Advertisement

استاذ اور شاگرد کو کیسا ہونا چاہیے ؟ از مولانا محمد شاہد علی اشرفی فیضانی


استاذ اور شاگرد کو کیسا ہونا چاہیے ؟

(احادیثِ نبویہ اور حکایاتِ صالحین کی روشنی میں علم و معرفت کی راہیں کھولنے والی ایک بصیرت افروز تحریر)

علم دین اللہ عزوجل کی ایک عظیم نعمت ہے ، قرآن احادیث میں اس کی بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور یہ وہ نعمت ہے کہ جسے حاصل ہو جاتی ہے اس کے لیے دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں بھی سرخروئی ہے ۔ یہ وہ دولت ہے جو خرچ کرنے سے گھٹتی نہیں بلکہ مزید اس میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے ۔ اس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس حدیث پاک سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار علیہ السلام  کا فرمان مبارک ہے عالم دین بنو یا طالب علم بنو یاعالم کی بات سننے والا بنو یا عالم سے محبت کرنے والا بنو ، پانچواں مت بننا کہ ہلاک ہوجاؤ گے ۔ ( کنزالعمال ، ج : ۱۰ ، ص : ۔۔۔۔ )
 اس دولت کے تقسیم کرنے والے کو معلم ( استاذ ) اور اس کے حاصل کرنے والے کومتعلم ( طالب علم ) کہتے ہیں ۔ اسلام نے استاذ اور طالب علم دونوں کو ہی بڑا اونچا مرتبہ دیا ہے اور ایک کے دوسرے پر کچھ حقوق بھی متعین فرمائے ہیں ۔ معلم یعنی استاذ ہونا یہ بہت بڑی سعادت مندی ہے ، اس لیے کہ خود ہمارے آقا و مولا ﷺ نے اس منصب کو عزت و شرف بخشا ہے اور ارشادفرمایا : ” انما بعثت معلما “ یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ ( ابن ماجہ شریف ، ج : ۲ ، ص : ۱۵۰ )
 خود ہمارے آقا نبی رحمت ﷺ نے معلمین کے درجے اور فضیلت کو بیان فرمایا ہے ، ان میں سے چند احادیث تحریر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ، بغور مطالعہ کر کے استاذ کے مرتبہ و مقام کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔

 استاذ کا مرتبہ احادیث کی روشنی میں :

 حدیث ( ۱ ) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا ایک باب سکھایا تو اللہ تعالی اس کے ثواب کو قیامت تک کے لیے جاری فرما دیتا ہے ۔ ( کنز العمال ، ج : ۱۰ ، ص : ۶۱ )
 حدیث ( ۲ ) ۔ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن  سیکھے اور دوسروں کو سکھاۓ ۔ ( صحیح بخاری ، فضائل القرآن ، ص : ۴۱۰ )
 حدیث ( ۳ ) ۔ بے شک اللہ عز وجل اور اس کے فرشتے لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر رحمت بھیجتے ہیں حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندروں میں اس کے لیے دعاۓ مغفرت کرتی ہیں ۔ ( المعجم الکبیر ، ج : ۸ ، ص : ۲۳۴ )
 حدیث ( ۴ ) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں سب سے زیادہ جود و کرم والے کے بارے میں آگاہ نہ کروں ؟ اللہ تعالی سب سے زیادہ کریم ہے اور میں اولاد آدم میں سب سے بڑا سخی ہوں اور میرے بعد وہ شخص ہے جس کو علم عطا کیا گیا ہو ، اور اس نے اپنے علم کو پھیلایا ، قیامت کے دن اس کو ایک امت کے طور پر اٹھایا جائے گا اور وہ شخص جس نے اللہ تعالی کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ، حتی کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ ( مسند انس ابن مالک ، ج : ۳ ، ص : ۶۱ )
 مذکورہ بالا احادیث و روایات سے اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ اسلام میں استاذ کا کتنا بڑا مرتبہ و مقام ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کو خیر یعنی بھلائی اور اچھائی سکھانے والے پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور چیونٹیاں اپنے بلوں میں معلم کے لیے دعاے مغفرت کرتی رہتی ہیں اور اللہ تعالی معلم ( استاذ ) کے لیے قیامت تک ثواب عطافرماتارہتا ہے ۔ لہذا ہرعلم کو چاہیے کہ اخلاص نیت کے ساتھ دین کی خدمت سمجھ کر رضاے الہی عزوجل کے لیے لوگوں کو خیر کی تعلیم دے اور دنیوی حرص وطمع سے اپنے کو دور رکھے ۔ 

استاذ کے لیے چند مفید باتیں :

 استاذ اور شاگرد کا رشتہ بڑا ہی متبرک ہوتا ہے ، اس سلسلے میں استاذ کے لیے چند مفید باتیں ذیل کی سطور میں تحریر کی جارہی ہیں جو ایک استاذ کے لیے انشاء اللہ تعالی بہت ہی مفید اور کار آمد ثابت ہوں گی ۔ لہذا ان کو بغور پڑھ کر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں ۔ 
( ۱ ) استاذ کو چاہیے کہ شاگردوں کی بہتر سے بہتر تربیت کرے ، انھیں اپنی حقیقی اولاد کی طرح سمجھے اور ان پر شفقت کرے ، جیسے اپنی حقیقی اولاد پر کرتا ہے ، اس لیے کہ استاد شاگرد کے لیے روحانی باپ کا درجہ  رکھتا ہے ۔ اور شاگرد کو بھی چاہیے کہ استاذ کو اپنے باپ سے بھی زیادہ عزت دے اور ان کا ادب و احترام کرے اور ان کی ہر بات کو دل و جان سے تسلیم کرے ۔ 
( ۴ ) استاذ کو چاہیے کہ اگر کوئی طالب علم سبق سنانے میں یا امتحان وغیرہ میں ناکامی سے دوچار ہو تو اس کی ناکامی پر رنجیدہ ہو اور اس کی ڈھارس بندھاۓ اور اسے ناکامی سے پیچھا چھڑانے کے لیے مفید مشورے دے ۔ اگر کسی طالب علم کو کوئی کامیابی نصیب ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرے ۔
( ۳ ) اگر کوئی طالب علم بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کو جاۓ ۔
 ( ۴ ) اگر کسی طالب علم کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے والد یا والدہ پاکسی عزیز کی وفات ہو جاۓ تو اس کی غم خواری کرے ۔
 ( ۵ ) اگر کسی طالب علم کو کوئی پریشانی لاحق ہو ، مثلا اس کے پاس کتابیں وغیرہ ضروری سامان کے لیے رقم نہ ہو تو اسے کتابیں اور اس کی ضرورت کا سامان دلوانے میں حتی المقدور اپناکر دار ادا کرے ۔ 
( ۶ ) استاذ کو چاہیے کہ وقتا فوقتا طالب علم کے شوقِ علم کو ابھارتا رہے تاکہ اس کا جذبۂ حصولِ علم سرد نہ پڑے ۔ 
( ۷ ) فکر آخرت سے غفلت کے باعث ہلاکت ہے ، لہذ ااستاذ کو چاہیے کہ طلبہ کو گاہے بہ گا ہے فکر آخرت کی ترغیب دلاتا رہے اور انھیں اپنے ہر ہر فعل کا محاسبہ کرنے کا ذہن دے ۔ 
( ۸ ) استاذ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ طلبہ کے لیے سند رکھتا ہے ، اس لیے استاذ کو چاہیے کہ ہنسی مذاق میں بھی کسی کا غلط سلط نام نہ ر کھے ۔ 
( ۹ ) استاذ کو چاہیے کہ بلا ضرورت کسی بھی طالب علم سے کسی طرح کی ذاتی خدمت نہ لے ، مثلا کپڑے دھلوانا ، گھر کا سودا سلف منگوانا وغیرہ ۔ 
( ۱۰ ) استاذ کو چاہیے کہ بالخصوص اس آخری درجات یعنی سادسہ سابعہ اور دورۂ حدیث میں طلبہ کو اپنی صلاحیتیں مفید امور میں استعمال کرنے کی ترغیب دے ، پھر جس طالب علم میں تحریر کی صلاحیت غالب دیکھے اسے تحریر کی مشق کرواۓ ، جس میں تدریس کی صلاحیت غالب دیکھے ، اسے تدریس کے اسرار و رموز سے آگاہ کرے ، اسی طرح جس کا ترجمہ اچھا ہو اسے اکابرین کی کتب کا ترجمہ کرنے کی ترغیب دے علی ہذا القیاس ۔ 
( ۱۱ ) طلبہ کو علم پر عمل کرنے کا جذبہ دلاتا رہے ۔
 ( ۱۳ ) اگر کوئی طالب علم سبق سنانے میں ناکام رہتا ہے تو اسے فوراً جھاڑنے یا سزا دینے کے بجائے مناسب لہجے میں اسی سے وضاحت طلب کرے ۔ اگر ناکامی میں طالب علم کی سستی کا دخل ہو تو اسے تنبیہ کرے ، پھر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے تو شرعی اجازت کے تحت ہی سزا دے ۔ استاد شاگرد کو تادیبا بقدر ضرورت سزادے سکتا ہے ، لیکن یہ سزا ہاتھ سے دے اور ایک وقت میں تین ضربوں سے زیادہ نہ مارے ، نیز چہرے پر مارنے کی ممانعت ہے ۔ ( کامیاب استاذ کون ، مطبوعہ المدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی )

 اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ تعلق : 

مجددِ دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کس قدر شفقت و مہربانی فرمایا کرتے تھے ، اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں ۔ مولانا سید ایوب علی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ محلہ قرولان کے ایک مسلمان سوہن حلوہ فروخت کیا کرتے تھے ان سے حضور نے کچھ سوہن حلوہ خرید لیا ، جب میں اور برادرم قناعت علی رات کے وقت کام کر کے واپس آنے لگے تواعلی حضرت علیہ الرحمہ نے قناعت علی سے ارشاد فرمایا : وہ سامنے تپائی پر کپڑے میں بندھی ہوئی چیز اٹھا لاؤ ۔ جب اٹھا لاۓ تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ان کو دونوں ہاتھوں میں لے کر میری طرف بڑھے ، میں پیچھے ہٹا ، حضور آگے بڑھے میں اور پیچھے ہٹا یہاں تک کہ میں دالان کے گوشے میں پہنچ گیا ۔ حضور نے ایک پوٹلی عطا فرمائی ۔ میں نے کہا : حضور یہ کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : سوہن حلوہ ہے ، میں نے دبی زبان سے نیچی نظر کر کے عرض کیا : حضور بڑی شرم معلوم ہوتی ہے ۔ فرمایا : شرم کی کیا بات ہے ؟ جیسے مصطفیٰ ( یعنی شہزادۂ اعلی حضرت مفتیِ اعظم ہند ) ویسے تم سب بچوں کو حصہ دیا گیا ہے ، آپ دونوں کے لیے بھی میں نے دو حصے رکھ لیے ۔ یہ سنتے ہی برادرم قناعت علی نے آگے بڑھ کر حضور کے ہاتھ سے اپنا حصہ خود لے لیا اور دست بستہ عرض کیا : حضور میں نے یہ جسارت اس لیے کی کہ اپنے بزرگوں کے ہاتھوں میں چیز دیکھ کر بچے اس طرح لے لیا کرتے ہیں ۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے تبسم فرمایا ۔ اس کے بعد ہم لوگ دست بوسی کر کے مکان سے چلے آۓ ، حقیقت یہ ہے کہ حضور نے ہم لوگوں کو بہت نوازا اور ہم نابکار کچھ خدمت نہ کر سکے ۔ ( حیات اعلی حضرت ، ج : ص : ۱۰۹ )
 اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملا کہ استاذ کو چاہیے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے شاگردوں پہ کچھ نہ کچھ نوازشات کرتا رہے تاکہ شاگردوں کی دل جوئی ہوتی رہے اور شاگردوں کی نظر میں استاد کا مرتبہ و مقام اور بڑھ جاۓ ۔

 استاذ کے حقوق : 

علما فرماتے ہیں کہ استاد کا شاگرد پر یہ حق ہے کہ [طالب علم] استاذ کے بستر پر نہ بیٹھے اگر چہ استاذ موجود نہ ہو ۔ جو شخص لوگوں کو علم سکھاۓ وہ بہترین باپ ہے ، کیوں کہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے ۔ فتاوی بزاز یہ میں ہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر برابر ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے ، اس کی جگہ نہ بیٹھے ، اگر چہ سے وہ موجود نہ ہو اور اس کی بات کو رد نہ کرے اور چلنے میں اس سے آگے نہ ہو ۔ اسی طرح علما نے فرمایا کہ شاگرد کو بات کرنے اور چلنے میں استاذ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے ۔ ( الحقوق لطرح العقوق ، ص : ۹۱،۹۰ )
 حدیث ( ۱ ) ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو ، جس استاذ نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرو ۔ ( المعجم الاوسط ، ج : ۴ ، ص : ۳۴۲ )
حدیث ( ۲ ) ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی آدمی کو قرآن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا استاذ ہے ۔ ( المعجم الکبیر ، ج : ۸ ، ص : ۱۱۲ )

 اپنے استاذ کا ادب کریں : 

استاذ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ، جس طرح شریعت میں حقیقی باپ کا ادب واحترام اور تعظیم کرنا واجب و ضروری ہے ، یوں ہی ایک شاگرد کے لیے بھی اپنے استاذ کا ادب واحترام اور تعظیم کرنا نہایت ضروری ہے ۔ شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاذ کو آتا دیکھ کر ادبا تعظیم کے لیے کھڑا ہو جاۓ اور با ادب سر جھکا کر سلام و دست بوسی کرے ۔ اس لیے کہ ادب سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے اور با ادب شاگرد کے لیے استاذ کے دل سے دعا نکلتی ہے اور ایسے شاگرد کا میاب بھی ہوتے ہیں اور انھیں استاذ کا خصوصی فیض ملتا ہے ۔ کسی نے سچ کہا ہے :
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب 
اور ایک عربی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی ہے :
 ما وصل من وصل إلا بالحرمة
 وما سقط من سقط إلا بترك الحرمة
 یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب واحترام نہ کرنے کے سبب کھویا ۔

 طلبہ کے لیے چند مفید باتیں :

 عزیز طلبہ !
 ( ۱ ) آپ کو چاہیے کہ اوقات درس میں اپنے درجہ میں حاضر رہیں ، بغیر ضرورت شدیدہ اور مجبوری کے غیر حاضری نہ کریں ، اس لیے کہ ایک دن کے درس کی غیر حاضری کئی دنوں کے درس کی برکتوں کو ختم کر دیتی ہے ۔ 
( ۲ ) سبق کو بغیر سمجھے رٹنے کی کوشش نہ کریں ، بغیر سمجھے رٹا ہوا سبق جلد بھول جاتا ہے ۔ 
( ۳ ) دوران سبق کسی سے گفتگو نہ کریں ورنہ سبق سمجھ میں نہیں آئے گا ۔ 
( ۴ ) اگرنفس سبق یاد کرنے میں سستی دلائے تو اسے سزاد دیجیے مثلا کھڑے ہوکر سبق یاد کرنا شروع کردیں یا پھر جب تک سبق یاد نہ ہو جاۓ کھانا پینا نہ کریں ۔ 
( ۵ ) اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اپنی عادت میں شامل کر لیں اور ان کی دعائیں حاصل کریں ۔
 ( ۶ ) فضول گوئی ، بدکلامی ، جھوٹ ، غیبت وغیرہ گناہ کے کاموں سے بچتے رہیں اور پیشہ سچ ہی بولیں ۔
 ( ۷ ) حصول علم کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کی بھی اپنی عادت بنائیں ۔ 
( ۸ ) درس گاہ کے علاوہ خارج اوقات میں حلقہ بناکر سبق کی تکرار کرنے کی اپنی عادت بنائیں ، انشاء اللہ تعالی یہ حلقے آپ کے لیے بہت ہی کار آمد اور مفید ثابت ہوں گے اور حلقے کا ایک نگراں بھی مقرر کر لیں اور آپس میں دوران سبق بحث و مباحثہ بھی کریں ، اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہو گا اور ذہن بھی کھلے گا ۔ 
( ۹ ) اور کل جو سبق استاذ سے آپ کو پڑھنا ہے اس کا آج ہی مطالعہ کریں ، یہ مطالعہ آپ کے لیے کل آنے والے سبق کو سمجھنے میں آپ کے لیے معاون ہو گا ۔
( ۱۰ ) نمازوں کی پابندی کریں ، استاذ کے ڈر سے نہیں بلکہ رضاے الہی عزوجل کو پانے کے لیے نمازیں پڑھیں ۔ 
( ۱۱ ) حتی الامکان سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ 
( ۱۲ ) ماں ، باپ ، اساتذہ اور اپنے ساتھیوں بلکہ ہر چھوٹے بڑے سنی مسلمان کا کما حقہ احترام کریں ، اور ہر سنی صحییح العقیدہ عالم دین اور پیر طریقت کا ادب و احترام کریں ۔
( ۱۳ ) اختلافی اور فروعی مسائل میں ہرگز نہ الجھیں ۔

 بزرگوں کی حکایات : 

استاذ کے مرتبہ و مقام کو مزید اجاگر کرنے کے لیے بزرگوں کی چند حکایات ذیل میں نقل کی جارہی ہیں ، جن کا مطالعہ طلبہ کے لیے انشاء اللہ عز وجل بہت ہی فائدہ مند ہوگا ۔ 
حکایت ( ۱ ) حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کہ میں اپنے استاذ کی خدمت میں پانچ سال تک رہا ، اس درمیان میں میں نے ان سے صرف دو بار بات کی کیوں کہ ان کے سامنے مجھے زبان کھولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔
حکایت ( ۲ ) حضرت امام عظم رضی اللہ تعالی عنہ کو کون نہیں جانتا ، آپ فرماتے ہیں : کہ ادب کے مارے میں اپنے استاذ حضرت حماد کے گھر کی طرف کبھی پیر نہیں پھیلا تا تھا ۔ اور فرماتے ہیں : میں نے جس سے بھی تھوڑا علم حاصل کیا ہے اس کے لیے دعا کر تا ہوں ۔
 حکایت ( ۳ ) حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ادب و احترام بادشاہ وقت بھی کیا کرتا تھا ۔ آپ فرماتے ہیں : کہ مجھے یہ رتبہ میرے استاذ کی خدمت کی وجہ سے ملا ، میں ان کو کھانا پکا کر کھلایا کرتا تھا ، لیکن اس میں سے کچھ بھی نہیں کھاتا تھا ۔ ( مقالات فیضان اشرف ، باسنی ، ۲۰۰۴ ، ص : ۶۰ )
 عزیز طلبہ ! ان حکایات سے ہمیں یہ درس ملا کہ ہمارے بزرگوں کو عزت و شہرت اور بلند رتبہ و مقام حاصل ہوا ہے ، وہ سب اپنے اساتذہ کے ادب و احترام اور ان کی خدمت گزاری کے سبب حاصل ہوا ہے ۔ لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے بزرگوں کی حکایات سے درس عبرت حاصل کر کے اپنے اساتذہ کا ادب و احترام بجالانے کی کوشش کریں ۔ مولا تعالی ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق خیر عطافرماۓ ۔

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے