Advertisement

وہابی کے لیے ایصال ثواب کرنا کیسا ہے ؟ از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


وہابی کے لیے ایصال ثواب کرنا کیسا ہے ؟


مسئلہ : 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ذوی الاحترام اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی سنی صحیح العقیدہ عام مسلمان اپنے وہابی بیٹے یا باپ کے مرنے کے بعد ان کے ایصالِ ثواب کی نیت سے کسی مسجد میں چندہ دے تو مسجد کے متولیوں کو اس کا چندہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو کیوں اور اگر ناجائز ہے تو اس پیسے کا کیا کیا جاۓ ؟ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ وہابی کے ایصالِ ثواب کا کیا مطلب ؟ جب کہ وہابیوں کے متعلق احکام سے سب واقف ہیں تو متولیوں کو ایسا پیسہ لینا کیسے جائز ہوگا ؟

الجواب :

 اگر باپ یا بیٹا واقعی عقیدے کے لحاظ سے وہابی ہے تو وہ جماہیر فقہاے کرام و علماے اسلام کے نزدیک کافر ہے ، ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید شرک اور ان کے مقلدین مشرک ہیں ، حالاں کہ دو صدی کے بعد سے ساری دنیا کے مسلمان آج انھیں چاروں مذاہب میں منحصر ہیں ، جن میں بے شمار اولیاء اللہ و محبوبان خدا بھی شامل ہیں اور اولیاء اللہ یا محبوبان خدا بلکہ عام مومنین و مومنات کو بھی کافرمان کر کافر کہنا کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا بحکم حدیث کافر ہے ۔ ان کے عقائد کی تفصیل اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے رسالہ ” الكوكبة الشهابية “ اور بہار شریعت جلد اول میں ہے ۔ اور فتاوی رضویہ جلد سوم میں ہے :
 ” احادیث صریحہ صحیحہ حضور سید عالم ﷺ واقوال جماہیر فقہاے کرام رحمۃ اللہ تعالی علیہم سے ان کا [ وہابی / غیر مقلدین ] صریح کافر ہونا اور نماز کا ان کے پیچھے محض باطل جاننا نکلتا ہے وہ کیا یعنی ان کا تقلید کو شرک اور حنفیہ ، مالکیہ شافعیہ حنبلیہ عمهم الله جميعاً بالطائفة العليه ، سب مقلدان ائمہ کومشرکین بتانا ، یہ صراحۃ مسلمانوں کو کافر کہنا ہے اور پھر ایک کو نہ دو کو لاکھوں کروڑوں اور پھر آج ہی کل کے نہیں گیارہ سو برس کے عامہ مومنین کو جن میں بڑے بڑے محبوبان  حضرت عزت و اراکین امت واساطین ملت و حملهٔ شریعت و کملہ طریقت تھے رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ان کے بانی مذہب کے مرجع و مقتدا اور پدر نسب و علم واقتدا شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رسالہ انصاف میں لکھتے ہیں :
 بعد المأتين ظهر بينهم التمذهب للمجتهدين باعيانهم وقل من كان لا يعتمد على مذهب مجتهد بعينه
دو صدی کے بعد مسلمانوں میں تقلید شخصی نے ظہور کیا کم کوئی رہا جو ایک امام معین کے مذہب پر اعتماد نہ کر تا ہو ۔ ( ص : ۳۰۵ )
 جو لوگ دو صدی کے بعد سے آج تک بے شمار اولیا ، عرفا، فقتها ، علما اور دوسرے مومنین و مومنات کو کافر مانتے اور کافر کہتے ہیں ، وہ ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتے ، نہ ان کی نماز نماز ہے ، نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ، نہ ان کی نماز جنازہ جائز نہ ان کے لیے ایصال ثواب جائز ، بلکہ ایسوں کے لیے ایصالِ ثواب کفر ہے ۔ فتاوی رضویہ میں ہے : کافر خواہ مشرک ہو ، یا غیر مشرک اسے ہرگز کسی طرح  کسی فعل خیر کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔
 قال الله تعالى : وَمَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ {۲۰۰}
انھیں ایصال ثواب کرنا معاذ اللہ خود راہ کفر کی طرف جانا ہے ۔ ( فتاوی رضویہ ، ص : ۱۹۶ ، ج : ۱ )
 نیز اسی میں ہے : " اور مقابرِ کافر کی زیارت حرام ہے اور اسے ایصالِ ثواب کا قصد کفر ۔
 قال الله تعالى : " وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (84) وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (85) “ ( فتاوی رضویہ ، ص : ۲۰۸ ، ج : ۴ )
 ان عبارات سے ظاہر ہے کہ وہابی کے لیے ایصالِ ثواب کا قصد بھی کفر ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ 
( ۲ ) ۔ جسے معلوم ہو کہ اس کا باپ یا بیٹا عقیدے کے لحاظ سے وہابی ہے ، ساتھ ہی اس کا حکم بھی اسے معلوم ہو اور وہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیے مسجد میں چندہ دے تو یہ منجر الی الکفر ہو گا ، اس پر لازم ہے کہ اس قصد سے توبہ کر لے ، کلمہ پڑھے اور بیوی والا ہو تو تجدید نکاح بھی کر لے ، رہ گیا متولی کا یہ چندہ  مسجد کے لیے قبول کرنا تو اس میں شرعا مضائقہ نہیں ، مال پاک ہے تو معطی کے قصد سے وہ نا پاک نہ ہوگا ہو گا ۔ ہاں اس کا قصد خود اس کے ایمان پر اثر انداز ہوگا ، جیسے بتوں کے نام پر مشرکین کے چھوڑے ہوۓ جانور ، ان کی نیت سے حرام نہیں ہوتے ، مگر ان کی نیت خود موجب کفر ہوتی ہے ۔
اور اگر اس آدمی کا باپ یا بیٹا عقیدے کے لحاظ سے وہابی نہ ہو یا اسے قرار واقعی وہابی کا حکم نہ معلوم ہو تو اس پر حکم کفر نہ ہو گا ، تاہم اسے توبہ کر لینا چاہیے ، ہاں متولی ایصال ثواب کی نیت سے نہ لے بلکہ یہ سمجھ کر لے کہ مال حلال و طیب مسجد کے لیے ملتا ہے ، جسے لینا جائز ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ 


حوالہ : 

ماہنامہ اشرفیہ ، صفحہ : ۷ و ۸ ، جنوری ، ۲۰۲۰ ء ۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے