Advertisement

لوگ طلاق کے گواہ ہیں لیکن شوہر اس کا منکر ہے تو ایسی صورت کا کیا حکم ہے؟ طلاق کے مسائل

مسئلہ :  

 ہندہ کی شادی زید کے ساتھ ہوئی تھی ازدواجی زندگی بسر کر رہے تھے اب ہندہ زید کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہے اور ہندہ کے گھروالے کہتے ہیں کہ زید نے طلاق دیدی ہے لیکن یہ بات ہندہ خود نہیں کہتی ہے اور ایک آدمی کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ زید نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے ایک طلاق محرم کے چاند میں دیا تھا اورایک طلاق کسی اور مہینہ میں بتاتا ہے اور زید کہتا ہے کہ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے تو اس صورت میں کس کی بات مانی جائے گی زید کی یا گواہ کی ۔  جو گواہی دینے کے لئے تیار ہے حافظ قرآن ہے لیکن ساتھ ہی وہ چور ہے اور چوری میں پکڑا گیا ہے لیکن قرآن لے کر قسم کھالیا کہ میں نے چوری نہیں کی بعد میں بتایا کہ ہاں میں نے ہی چوری کی تھی اور نہ  نماز کا پابند ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے تو اس صورت میں اس گواہ کی بات مانی جائے گی یا نہیں ؟ اوراگر دوگواہ ہوں ایک تو جو اوپر مذکور ہے اور دوسرا کوئی اور ہے اب دو گواہوں کے سامنے بھی زید کہتا ہے کہ میں قرآن لے کرقسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے تو زید کی بات مانی جائے گی یا دونوں گواہوں کی ؟ 

الجواب : 

 دو مرد یا یک مرد اور دوعورتیں جو متقی اور پرہیزگار ہوں ان کی گواہیوں سے طلاق ثابت ہوگی ایک شخص کی گواہی سے ہرگز نہ ہوگی اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا متقی اور پرہیزگار ہو لہذا شخص مذکور جو گواہی دیتا ہے اگرچہ وہ حافظ قرآن ہے لیکن نماز کا پابند نہیں اور جھوٹ بھی بولتا ہے تو اس کے ساتھ  دوسرا اگرمتقی بھی ہو تب بھی طلاق ثابت نہ ہوگی ۔ اور شوہر اگر طلاق دینے کا انکار کرتا ہے تو بعد قسم اس کی بات مان لی جائے گی، حدیث شریف میں ہے : البينة على المدعى واليمين على من انکر ۔ شوہر اگرجھوٹی قسم کھائے گا تواس کا وبال اس پر ہوگا اور ہندہ اگر جانتی ہے کہ شوہر نے اسے ایک یا دو طلاق بائن دی ہے تو اسے تجدید نکاح پرمجبورکرے اور اگر جانتی ہے کہ اس نے تین طلاقیں دی ہیں تو جس طرح بھی ہو سکے اس سے دور رہے یا علانیہ طلاق حاصل کرے ۔ وھو تعالی اعلم۔ 

حوالہ : 

فتاوی فیض الرسول ، جلد دوم ، صفحہ : ۱۵۶ ، مطبوعہ : شبیر برادرز ، اردو بازار ، لاہور۔


مزید پڑھیں : 



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے