Advertisement

خطابت اور خوش گفتاری از مولانا محمد ہارون مصباحی


 خطابت اور خوش گفتاری


از : مولانا محمد ہارون مصباحی فتح پوری

استاذ : الجامعۃ الا شرفیہ مبارکپور، اعظم گڈھ، یوپی، انڈیا ۔

20/ دسمبر، 2021


ایک انسان جب لوگوں کے سامنے اپنے خیالات پیش کرتا ہے اور اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرتا ہے تو اسے خطابت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 
خطابت در اصل روحوں کو جیتنے کا فن ہے، اپنے مخاطب کو اپنی رائے کے طوفان میں بہا لے جانے کا ہنر ہے، یہ دلوں کے تار ہلانے اور جذبوں کو تہذیب سکھانے کا گُر ہے۔ 
خطابت جب اپنے عروج پر ہوتی ہے تو سننے والے پر نور برستا ہے، خطیب کے الفاظ میں معانی کا دل دھڑکتا ہو تو ان کی پھوار سے سامعین کے دلوں کی کھیتی ہری ہو جاتی ہے اور اس کھیتی میں قبولیت اور عقیدت کی فصل لہلہا اٹھتی ہے، خطیب کے اندازِ تکلم میں حسن ہو تو کبھی اس سے قافلے تھم جاتے ہیں اور کبھی اُڑتے پرندے ٹھہر جاتے ہیں۔
خطابت میں جس قدر فصاحت و روانی اور طلاقتِ لسانی ہوگی اور سامعین کو سمجھانے کا جتنا بہتر انداز ہوگا خطابت اسی قدر مؤثر اور با کمال ہوگی۔
دعوت دین، تعلیم شریعت اور تبلیغ احکام کا سب سے بہتر اور مؤثر ذریعہ خطابت ہی ہے، اسی لیے خطابت کو نبوت و رسالت کے لیے لازمی اور ضروری عنصر قرار دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ عز و جل سے اپنی زبان کی گرانی دور کرنے کی التجا کرتے ہوئے عرض کی: 
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ. وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ. وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ. یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪. ( سورة طٰهٰ، ٢٥ - ٢٨ )
اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے، میرے لیے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی بندش دور فرما دے تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔
مزید یہ کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبی بنانے اور اپنے معاون و مددگار کا درجہ دینے کی درخواست کی اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ وہ مجھ سے خوش گفتار اور فصیح البیان ہیں، عرض کی :
وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي ۖ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ. ( سورة  القصص، ٣٤ )
"اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیاده صاف ہے تو اسے بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج تاکہ وه میری تصدیق کرے، مجھے تو خوف ہے کہ وه سب مجھے جھٹلا دیں گے۔"
ہمارے آقا و مولیٰ پیغمبرِ آخر الزماں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم چوں کہ تمام رسولوں کے سردار اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے رسول اور داعی و معلم بنا کر بھیجے گیے ہیں اس لیے خداوند قدوس نے حضور کو خطابت و تقریر میں ایسا کمال بخشا کہ عجم ہی نہیں، عربوں میں آپ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور قادر الکلام انسان ہیں۔ 
ایک موقعے پر آپ اپنی فصاحت و بلاغت اور قادر الکلامی کو بیان کرتے ہوئے اور اُدبائے عرب میں اپنی حیثیت و حقیقت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
"أَنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ بَيْدَ أَنِّي مِنْ قُرَيْشٍ َنَشَأْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ". ( شرح الشفاء لملا علی القاری : ۱/۴۶۹۔ ) 
"میں ادبائے عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں، اس کے علاوہ (مجھ کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ) میں قریش سے ہوں اور میری پرورش قبیلۂ بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے۔ ( جن کو زبان و ادب میں خاص امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ )
اللہ عز و جل نے آقائے کریم کو جوامع الکلم کا معجزہ بھی دیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا ہے اور آپ کے جوش تکلم کی تاثیرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان میں ایسی حیرت انگیز تاثیر رکھی تھی کہ جو بھی آپ سے ہم کلام ہوتا اور آپ کی بات غور سے سنتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مشرکین عرب اور کفار مکہ کو یہ بات ہرگز گوارا نہیں تھی اس لیے وہ آپ کے خلاف پروپیگنڈا کرتے اور آپ کو جادوگر کہتے تھے۔ گویا انھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال فصاحت و بلاغت کا ایسا زبردست اعتراف تھا جسے اپنے لفظوں میں بیان کرنے کے لیے ان کے پاس 'جادو' کے علاوہ کوئی اور لفظ موجود ہی نہیں تھا۔ 

ترے  آگے یوں  ہیں دبے  لچے، فصحا  عرب  کے بڑے  بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں 

وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں 
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام 

اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود 
اس کی دل کش بلاغت پہ لاکھوں سلام


مزید پڑھیں:



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے