Advertisement

اعلیٰ حضرت کا مختصر تعارف از محمد نظام احسنی مصباحی

اعلیٰ حضرت کا مختصر تعارف

اعلی حضرت کا مختصر تعارف



از: محمد نظام احسنی مصباحی ( ایم اے اردو )
متعلم:  الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ



اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کی ذات محتاج تعارف نہیں وہ اپنے وقت کے مجدد، عالم با عمل، فقیہ بے مثال، ماہر علوم کثیرہ تھے۔ آپ کی تبحر علمی کا اندازہ آپ کی تصانیف و تالیفات سے لگایا جا سکتا ہے  بہت سے علوم و فنون جو کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں آج بھی نہیں پڑھائے جاتے ہیں لیکن آپ کو ان پر مہارت حاصل تھی اور ان پر آپ نے کتابیں بھی تصنیف فرمائیں مختصر سی عمر میں دین کا اتنا کام کردیا کہ جسے ایک پوری جماعت مل کر نہیں کر سکتی ہے۔

نام و نسب:

آپ کا پیدائشی نام «محمد» تاریخی نام «المختار» جد امجد نے آپ کا نام «احمد رضا» رکھا اور بچپن میں آپ کو «امن میاں» اور «احمد میاں» کہا جاتا تھا۔ آپ کا نسب اس طرح ہے احمد رضا خان بن مولانا نقی علی خان بن مولانا رضا علی خان بن  حافظ کاظم علی خان  بن محمد اعظم خان بن سعادت یار خان بن سعید اللہ خان رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ آپ کی ولادت باسعادت 10/ شوال المکرم 1272ھ مطابق 14/ جون 1856ء بروز ہفتہ وقت ظہر  ہوئی آپ نے اپنی سن ولادت اس آیت کریمہ سے استخراج فرمائی « اُولٰٓئِکَ  کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ  بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ  ترجمہ۔ یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی۔

تعلیم و تربیت:

ابتدائی  تعلیم اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان متوفی 1297ھ کی نگرانی میں حاصل کی اور انہیں کی بارگاہ میں آپ نے درسیات کی تکمیل فرمائی اس کے علاوہ عربی و فارسی کی کچھ کتابیں مرزا غلام قادر بیگ سے پڑھیں اور حضور ابو الحسین احمد نوری رحمۃ اللہ علیہ سے  علم طریقت، علم تکسیر، علم جفر وغیرہ حاصل کیے بچپن سے ہی آپ بہت ذہین تھےاسی لیے آپ نے تیرہ  سال دس ماہ کی عمر میں 1286ھ  میں تمام درسیات سے فراغت حاصل کرلی آپ کی ذہانت کا عالم یہ  تھا کہ آپ خود فرماتے تھے کہ میرے استاد جن سے میں ابتدائی  کتابیں پڑھتا تھا جب وہ سبق پڑھا دیا کرتے تو میں ایک دو مرتبہ  دیکھ کر کتاب بند کر دیتا تھا اور جب وہ سنتے  تو حرف بحرف،  لفظ بلفظ سنا دیتا ایک  دن وہ تعجب سے فرمانے لگےکہ  احمد میاں تم آدمی ہو  جن؟ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی یہ تھا آپ کی ذہانت کا عالم۔ آپ نے کبھی پڑھنے میں ضد نہیں کی مسلسل  پڑھنے جاتے اور جمعہ کے دن بھی پڑھنا چاہتے تھے لیکن والد ماجد نے منع فرما دیا۔
 

فتویٰ نویسی:

اعلی حضرت نے آٹھ سال کی عمر میں  علم فرائض کا  مسئلہ تحریر فرمایا آپ کے والد گرامی علامہ نقی علی خاں کی نظر جب  اس پر پڑی  تو فرمانے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ امن میاں نے لکھا ہے ان کو ابھی نہیں لکھنا چاہئے مگر ہمیں  اس جیسا مسئلہ کوئی بڑا لکھ کر دکھائے آئے تو جانو؟ بعد فراغت مسئلہ رضاعت لکھ کر والد ماجد کی بارگاہ میں پیش کیا جواب بالکل درست تھا والد گرامی نے آپ کی ذہانت و فطانت کو دیکھ کر فتوے نویسی کا کام آپ کے سپرد کر دیا آپ چودہ برس کی عمر سے ہی فتویٰ نویسی فرمانے  لگے  ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیش نظر فتاویٰ متقدمین و متاخرین سب ہیں متقدمین میں فتاویٰ ہندیہ تو بے شک اس مقدار میں ہے جسے اعلی حضرت کے فتاوی سے کچھ نسبت دی جا سکتی ہے ورنہ اس وقت کے علماء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے فتاوی کو اعلی حضرت کے فتاوی سے کچھ نسبت ہو۔

شادی اور اولاد:

آپ کی شادی محترم افضل حسین صاحب  کی بڑی صاحبزادی  ارشاد بیگم سے 1291ھ میں  ہوئی  آپ کی سات اولاد ہوئیں  دو صاحبزادے اور  پانچ صاحبزادیاں
 1۔ حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں
2۔ مفتئ اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان
3۔  مصطفائی بیگم
4۔ کنیز حسن بیگم
5۔ کنیز حسین بیگم
6۔  کنیز حسنین بیگم
7۔  مرتضائی بیگم

بیعت و خلافت:

آپ ایک روز کسی خیال میں روتے روتے سو گئے آپ کے دادا علامہ رضا علی خان خواب میں تشریف لائے اور فرمایا عنقریب وہ شخص آنے والا ہے جو تمہارے درد کی دوا کرے گا پس کچھ ہی عرصہ کے بعد تاج الفحول علامہ فضل رسول بدایونی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے بیعت کے متعلق ان سے مشورہ کیا پھر یہ طے ہوا  کہ مارہرہ مطہرہ  چلا جائے اس کے بعد علامہ نقی علی خان علامہ فضل رسول بدایونی اور حضور اعلی حضرت تینوں حضرات مارہرہ مطہرہ پہنچے وہاں کے صاحب سجادہ حضور آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی اور یہ پہلی ہی ملاقات تھی لیکن حضور آل رسول مارہروی فرمانے لگے کہ  آئے ہم تو کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ اکبر اس کے بعد تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی لوگ عرض کرنے لگے کہ حضور  آپ تو بہت مجاہدے اور عبادتیں کرواتے تھے لیکن ان کو ایسے ہی خلافت دے دی تب حضور آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ  یہ بالکل صاف ستھرے ہو کر آئے ہیں ان کو بس نسبت کی ضرورت تھی وہ یہاں مل گئی اس کے بعد آپ آب دیدہ ہوگئے اور  فرمانے لگے کہ  میرے دل میں اس بات کی فکر تھی کہ خدا اگر پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا ہے تو کیا جواب دوں گا  آج میری وہ فکر  دور ہو گئی اب میں احمد رضا کو پیش کر دوں گا۔

حج و زیارت:

آپ نے دو حج ادا فرمائے  پہلی بار  والد ماجد کے ساتھ 1295ھ میں تشریف لے گئے اور وہاں اکابر علمائے کرام سے ملاقات ہوئی اور  متعدد علوم کی سندیں حاصل کیں اس کے بعد اپنی والدہ محترمہ کے  ساتھ 1323ھ میں دوسرا حج ادا فرمایا اس بار وہاں آپ کی کرامات کے جو  جلوے نظر آئے وہ اہل علم پر مخفی نہیں۔

تصنیف و تالیف:

اگر آپ کی علمی تحقیقات اور تصنیفات و تالیفات کو آپ کی 66سالہ زندگی  کے حساب سے جوڑیں  تو ہر پانچ گھنٹے میں  ایک کتاب لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں آپ کی تصانیف کی  تعداد ایک ہزار سے زائد ہے متعدد علوم و فنون  پر متعدد کتابیں لکھیں اور ایسی ایسی نادر و نایاب تحقیقات پیش کیں کہ قاری ان کو پڑھ کر عش عش  کرنے لگتا ہے آپ کی سب سے ضخیم کتاب فتاوی رضویہ شریف ہے جو کہ متعدد بار الگ الگ انداز میں طبع ہوکر شائع ہوچکی ہے اور تقریبا ہر لائبریری میں موجود ہے ۔

چودھویں صدی کے مجدد:

آپ چودھویں صدی کے مجدد تھے  سب سے پہلے علامہ عبد المقتدر بدایونی نے آپ کے مجدد ہونے کا اعلان کیا آپ نے تیرہویں صدی کے 28 سال دو ماہ بیس دن پائے اور چودھویں صدی کے 39 سال ایک ماہ پچیس دن پائے ملک و بیرون ممالک کے اکابر علمائے کرام نے آپ کو مجدد تسلیم کیا اور آپ کے فیصلوں کو واجب الاتباع قرار دیا علامہ ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہے  کہ امام اہلسنت کے زمانے کے علما و  مشہور شخصیات نے آپ کے علم سے  لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر آپ کو مجدد مانا  تفصیل جاننے کے لیے حسام الحرمین اور  الدولۃ المکیۃ پر علمائے حرمین طیبین زادهما الله شرفا و تعظيما کی تقاریظ  کو ملاحظہ کریں۔

شعر و شاعری:

تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ آپ ایک بہت بڑے شاعر بھی تھے آپ کی شاعری میں قرآن و حدیث کی ترجمانی اور احکام شرع کی پاسداری نظر آتی ہے  آپ خود فرماتے ہیں 
 ہوں اپنے کلام سے نہایت محظوظ 
بیجا سے ہے المنۃ للہ محفوظ
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
 یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ

آپ کا نعتیہ مجموعہ « حدائق بخشش»   جہاں میں پڑھا جاتا ہے  جس میں تقریباً 2761 اشعار ہیں یہ بھی آپ کی شاعری کی مقبولیت کی دلیل ہے ہے۔

وصال پر ملال:

جمعہ کا دن تھا 28 صفر المظفر 1340 ہجری بمطابق 1921 عیسوی تھی یہ  آفتاب غروب ہوا اور داعئ اجل کو لبیک کہا۔ انا للله و انا اليه راجعون۔
  آپ کا مزار مبارک شہر بریلی شریف میں ہے دیوانوں، چاہنے والوں، اور حاجت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے اللہ رب العزت ہمیں بھی ان کے فیض سے مستفیض فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے