Advertisement

شرک کے بڑھتے سائے از غلام مصطفی نعیمی


شرک کے بڑھتے سائے ! ! 



از : غلام مصطفی نعیمی
روشن مستقبل دہلی
١١ محرم الحرام ١٤٤٤ھ
10 اگست 2022 بروز بدھ


اس بار کی کانوڑ یاترا میں کلمہ گو افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مسلمانوں میں غیر محسوس طریقے سے بڑھتے ہوئے شرکیہ رجحانات حد درجہ باعث تشویش ہیں۔اگر ہم نے وقت رہتے بدلتے ہوئے رویوں کا نوٹس نہیں لیا اور عقیدہ توحید کی حفاظت کا فریضہ انجام نہیں دیا تو وہ دن دور نہیں ہے کہ جب توحید کے پرستار ملکی تہذیب کے نام پر کفر وشرک کو اپنی جدّی روایات کا حصہ قرار دے کر اس پر فخر کا اظہار کریں گے اور مسجدوں کے منبر سے ہندو میتھالوجی کے فضائل وکمالات بیان کئے جائیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ عام ذہن ان خدشات سے اتفاق نہ کرے لیکن ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور قوم کے نمائندہ چہروں کی حکومت کے تئیں بدلتی ہوئی ذہنیت اور پالیسی کو دیکھ کر ڈر لگنے لگا ہے کہ جن خدشات کا ہمیں اندیشہ ہے کہیں وہ اس سے زیادہ بھیانک صورت میں سامنے نہ آئیں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔

کیا ایسا ممکن ہے ؟

بہت ممکن ہے کہ ایک عام مسلمان کے دماغ میں یہ سوال اٹھے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ مسجدوں کے منبر سے ہندو افکار و نظریات کے خطبے پڑھیں جائیں اور مرکز توحید میں شرکیہ منتر پڑھے جائیں؟ 
جواب ہے، جی ہاں!
یہ صرف ممکن ہی نہیں ہے کچھ "روشن خیالوں" کی مشرک نوازی کی بدولت ایک صدی پہلے یہ حادثہ واقع بھی ہوچکا ہے۔اب ایک بار پھر سے وہی حالات بنانے کی سازشیں چل رہی ہیں کہ مرکز توحید سے شرک کا خطبہ دیا جائے، سننے والے مسلمان ہوں اور اُنہیں گیتا/رامائن کے شِلوک سنا کر ہندو تہذیب وثقافت قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔

مسجد اور پنڈت کا پِروَچَن

آج سے تقریباً 103 سال پہلے برطانوی بھارت میں 30 مارچ 1919 کا دن مسلمانان ہند کی روشن تاریخ پر بدنما داغ بن کر آیا، جب گاندھی جی کے محب صادق مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مخلص وفاداروں کی جی توڑ محنت اور عوامی ذہن سازی کی بدولت آریہ سماجی رہنما پنڈت شردھانند نے جامع مسجد دہلی کے منبر سے مسلمانوں کو خطاب کیا۔عجیب نظارہ تھا مسلمانان ہند کی آن بان شان کہلانے والی جامع مسجد میں ایک ہندو پنڈت نہ صرف داخل ہوا بلکہ اسے بصد احترام منبر سجا کر بٹھایا گیا۔شردھانند نے اپنے خطاب کی شروعات اس ہندوانہ منتر سے کی:
ॐ विश्वानि देव सवितर्दुरितानि परासुव। यद् भद्रं तन्न आ सुव।
افسوس صد افسوس!
جس مسجد سے بڑے بڑے صلحا اور فاضلین وقت نے توحید ورسالت کا درس دیا اسی مسجد میں "اُوم وِشوَانِی دیوا" کے شرکیہ منتر پڑھے گئے مگر کسی کو خانہ خدا کی بے حرمتی کا احساس نہیں ہوا۔حالانکہ ایک عام مسلمان بھی احترامِ مسجد کے تئیں بہت حساس ہوتا ہے لیکن اُس دن کسی کو بھی احترام مسجد کا خیال نہیں آیا، جانتے ہیں کیوں؟؟
کیوں کہ پرستارِ گاندھی، مولانا آزاد عوام کو اچھی طرح سمجھا چکے تھے کہ ہندو مسلم ایکتا کے لیے ایسا کرنا بے حد ضروری ہے اور شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔اپنے فاسد نظریے کو ثابت کرنے کے لیے آزاد صاحب نے "جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد" نامی رسالہ بھی تحریر کیا۔جس میں انہوں نے بزعم فاسد شردھانند کو مسجد لے جانے اور خطاب کرانے کو جائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔حالانکہ یہ صرف آزاد صاحب اور کانگریسی مسلمانوں کی خود فریبی تھی ورنہ حقیقت حال وہ بھی اچھی طرح جانتے تھے۔

دوستی کا صلہ

ایسا نہیں ہے کہ شردھانند کو محض کانگریسی لیڈر کے طور پر جامع مسجد میں مدعو کیا گیا تھا، پنڈت شردھانند سے آزاد صاحب کے دوستانہ مراسم بھی تھے۔اس کا اظہار خود آزاد نے اس وقت کیا جب مقتدر علما و مشائخ نے شردھانند کے دخول مسجد پر سخت اعتراض جتایا۔تب آزاد صاحب نے شردھانند کا دفاع کرتے ہوئے لکھا تھا:
"اگر اس چبوترے(خطاب کے لیے بنائے گئے منبر) پر ایک غیر مسلم دوست نے مسلمانوں کی اجازت سے کھڑے ہوکر تقریر کی تو اس میں شرعاً کیا قباحت ہے؟"
(پیش لفظ جامع الشواہد، ص:10)
کتنی عجیب بات ہے کہ جس"دوست" کو آزاد صاحب نے مسجد میں اعزاز دلایا اسی نے آزاد صاحب کی قوم کو مرتد بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔خطابِ جامع مسجد کے تین سال بعد ہی 1923 میں شردھانند نے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے "شدھی تحریک" کا آغاز کیا اور لاکھوں مسلمانوں کا ایمان چھین کر انہیں مرتد بنایا۔اگر بروقت جماعت رضائے مصطفےٰ جیسی تنطیموں نے فتنہ ارتداد کی روک تھام نہ کی ہوتی تو پتا نہیں شردھانند کا فتنہ کس قدر نقصان پہنچاتا۔
ان معاملات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہی لگتا ہے کہ یا تو آزاد صاحب مردم شناسی میں بے حد کمزور تھے یا گاندھی کے سحر نے ان کی فہم و فراست سلب کرلی تھی۔یہ بات اس لیے کہنا پڑتی ہے کہ اپنے حلقوں میں امام وقائد کہلانے والے آزاد جیسے دانش وران، گاندھی کے اس فلسفے پر دل وجان سے ایمان لائے ہوئے تھے کہ ہندو مسلم ایکتا کے لیے اس سے اچھا فارمولہ نہیں ہوسکتا کہ مسجد میں پنڈت پِروَچَن سنائے اور مندروں میں مولوی تقریر کرے۔اسی لیے ایک طرف شردھانند سے جامع مسجد میں بھاشن دلایا گیا تو مختلف مندروں میں مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا آزاد کی تقریریں کرائی گئیں۔اب اسے گاندھی جی کی شخصیت کا سحر کہیں یا مذکورہ حضرات کی غیر مشروط وفاداری، بہرحال اس رویے نے اس وقت بھی ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اور آج ایک بار پھر سے وہی تاریخ دہرانے کی سازش پر کام کیا جارہا ہے جسے وقت رہتے نہ سمجھا گیا تو اس بار ملت اسلامیہ کو پہلے سے کئی گنا زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔

تاریخ خود کو دُہرا رہی ہے

ایک صدی قبل جن مذہبی چہروں نے شردھانند جیسے باباؤں کو مذہبی محفلوں میں بلانے کی جو بدعت شروع کی تھی وہ وقت کے ساتھ تھوڑی کمزور تو ہوئی لیکن ان کے فکری وارثین نے اسے مرنے نہیں دیا اور اب اپنی اپنی سطح پر اسے فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
٭ واقعہ شردھانند(30 مارچ 1919) کے ٹھیک 90 سال بعد 3 نومبر 2009 کو مولانا حسین احمد مدنی کے پوتے مولانا محمود مدنی نے دیوبند میں جمیعۃ علماے ہند کے اسٹیج پر یوگ گرو بابا رام دیو کو بلا کر آزاد کی دفن شدہ بدعت کو پھر سے زندہ کیا۔
٭ محمود مدنی صاحب نے رام دیو کو آگے بڑھایا تو ان کے چچا مولانا ارشد مدنی نے آچاریہ پرمود کرشنم کو مذہبی جلسوں میں مہمان خصوصی بنانا شروع کیا۔
جس طرح شردھانند نے اپنے بھاشن کی شروعات اوم وِشوا سے کی کچھ اُسی انداز میں رام دیو نے بھی سیکڑوں علما وطلبہ کے درمیان آر ایس ایس کی بولی بولتے ہوئے کہا تھا:
"ہمارے مذہبی طور طریقے الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے آبا واجداد ایک ہی ہیں۔"
دنیا جانتی ہے کہ آر ایس ایس کے اس جملے کا مطلب صرف یہ جتانا ہوتا ہے کہ آٹھ صدی قبل مسلمانوں کے اجداد بھی دیگر بھارتیوں کی طرح بُت پرست تھے اس لیے ہمارے اجداد اوپر جاکر ایک ہی(یعنی بُت پرست) ہوجاتے ہیں، بس بعد والوں نے دھرم پری ورتن(تبدیل)کرلیا ہے۔جس کے لیے پہلے شردھانند نے شدھی تحریک چلائی اور اب اس کے وارثین اسی تحریک کو گھر واپسی کے نام سے چلا رہے ہیں۔
جس طرح شردھانند نے عزت افزائی کے بعد ارتدادی مہم چلائی اُسی طرح رام دیو نے بھی عزت افزائی کے بعد اپنا اصلی رنگ دکھایا۔ہریانہ میں آر ایس ایس کے منعقدہ اجلاس(2016) میں اس نے مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے کہا:
"اس دیش میں قانون کا خیال ہے نہیں تو ہم ایک نہیں لاکھوں گردن کاٹنے کی ہمت رکھتے ہیں۔"
اسی بابا نے سی اے اے/طلاق ثلاثہ/تنسیخ دفعہ 370 اور تعدد ازواج پر مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا۔
آچاریہ پرمود کرشنم جنہیں کچھ وقت پہلے تک کوئی ڈھنگ سے جانتا بھی نہیں تھا، مولانا ارشد مدنی کی مہربانیوں کی بدولت شہرت ملی تو موصوف بھی کھلنا شروع ہوئے۔پچھلے دنوں آچاریہ جی نے حکومت سے تاج محل/قطب مینار اور لال قلعہ کو ہندوؤں کو سونپنے کا مطالبہ کیا۔آچاریہ جی کے موجودہ تیور دیکھ کر لگتا ہے آنجناب بھی شردھانند کے ہی جانشین نکلیں گے۔

لمحہ فکریہ

ایک طرف مولانا آزاد کے وارثین ان کی بدعت سئیہ کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اہل سنت میں بھی یہ جراثیم سرایت کرنے لگے ہیں۔پچھلے کچھ وقت میں ایسے کئی معاملے منظر عام پر آئے ہیں جو فکری و اعتقادی طور پر مسلمانوں کے لیے سخت نقصان دہ تھے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ارباب حل وعقد نے یا تو صرف نظر سے کام لیا یا تاویل کے نام پر لیپا پوتی کی ناکام کوشش کی۔
اچھی طرح یاد رکھیں!
 تاریخ صرف رٹنے کے لیے نہیں ہوتی، رٹ تو طوطے بھی لیتے ہیں۔سمجھ دار وہ ہوتا ہے جو صرف پڑھتا نہیں بلکہ اس کے انجام پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حادثہ شردھانند سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔اس لیے اب عام مسلمانوں میں بھی کفر وشرک کے تعلق سے بے راہ روی آتی جارہی ہے اگر وقت رہتے ہم نے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے تو شرک کے سائے اتنا بڑھ جائیں گے جس سے بچ پانا عوام تو کیا خواص کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا۔


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے