Advertisement

یاد گار تراویح اور ختم قرآن از مولانا محمد ہارون مصباحی


یاد گار تراویح اور ختم قرآن



از:  ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری
استاذ الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ
١٦ رمضان المبارک / 10 مئی، اتوار 


میرے گھر میں تراویح کی نماز ہو رہی ہے، میرے والد گرامی امامت فرما رہے ہیں اور ہم تینوں بھائی ان کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں۔ 
یہ معاملہ میرے گھر کا ہے، لیکن یہ صورت حال صرف میرے گھر تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس سال گھر گھر کی کہانی یہی ہے۔ نماز روزے کا اہتمام کرنے والے ہر مسلمان کے گھر کی داستان یہی ہے، گھر گھر تراویح کی جماعت ہو رہی ہے، امام کے پیچھے دو سے چار آدمی نماز پڑھ رہے ہیں۔ کہیں کہیں حافظ صاحب تراویح میں قرآن سنا رہے ہیں جب کہ عام طور پر سورہ تراویح ہو رہی ہے۔
اسلامی تاریخ کے اعتبار سے ١٤٤١ ہجری اور انگریزی تاریخ کے لحاظ سے 2020 کا سن دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ اس سال دنیا کے حالات اس قدر تیزی کے ساتھ بدلے کہ سارے جہان کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا ہے۔ 
خبر آتی ہے کہ چین میں ایک وائرس رونما ہوا ہے، نام کورونا دیا جاتا ہے، اور پھر دھیرے دھیرے دنیا بھر کا میڈیا اپنے اپنے ملک میں اس وائرس کے پھیلنے کی خبر دیتا ہے۔ حالات اتنے خراب ہو جاتے ہیں کہ ہر ملک کے صاحبانِ اقتدار اس وائرس سے بچاؤ کے لیے اپنے اپنے ملک میں لاک ڈاؤن کا قانون نافذ کر دیتے ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان میں بھی یہ وائرس آیا اور اس شد و مد کے ساتھ آیا کہ مذہبی شناخت بھی پا گیا، اچانک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا قانون لگایا گیا، اور عبادت گاہوں میں بھیڑ کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 
اس لاک ڈاؤن اور حکومتی پابندی کی وجہ سے مسجدیں سونی ہو گئیں، لوگ گھروں میں نماز پڑھنے پر مجبور ہو گئے، اور جمعہ کی نماز سے بھی محروم ہو گئے۔ ٍ
پھر رمضان آیا، وہ رمضان جس میں مسجدیں نمازیوں سے بھر جایا کرتی تھیں، نماز کے بعد اور پہلے قرآن پڑھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی، افطار کے وقت روزہ داروں اور بچوں کا دل کش منظر ہوتا تھا، تراویح کی نماز میں مسلمانوں کا ہجوم ہوتا تھا، اور نماز میں پورا قرآن سننے کی سعادت حاصل ہوا کرتی تھی۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ اس بار رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمان مسجد کی حاضری سے محروم ہو گیا، اور اس مقدس مہینے میں نظر آنے والے ان خوش نما مناظر کے دیدار کی سعادت نہ پا سکا۔ نماز روزے سے لگاؤ رکھنے والے مسلمان گھروں میں تراویح پڑھنے پر مجبور ہیں اور سابقہ بہار کی واپسی کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں۔
ایسے پر آشوب حالات میں راقم الحروف بھی گھر ہی میں نماز پڑھتا ہے اور تراویح بھی ادا کرتا ہے، لیکن اللہ کا بے پناہ شکر و احسان ہے کہ میرے والد گرامی حافظ ہیں اس لیے تراویح میں پورا قرآن سننے کی سعادت حاصل ہو گئی، فللّٰله الحمد. 
والد گرامی حضرت حافظ و قاری مولانا محمد عبد الحفیظ نوری حبیبی نائب قاضی شہر فتح پور امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور راقم الحروف اپنے دونوں بھائیوں برادر اکبر محمد احمد فاروقی اور برادر اصغر محمد مصطفیٰ قادری کے ساتھ ان کی اقتدا میں نماز پڑھتا ہے۔
والد صاحب نماز تراویح میں روز  دو پارہ قرآن سنایا کرتے تھے، اس طرح پندرہ دن میں پورا قرآن نماز تراویح میں سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ختم قرآن کی محفل میں گھر کے تمام افراد شریک تھے، فاتحہ خوانی ہوئی اور والد صاحب نے دعا کی۔ محفل کے اختتام پر ہم بھائیوں نے والد صاحب کی بارگاہ میں بطور نذر کچھ رقم پیش کی اور پھر احباب کے درمیان شیرینی تقسیم کروائی۔
اب باقی ایام رمضان میں سورہ تراویح ہوگی جس کی ذمہ داری والد گرامی نے میرے سر رکھی ہے جو إن شاء الله ادا کی جائے گی۔
واقعی یہ ایسی انوکھی تراویح ہے کہ ہم نے پہلی بار ایسی تراویح پڑھی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ تراویح، یہ ختم قرآن اور یہ رمضان سب ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس رمضان کی اسی خصوصیت کی وجہ سے خیال آیا کہ اس بارے میں بھی کچھ لکھنا چاہیے تاکہ مستقبل میں یہ تحریر ہمیں اس رمضان، اس تراویح اور اس ختم قرآن کی یاد دلاتی رہے۔


مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے