Advertisement

زبان کی اہمیت از محمد شمیم رضا مصباحی


 زبان کی اہمیت



از : محمد شمیم رضا مصباحی شراوستی
استاذ: دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ مئو
24اگست 2022 



   زبان اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے یہ اگرچہ بہت چھوٹی اور معمولی سی نظر آتی ہے مگر حقیقت میں بہت اہم اور غیر معمولی ہوتی ہے، ایمان و کفر دونوں حقیقتوں کا اظہار زبان ہی کے ذریعہ ہوتا ہے ۔نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ اور طلاق جیسی عظیم مصیبت اسی کے ذریعے وجود میں آتی ہے ۔ہر چیز خواہ  موجود ہو یا معدوم،خالق ہو یا مخلوق، ظنی ہو یا وہمی، حقیقی ہو یا خیالی، زبان ہی اس کے متعلق  نفی یا اثبات کا حکم لگاتی ہے۔
          یہی وہ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان  اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی بہتر انداز میں کرتا  ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان صاحب عزت ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ذلیل وخوار بھی، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو  زبان رکھتے ہوئے بھی اپنےما فی الضمیر کو ادا نہیں کرپاتا۔ اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن میں آیا ہے: 
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِۙ(۸)وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِۙ(۹)
 کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں اور زبان اور دو ہونٹ۔
          یہ زبان ہی ہے جس سے محبت کے پھول بھی جھڑتے ہیں اور دشمنی کے شرارے بھی ، دلوں کو موہ بھی لیتی ہے  اور اسے چیر بھی دیتی ہے،جب اس کا غلط استعمال کیا جائے تو یہ شعلہ بار ہو جاتی ہے، دل پھٹ جاتے ہیں، تعلقات کشیدہ اور اور جذبات محبت سرد پڑ جاتے ہیں، شرافت ختم ہو جاتی ہے، جذبہ انتقام بھڑک اٹھتا ہے،  یہ اپنی بری تاثیر کی وجہ سے قعر مذلت کا سبب بھی بنتی ہے اور اس کا مثبت استعمال نا کرنا انسان کو شیطان اخرس بنا دیتاہے ۔ فساد وبگاڑ میں اس کا بہت ہی اہم کردار ہوا کرتا ہے اس کا وار  تیر و تلوار سے بھی بڑھ کر ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا: 
احفظ لسانک ان اللسان 
سریع الی المرء فی قتلہ
 اور کبھی کبھار جنگ و جدال جیسا عظیم سانحہ بھی اسی کے ذریعہ رونما ہو جاتا ہے اس کی آفتیں انسان کے لیے انتہائی خطرناک ہیں کیون کہ دوسرے گناہوں کے بالمقابل اس سے بچنا بہت ہی مشکل امر ہے  تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
 يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَقُولُواْ قَوْلًا سَدِيدًا ۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔
             حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : "اے اللہ کے رسول جن چیزوں کو آپ میرے لئے خوفناک خیال کرتے  ہیں ان میں سب سے زیادہ خوفناک کون سی چیز ہے ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنی زبان اقدس پکڑ کر کر فرمایا :  " یہ۔۔۔۔۔۔" (ترمذی,حدیث :2410, ابن ماجہ)
           حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو طویل عرصہ تک خاموش رہے کسی نے پوچھا: آپ بولتے کیوں نہیں نہیں؟ آپ نے فرمایا :"اسی بولنے نے تو مجھے مچھلی کے پیٹ تک پہونچایا تھا"- (المستطرف ص:130)
         حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ اپنی زبان پکڑ کر فرما رہے  ہیں: "یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے مصیبتوں میں گرفتار کر رکھا ہے"-(تاریخ الخلفاء)
          بادشاہ بہرام کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اس نے ایک پرندے کے بولنے کی آواز سنی فورا اس کی طرف ایک تیر پھینکا جس کی وجہ سے پرندہ مر گیا تو اس نے کہا: "زبان کی حفاظت   انسان اور پرندے دونوں کے لئے مفید  ہے کہ اگر یہ نہ بولتا تو اس کی جان بچ جاتی"- (المستطرف:ص١٣٠)
        گویا کہ  زبان بڑی قیمتی چیز ہے  اور ہر قیمتی چیز کی حفاظت کرنی پڑتی  ہے ورنہ وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے زبان کی اہمیت کا اندازہ  اس آیت کریمہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ۔ (ق :50 ۔ آیت : 18)
        جس طرح زبان شر کے میدان میں دوڑ سکتی ہے  اسی طرح خیر کے میدان میں بھی  اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اگر انسان کی زبان اچھی، لب و لہجہ درست ، اور بات کرنے کا سلیقہ  ہو تو اس سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی  ہے ،خیر کا دروازہ کھلتا  ہے اور صالح معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے- بہتر انداز، شائستہ لہجہ،اور  شیریں کلام کے ذریعہ ایک انسان دوسرے انسان پر بغیر استعانتٍ زور و زر کے  غالب آ جاتا  ہے اور اپنے خیالات کو مخاطب کے ذہن میں اتار سکتا ہے-
            جب اس کا استعمال سلیقے اور قاعدے سے ہو تو شکستہ دل بھی جڑ جاتے ہیں، تعلقات استوار ہوتے ہیں ، بیگانے اپنے بن جاتے ہیں، انسانیت فروغ پاتی ہے اور معاشرہ اخوت و محبت کی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے۔
              بھلا بتاؤ!  خطۂ ارض پر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جیسا دانا اور ناصح کون ہو سکتا ہے؟ پھر بھی حکمتوں والے خدا نے جو لوگوں کے دلوں پر حاوی اور متصرف بھی ہے اپنے محبوب بندے سے فرماتا ہے :
 اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ- (نحل:16۔آیت:125)
 اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے- (کنز الایمان)
            یہ بھی یاد رہے کہ یہ نصیحت  اللہ تعالی نے اپنے اس بندے کو فرمائی  ہے جس کو شیطان کے شر سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ رکھا تھا۔
             بھلا بتاؤ! آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ کے نزدیک آپ کی زبان ہر قسم کی ذمہ داری سے مستثنیٰ ہے؟ کیا آپ اس بات کے منکر ہیں جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: 
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ- (سورہ ق : 50 آیت : 18)
کوئ بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو- (کنز الایمان)
یعنی انسان جو کچھ بولتا ہے  ایک فرشتہ اس کو لکھنے کے لیے تیار رہتا ہے-  کیا آپ کو اطمینان ہے کی آپ کی زبان سے جو کچھ نکل رہا ہے اس پر گرفت نہیں ہوگی؟ یقیناً آپ کا جواب ہوگا :"ہرگز نہیں"  تو پھر کیوں ہم اسے لایعنی باتوں میں مصروف کیے ہوئے ہیں ؟ میں دعویٰ کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ اگر آج بھی  ہم میں کا ہر شخص وَقُولُواْ قَوْلًا سَدِيدًا ( اور سیدھی بات کہو-احزاب :33۔آیت:70 ) پر عمل کرتے ہوئے یہ عزم کر لے کہ آئندہ سے اپنی زبان کا مثبت استعمال کریں گے اور ہمیشہ اسے اپنے قابو میں رکھیں گے تو ذاتی اور خاندانی کتنی ہی خرابیوں، رنجشوں اور آفتوں کا خاتمہ ہوجائے گا  
لسان المرء لیت فی کمین 
اذا خلی علیہ  لہ اغارہ
یاد رکھیں اس کا استعمال اگر ڈھنگ سے ہو تو وہ عسل مصفی کا کام کرتی ورنہ زہر ہلاہل بھی بن جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زبان کی مہلکات سے محفوظ و مامون فرماے، آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین الکریم۔


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے