Advertisement

موبائل کے ذریعے نکاح و طلاق کا شرعی حکم کیا ہے ؟ از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


موبائل کے ذریعے نکاح و طلاق کا شرعی حکم کیا ہے ؟


مسئلہ : 

سیما انجم بنت شمس الحق کی شادی شوال ۱۴۳۵ ھ / ۲۰۱۳ ء میں بدر الزماں ابن عبد اللہ کے ساتھ ہوئی ۔ شادی کے بعد ہی بدر الزماں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی دھمکی دینا شروع کر دیا ، پھر وہ سعودیہ عربیہ چلا گیا ۔ وہاں سے بار بار موبائل کے ذریعہ طلاق کی دھمکی دے رہا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں گا ، لڑکی اور اس کے ماں باپ کافی پریشان ہیں اور یہ بھی کہ رہا ہے کہ میں موبائل کے ذریعہ دوسرے سے نکاح کر لوں گا ۔ تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ موبائل کے ذریعہ طلاق اور نکاح شرعا جائز ہے کہ نہیں ؟ جواب سے مطلع فرمائیں ۔

الجواب : 

موبائل فون پر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے تو طلاق واقع ہو جاۓ گی ، طلاق واقع ہونے کے لیے صرف اتناضروری ہے کہ شوہر عاقل بالغ ہو اور طلاق کا کوئی کلمہ ایقاع طلاق کی نیت سے کہے ، اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بیوی سے کہے اور اس میں اس کی بھی مرضی و اجازت شامل ہو ، یوں ہی اس کے لیے گواہ اور ایجاب و قبول وغیرہ کی بھی حاجت نہیں ، اس لیے شوہر جب عاقل بالغ ہو اور کہیں بھی اپنی بیوی کے لیے طلاق کا کوئی کلمہ بول دے تواس پر طلاق واقع ہوجائے گی ۔ موبائل فون کا واسطہ نہ ہو تو سب سمجھتے ہیں کہ طلاق پڑ گئی ، تو بیوی تک آواز رسانی کی آسانی کے لیے اگر وہ موبائل استعمال کرے ، یعنی موبائل پر طلاق دے توضرور طلاق واقع ہوگی ، اس لیے بدر الزماں کی شکایت سنجیدگی کے ساتھ سن کر اسے دور کیا جاۓ ، اور میاں بیوی میں خوش گوار تعلقات بنانے اور نباہ کی ہر ممکن کوشش کی جاۓ گی ، جہاں تک ہو سکے فریقین طلاق سے بچیں کہ یہ اللہ عز و جل کو سخت مبغوض ہے ۔ 
نکاح کے لیے شوہر خود مختار نہیں ہوتا ، بلکہ اس میں عورت کی رضا اور اس کی طرف سے ایجاب یا قبول ضروری ہو تا ہے ۔ ایجاب و قبول کے وقت کم از کم شاہدین ( دو گواہ ) کا وہاں حاضر رہنا اور اسے سننا و سمجھنا ضروری ہو تا ہے ۔ اس لیے فون پر نکاح کی صورت میں تمام ارکان و شرائط پائے جائیں گے تب نکاح ہو گا ۔ اس کے بر خلاف طلاق کے بارے میں شوہر خود مختار ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔


حوالہ : 

ماہنامہ اشرفیہ ، فروری ۲۰۱۶ ء ، صفحہ : ۱۱ ۔


مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے