Advertisement

علماء کرام کی توہین اور شرعی احکام ایک لمحہ فکریہ از محمد توصیف رضا قادری علیمی

 

علماے کرام کی توہین اور شرعی احکام : ایک لمحہ فکریہ



از : محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار، بہار۔)
متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی ، بستی ، یوپی ، انڈیا ۔
شائع کردہ: ۰۴/جون/۲۰۲۲ء


آج لوگوں نے کس جرأت کے ساتھ علما کی توہین اور ان پر بےجا تنقید کرنے کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے جب کہ انہیں خود اپنے اعمال و کردار کی فکر نہیں ، آج کا المیہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی عالم سے محبت کرتے ہیں۔ اس محبت میں اتنا غلو کر جاتے ہیں کہ دوسرے عالم دین کی برائی، بغض و عداوت کرنے لگ جاتے ہیں، ان کی شان میں توہین و تنقیص اور بکواس شروع کر دیتے ہیں، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ علما نے خود ہی اپنے وقار کو مجروح کیا ہے، طلبہ یا عوام کے درمیان دوسرے عالم دین کی برائی کرنا اپنا شیوہ بنا لیا ہے، سنی سنائی باتوں پر غلط فہمی پھیلانا مشغلہ بنا لیا ہے۔ ایک دوسرے پر کچرا اچھال کر اپنی ہی عزت کو پامال کیا ہے، ذاتی اختلافات کو ڈھال بنا کر معاشرے کی فضا کو بگاڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج عوام سے خواص تک یہ بیماری ہے کہ علماے کرام سے بے زار ہو رہے ہیں، اُن سے بد ظن ہو رہے ہیں اور اُن کی توہین کر رہے ہیں (العیاذ باللہ)
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ پاک طینت افراد جنہوں نے جہد مسلسل اور عمل پیہم کے ذریعہ دین کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے، دین اسلام پر وارد ہونے والے ہر اعتراض کا قرآن و حدیث کی روشنی میں دفاع کرتا ہے بلکہ ہر طرح کی قربانی پیش کر کے دین وسنت کی حفاظت و اشاعت میں مشغول رہتا ہے اور احادیث میں جنہیں زمین کے چراغ اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث قرار دیا ہے، اُن کی شان میں گستاخی کرنا ؟؟ یقیناً بڑا جرم ہے ۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص علماء کی توہین کرتا ہے یا انہیں تکلیف دیتا ہےاس پر کفر یا سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘ علم اور علما کی توہین کفر ہے (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ ۱۶۰)
علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ امام ابو تراب بخشی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو مشائخ صوفیہ میں ہیں فرماتے ہیں کہ ”جو شخص اللہ تعالی سے نامانوس ہوجاتا ہے تو وہ اہل اللہ پر اعتراض کرنے کا خوگر ( عادی ) ہو جاتا ہے (طبقات کبری) نیز مجدّد اعظم اعلٰی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خاں قادری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: علماے دین کی توہین کرنا سخت حرام، سخت گناہ، اشد کبیرہ، عالمِ دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نائِب ہے۔ اس کی تحقیر(توہین) مَعَاذَ اللہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہے اور محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جناب میں گستاخی مُوجِبِ لعنتِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاویٰ رضویہ: ج23،ص 649) اور ایک جگہ عالم کی توہین کی تین صورتیں اور ان کے بارے میں شرعی حکم بیان فرماتے ہیں : (۱) اگر عالمِ (دین) کو اس لئے بُرا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے (۲) اور بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنْیَوی خُصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا (ہے اور) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے (۳) اور اگر بے سبب (بلا وجہ) رنج (بغض) رکھتا ہے تو مَرِیْضُ الْقَلْب وَخَبِیْثُ الْبَاطِن (دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس (خواہ مخواہ بغض رکھنے والے) کے کفر کا اندیشہ ہے (فتاویٰ رضویہ: ج 21، ص 129۔ملخصاً) 
یہاں عوام کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے کہ کوئی کسی عالمِ دین پر اعتراضات یا بکواس کر رہا ہو تو وہ جان لیں کہ اگر علمِ دین کی توھین کی نیت سے کچھ کہا تو کافر ہو جائے گا معاذ اللہ اور اس سے تجدید ایمان، تجدید نکاح، تجدید بیعت لازم، اور اگر علمِ دین کی توہین مقصود نہیں یعنی مقصد دنیاوی خصومت ہو اور اُن سے اختلافات کی بنا پر برا کہتا ہو تحقیر کرتا ہو تو وہ سخت فاجر ہے اور اگر بلا وجہ بُغض رکھتا ہے تو ایمان کی خیر منائے کہ فقھاے کرام نے لکھا کہ صحیح العقیدہ عالمِ دین سے بغض رکھنے والے کا کفر پر خاتمے کا اندیشہ ہے ۔

غلط فہمی کا ازالہ :

(1) صِرف سنی صحیح العقیدہ عالمِ دین کی توہین کُفر ہے چاہے توہین کرنے والا عالم ہو یا جاہل : سیدنا اعلٰی حضرت قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: عالمِ دین کو بُرا کہنا اگر اُس کے عالمِ دین ہونے کے سبب ہے تو کُفر ہے اور عورت نکاح سے باہَر، خواہ بُرا کہنے والا خود عالِم ہو یا جاہِل اور عالم، سُنّیُّ العقیدہ کی تَوہین جاہِل کو جائز نہیں اگر چِہ اُس کے عمل کیسے ہی ہوں اور بد مذہب و گمراہ اگر چِہ عالم کہلاتا ہو اُسے بُرا کہا جائے گا مگر اُسی قَدَر جتنے کا وہ مُستَحِق ہے اور فُحش کلِمہ (یعنی گندی گالی) سے ہمیشہ اِجتِناب (بچنا) چاہئے (فتاویٰ رضویہ:ج 21،ص 294)
(2) عوام کو عُلَما سے بدظن کرنا سخت گناہ ہے، جیسا کہ آج کل یہ رواج چل پڑی ہے جس کسی مجلس میں بیٹھیں گے جب تک کسی عالم کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نہ نکالیں گے انہیں چین و سکون میسر نہیں آتا۔۔۔اس پر حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں: افسوس کہ اِس زمانہ میں جبکہ گمراہی شائِع ہو رہی ہے اور بد مذہبی زور پر ہے زید جو ایک سُنّی عالم ہے جیسا کہ سُوال میں ظاہر کیا گیا ہے، تَعَجُّب ہے کہ اُس کے رُفَقائِ کار خود عُلَمائے اہلسنّت کو سَبّ وسَخِیف (یعنی گالی اور بیہودہ) الفاظ سے یاد کر کے عُلَماء کے اِعزاز وَقار کومِٹائیں اور زَید خاموش رہے بلکہ اپنے طرزِ عمل سے اِس پر رِضا مندی ظاہِرکرے، اگر واقِعی وہ سُنّی عالِم ہے تو اس کا یا اس کے رُفَقاء کا یہ فِعل بِنا بر حَسَد ہوگا، عوام کو علماء سے بدظن کرنا سخت گناہ ہے کہ جب بدظن ہونگے (تو) اُن (یعنی علما) سے بیزار ہونگے اور ہلاکت میں پڑیں گے (فتاویٰ امجدیہ: ج 4، ص 515)
اللہ تعالیٰ ہمیں علماے کرام کی بے ادبی سے محفوظ فرمائے، اُن کی عزت و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے نیز جو علما برسرِ عام دوسرے عالم دین کی تحقیر کرتے ہیں اُن کے دل میں محبت عطا فرمائے اور ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کی توفیق بخشے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے