Advertisement

آغاز محرم ہوا، آمد ماہ محرم پر یادِ شہداے کربلا از فریدی صدیقی مصباحی مسقط عمان


 آغازِ محرم ہوا

آمدِ ماہ محرم پر یادِ شہداے کربلا


 

آغازِ مُحرَّم ہوا ، نَم ہوگئیں آنکھیں
دل روپڑا ، اور چشمۂ غم ہوگئیں آنکھیں

یاد ایسی ، کہ کچھ اور دکھائ نہیں دیتا
کربَل کے تصور میں ہی ضَم ہوگئیں آنکھیں

نکلا ہے کفن باندھ کے خود ذوقِ شہادت
ابرو بنے تلوار ، عَلَم ہوگئیں آنکھیں

ہر ایک حسینی کو نئ تاب ملی ہے
جرات کے اجالوں کا حرم ہوگئیں آنکھیں

پایا ہے شہیدوں نے بل احیآء کا مژدہ
یوں چرخِ بقا پر وہ رقم ہوگئیں آنکھیں

جب مل گیا شبیر کی چاہت کا اجالا
کیا شان کہ تنویرِ اِرَم ہوگئیں آنکھیں

ہے ایسا ادب ، محفلِ کونین میں اُن کا
نام آیا تو سر جھک گیے ، خَم ہوگئیں آنکھیں 

میں اُن کی عطاؤں کے تو لائق ہی نہیں تھا
رونے لگیں اور وجہِ کرم ہوگئیں آنکھیں

ہر وقت شہیدوں کے خیالات میں گم ہیں
ہے ایسا اَلَم ، خود ہی الم ہوگئیں آنکھیں

سب فیصلے اندازِ نظر پر ہوئے موقوف
آیا جو محرم ، تو حَکَم ہوگئیں آنکھیں

یہ رنگ ادب دیکھیے ! الفت کے سفر میں
خود ذوقِ طلب، خود ہی قدم ہو گئیں آنکھیں
 
چمکِیں تو گُہر بن گئیں ایثار و وفا کی
مہکِیں تو گُلِ ناز و نِعَم ہوگئیں آنکھیں 

غیروں میں تو ہنستی رہیں ہر درد چھپا کر
اپنوں نے رکھا ہاتھ تو نَم ہو گئیں آنکھیں

اشکوں سے فریدی نے لکھی ان کی حکایت
کاغذ ہوا دل ، اور قلم ہوگئیں آنکھییں


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

از : فریدی صدیقی مصباحی، بارہ بنکوی، مسقط عمان

 96899633908+

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے