Advertisement

علمائے کرام انداز خطابت پر توجہ دیں از ڈاکٹر غلام زرقانی


 پس پرد ہ    

علمائے کرام انداز خطابت پر توجہ دیں

دین کے لیے ’مرنے‘ سے زیادہ دین کے سائے میں ’زندہ ‘ رہنےکی تلقین ضروری

      

از : ڈاکٹر غلام زرقانی ، امریکہ 
۲۰؍اگست ۲۰۲۲ء؁ 
 ghulamzarquani@yahoo.com


    
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بغیر کسی قابل ذکر مزاحمت کے طالبان نے پورے ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح پورے دو عشروں تک مغربی طاقتوں نے طالبان کو ہمیشہ کے لیے اقتدار سے دور رکھنے کی جو حکمت عملی بنائی تھی ، وہ غیر متوقع طورپر صرف چند ایام میں ڈھیر ہوگئی ۔ اسی کے ساتھ، مقامی افراد میں سے جن لوگوں نے غیروں کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں ، وہ سب نئی حکومت کی ممکنہ انتقامی کاروائی سے اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ چار و ناچار انھیں ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں افغانی امریکہ بھی لائے گئے اور انھیں ملک کے مختلف صوبوں میں بسانے کے لیے وہاں کی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا۔
            ہجرت کرنے والے چند خاندان امریکہ کے صوبہ ’نیومیکسیکو‘ کے شہر (Albuquerque) البوقیرق میں جا بسے ۔ ان میں بعض لوگ ملازمت سے منسلک ہوگئے اور کچھ ایسی بھی ہنر مند تھے ، جنھوں نے تجارت شروع کردی ۔ رفتہ رفتہ قریب ہی مسجد اور مدرسہ کا قیام بھی عمل میں آگیا ۔ اور اس طرح نئے شہر میں جلد ہی زندگی اپنے معمول کے مطابق چلنے لگی ۔
          تاہم گذشتہ سال نومبر میں ایک افغانی کے بے رحمانہ قتل نے سب کو سکتے میں ڈال دیا۔ ہوا یہ کہ محمد احمدی نے اپنی جد وجہد سے ایک بیکری کھول لی تھی ، جہاں وہ پاکستانی ، افغانی اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والوں کے لیے انواع و اقسام کی روٹیاں بناتے تھے ۔ ایک دن اچانک ان کے اسٹور کے عقبی حصے میں کسی نے گولی سے انھیں بھون دیا۔ موقع پر ہی ان کی موت واقع ہوگئی ۔ افغانی قوم کے اس مشکل وقت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مقامی باشندے بھی سوگوار نظر آئے ۔ چند ایام کے بعد حالات ایک بار پھر معمول پر آگئے ۔ ابھی محمد احمدی کی شہادت کو زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ اسی علاقے سے چند کیلومیٹر کے فاصلے پر پے در پے نعیم حسین ، محمد افضل حسین اور آفتاب حسین بھی قتل کردیے گئے ۔ چونکہ متذکرہ قتل و خون کے پیچھے طریقہ واردات میں یکسانیت تھی اور مقتولین بھی ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھتے تھے ، اس لیے مسلم معاشرے میں دہشت پھیل گئی اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ کوئی گروہ دانستہ طورپر اسلام دشمنی میں بے گناہوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ مسلمان تیزی سے صوبہ نیومیکسیکو سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے لگے ۔ جن مسلمانوں نے تجارت شروع کی تھی ، انھوں نے دکانیں بند کردیں اور بہت سارے مسلمان توایسے بھی تھے ، جنھوں نے اپنے گھروں سے باہر نکلنا بھی کم سے کم تر کردیا ۔ لینہ عقاد ، جو یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور مقامی اسلامی تنظیم کی صدر ہیں ،کہتی ہیں کہ میں حجاب پہننے کی عادی تھی، لیکن بہت دنوں تک مجھے حجاب پہن کرباہر نکلنے میں تشویش ہوئی ،اس لیے میں نے گھر سے باہر نکلنا ہی عارضی طورپر کم کردیا۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ البوقیرق میں رہائش پذیر مسلم معاشرے کے شب و روز نہایت ہی خوف ودہشت میں گزرنے لگے ۔ دوسری طرف حالات کے تقاضے پر مقامی انتظامیہ نے اپنی تفتیش تیزتر کردی ، نیز صدر جوبائیڈن نے بھی مسلمانوں کے پے درپے قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
          بہر کیف، سراغ رسانوں نے واردات کے علاقے سے سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعہ حادثے میں استعمال کی جانے والی ممکنہ کار تک رسائی حاصل کرلی اور جلد ہی اکاون سالہ افغانی محمد سعید گرفتار کرلیا گیا۔ فی الحال حتمی طورپر قتل کے پس پردہ اسباب کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، تاہم ابتدائی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ محمد سعید کی بیٹی نے کسی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے نوجوان سے شادی کرلی تھی، اس لیے اسے شیعہ برادری سے سخت ناراضگی تھی ۔ لہذا اپنے مذہبی غصہ کے نشے میں اس نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنالیا ، جس کے نتیجے میں متذکرہ اشخاص لقمہ اجل بن گئے ۔
            آپ محسوس کررہے ہیں کہ اظہار غم وغصہ کے جس قابل مذمت طریقے سے پاکستان اور افغانستان کربناک دور سے گزر رہاہے ، وہی طریقہ اب امریکہ بھی منتقل ہو رہا ہے ۔ اللہ نہ کرے ، یہ روش یہاں پروان چڑھے ، ورنہ نہ صرف امن و سکون کے ساتھ رہنا دشوار ہو جائے گا، بلکہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے والے غیر مسلم بھی بہت تیزی کے ساتھ ہم سے دور ہوجائیں گے۔ 
           یہ بات کہنے کی نہیں کہ سنی اورشیعہ بڑی تعداد میں ہندوستان میں بھی رہائش پذیر ہیں ، لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ گذشتہ تیس سالوں میں ہم نے نہ توسنی اور شیعہ کے مابین قتل وخون کی وارداتیں دیکھی ہیں اور نہ ہی کسی سنی مسجد یا شیعہ امام بارگاہ میں بم پھٹتے سنا ہے اور نہ ہی خودکار بندوق سے مساجد کی دیواریں لہولہان ہوتے دیکھی ہیں ، جب کہ پاکستان اور افغانستان میں گاہے بگاہے یہ وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے جب پس پردہ عوام واسباب کے حوالے سے غور کیا ، توایک عجیب حقیقت سامنے آئی ۔ بہت ممکن ہے کہ آپ میری رائے سے مکمل اتفاق نہ کریں ، لیکن اسے کلی طورپر مسترد بھی نہیں کرسکتے ۔ 
           خیال رہے کہ انسان فطری طورپر ایک دوسرے سے قریب ہونا پسند کرتا ہے ، ایک دوسرے کے ساتھ امن وسکون اور رواداری کے سائے میں رہنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن جب خون گرم کردیا جائے ، تویہ بسا اوقات جنگل کے جانوروں سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر مسلم معاشرے میں جذباتی بیانات ، شعلہ انگیز خطابات اور قتل وخون پر منتج ہونے والے کلمات منہ سے نہ نکالیں جائیں ، تویقین کیجیے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی قتل وخون کی وارداتیں بہت حد تک کم ہوجائیں گی۔ اور اس کی سب سے بہتر مثال کے لیے ہندوستان ، پاکستان اور افغانستان دیکھ لیں کہ ان ممالک کے مسلم تہذیبی، تمدنی اور مراسم وعادات کے پس منظر میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں ۔ہندوستان میں سنی اور شیعہ ، دونوں جانب کے علما اپنی مجالس میں ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور اپنی رائے کے استحکام کے لیے دلائل وبراہین بھی پیش کرتے ہیں ، لیکن ایسا انداز اختیار نہیں کرتے ، جس سے ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ اٹھانے کے لیے لوگ تیار ہوجائیں ، جب کہ پاکستان اور افغانستان میں علمائے کرام اپنے خطابات میں کسی حد تک احتیاط سے کام نہیں لیتے ۔ پیش نگاہ رہے کہ میں باہمی قتل وخون کے پیچھے دوسرے ممکنہ اسباب وعلل کے وجود سے انکار نہیں کررہا ہوں ، بلکہ مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ مذہبی اسٹیج سے  ہونے والی شعلہ بیانی اور جذباتی خطاب کے منفی نتائج ہمیں بہرکیف تسلیم کرنا چاہیے ۔
         صاحبو!  وجوہات جو بھی ہوں ، لیکن اس قدر بات سو فیصد درست ہے کہ انفرادی طورپر ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت قطعی نہیں دی جاسکتی ۔ پیش نگاہ رہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسانی اور سہولت کے ساتھ امریکہ میں ہتھیار خریدے جاسکتے ہیں ۔ اگر ہم نے نیومیکسیکو کے حالیہ افسوسناک واقعات سے درس نہ لیا اورانتقام در انتقام کی روایت چل پڑی ، تو امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے یہ کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہوگا۔ اس لیے تقاضائے وقت یہ ہے کہ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ عمائدین اور اصحاب فکر ونظر متذکرہ واقعات کے اسباب وعلل تلاش کرنے کی کوشش کریں اور جس قدر جلد ہو، یہ راستہ بند کرنے میں اپنا متحرک وفعال کردار ادا کریں ۔


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے