بنا دیا جائے تو زیادہ وقت نہیں لگے کہ قومی امیدوں کا سورج طلوع ہوکر نا امیدیوں اور ذلت ورسوائی کے اندھیروں کا مٹا دے گا مگر شرط یہی ہے کہ اس کے لیے قوم کے اصحاب رائے کو ہی پہل کرنا ہوگی جب تک اصحاب رائے پیش قدمی نہیں کریں گے قوم کے عام لوگ ساتھ نہیں آئیں گے کیوں کہ عام انسان ہمیشہ سے اصحاب رائے کا پیروکار واقع ہوا ہے ایک بار چند اصحاب فکر ونظر اس مہم کو لیکر آگے آئے اور چند اصحاب زر نے ان کا ساتھ دیا تو یہ کارواں بڑا ہوتا جائے گا ،اتنا کہ جہاں سے گزرے گا صلاح وفلاح کے انمٹ نقوش چھوڑ جائے گا اور ہر طرف خیر وفلاح کی شادابیاں ہوں گی اور سسکتی ہوئی ملت کے چہرے پر طمانیت کی مسکراہٹ ہوگی۔اور قوم مسلم ایک انقلاب آفریں دور کی تاریخ لکھے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے