Advertisement

تعزیہ کا کیا حکم ہے، تعزیہ کیسا بنایا جائے، تعزیہ کی اصل کیا ہے ؟


تعزیہ کا کیا حکم ہے، تعزیہ کیسا بنایا جائے، تعزیہ کی اصل کیا

 ہے ؟


مسئلہ :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ داری کا کیا حکم ہے ؟ بینوا توجروا ( بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ ۔ ت )

 الجواب : 

تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضہ پر نور شہزادہ گلگوں قبا حسین شہید ظلم و جفا صلوات اللہ تعالی وسلامہ علی جدہ الکریم و علیہ کی صحیح نقل بنا کر بہ نیت تبرک مکان میں رکھنا اس میں شرعا کوئی حرج نہ تھا کہ تصویر مکانات وغیرہا ہر غیر جاندار کی بنانا ، رکھنا ، سب جائز ، اور ایسی چیزیں کہ معظمان دین کی طرف منسوب ہو کر عظمت پیدا کریں ان کی تمثال بہ نیت تبرک پاس رکھنا قطعا جائز ، جیسے صد ہاسال سے طبقۃ  فطبقة ائمہ دین و علماۓ معتقدین نعلین شریفین حضور سید الکونین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نقشے بناتے اور ان کے فوائد جلیلہ و منافع جزیلہ میں مستقل رسالے تصنیف فرماتے ہیں جسے اشباہ ہو امام علامہ تلمسانی کی فتح المتعال وغیرہ مطالعہ کرے ، مگر جہال بیخرد نے اس اصل جائز کو بالکل نیست و نابود کر کے صدہا خرافات وہ تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آئیں ، اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ، ہر جگہ نئی تراش نئی گھڑت  جسے اس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت ، پھر کسی میں پریاں ، کسی میں براق ، کسی میں اور بیہودہ طمطراق ، پھر کوچہ بکوچہ و دشت بدشت ، اشاعت غم کے لئے ان کا گشت ، اور ان کے گرد سینہ زنی ، اور ماتم سازشی کی شورا فگنی ، کوئی ان تصویروں کو جھک جھک کر سلام کر رہا ہے ، کوئی مشغول طواف ، کوئی سجدہ میں گرا ہے ، کوئی ان مایہ بدعات کو معاذ اللہ معاذ اللہ جلوہ گاہ حضرت امام علی جدہ وعلیہ الصلوۃ والسلام سمجھ  کر اس ابرک پنی سے مرادیں مانگتا منتیں مانتا ہے ، حاجت روا جانتا ہے ، پھر باقی تماشے ، باجے ، تاشے ، مردوں عورتوں کا راتوں کو میل ، اور طرح طرح کے بیہودہ کھیل ان سب پر طرہ ہیں ۔ غرض عشرہ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت و محل عبادت ٹھہرا ہوا تھا ، ان بیہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا پھر و بال ابتداع کا وہ جوش ہوا کہ خیرات کو بھی بطور خیرات نہ رکھا ، ریاء و تفاخر علانیہ ہوتا ہے پھر وہ بھی یہ نہیں کہ سیدھی طرح محتاجوں کو دیں بلکہ چھتوں پر بیٹھ کر پھینکیں گے روٹیاں زمین پر گر رہی ہیں رزق الہی کی بے ادبی ہوتی ہے پیسے ریتے میں گر کر غائب ہوتے ہیں ، مال کی اضاعت ہو رہی ہے ، مگر نام تو ہو گیا کہ فلاں صاحب لنگر لٹا رہے ہیں ، اب بہار عشرہ کے پھول کھلے ، تاشے باجے بجتے چلے ، طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم ، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم ، شہوانی میلوں کی پوری رسوم ، جشن یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصویریں بعینہا حضرات شہداء رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے جنازے ہیں ، کچھ نوچ اتار باقی توڑ تاڑ دفن کر دیئے ۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم و وبال جداگانہ رہے ۔ اللہ تعالی صدقہ حضرات شہدائے کربلا علیہم الرضوان والثناء کا ہمارے بھائیوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور بری باتوں سے توبہ عطافرماۓ ، آمین ! اب کہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعا بدعت و ناجائز و حرام ہے ، ہاں اگر اہل اسلام جائز طور پر حضرات شہداۓ کرام علیہم الرضوان   کی ارواح طیبہ کو ایصال ثواب کی سعادت پر ا قتصار کرتے تو کس قدر خوب و محبوب تھا اور اگر نظر شوق و محبت میں نقل روضہ انور کی حاجت تھی تو اسی قدر جائز پر قناعت کرتے کہ صحیح نقل بغرض تبرک وزیارت اپنے مکانوں میں رکھتے اور اشاعت غم و تصنع الم ونوحه زنی وماتم کنی و دیگر امور شنیعہ و بدعات قطعیہ سے بچتے اس قدر میں بھی کوئی حرج نہ تھا مگر اب اس نقل میں بھی اہل بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خد شہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہل اعتقاد کے لئے ابتلاء بدعات کا اندیشہ۔ اور حدیث میں آیا ہے : 
اتقوا مواضع التهم ( تہمت کے مواقع سے بچو ۔ ت ) 
 اور وارد ہوا :
 من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يقفن مواقف التھم۔
  جو شخص اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر گز تہت کے مواقع میں نہ ٹھہرے ۔ ( ت )
 لہذار وضہ اقدس حضور سید الشداء رضی اللہ تعالی عنہ کی ایسی تصویر بھی نہ بناۓ بلکہ صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اسے بقصد تبرک بے آمیزش منہیات اپنے پاس رکھے جس طرح حرمین محترمین سے کعبہ معظمہ اور روضہ عالیہ کے نقشے آتے ہیں یا دلائل الخیرات شریف میں قبور پر نور کے نقشے لکھے ہیں والسلام علی من اتبع الهدى ، والله سبحنہ و تعالی اعلم ۔

حوالہ : 

فتاوی رضویہ ، جلد : 24 ، صفحہ : 512  ، 513  و 514 ، مطبوعہ : رضا فاؤنڈیشن ، جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور ، پاکستان۔ 

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔


مزید پڑھیں :



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے