Advertisement

اعتکاف ، شب قدر اور صدقہ فطر کے احکام و مسائل از مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی


اعتکاف ، شب قدر اور صدقہ فطر کے احکام و مسائل



از : سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی

صدر شعبۂ افتا و صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔



 ( ۱ ) اعتکاف  ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان دنیا میں رہ کر بھی دنیا و اہل دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اولاد ، احباب ، اقارب ، یہاں تک کہ بیوی سے بھی کٹ کر خداے وحدہ لا شریک کے ذکر و فکر کے لیے اپنے کو خاص کر لیتا ہے ، اسی لیے معتکاف پر مسجد میں رہنا لازمی قرار دیا گیا ہے کہ خانہ خدا میں رہ کر خدا کی طرف دل و دماغ کا جو جھکاوا اور دنیا سے انقطاع ہو گا وہ کسی اور جگہ نہیں ہو سکتا ۔ خدا نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے کچھ بندے چند روز کے لیے ہی سہی اس کے گھر میں اپنے کو پابند کر کے ایک خدا کی عبادت کے لیے خاص ہو جائیں ۔ 
 امام ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الاعتكاف : هو لزوم المسجد لطاعة الله سبحانه و تعالى على صفة مخصوصة بنية مخصوصة ، و أدلة مشروعيته الكتاب و السنة والإجماع . ( الاستذكار ، ج : ۱۰ ، ص : ٢٦٧ ) 
ترجمہ : اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کے لیے خاص صفت اور خاص نیت کے ساتھ مسجد میں پوری پابندی سے حاضر رہنے کا نام اعتکاف ہے اور اس کی مشروعیت کے دلائل کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور اجماع ہیں ۔
 أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ معتکف پر سنت رسول اللہ سے ثابت یہ ہے کہ نہ مریض کی عیادت کو جائے ، نہ جنازہ میں حاضر ہو ، نہ عورت کو ہاتھ لگائے ، نہ اس سے مباشرت کرے ، نہ وہ کسی حاجت کے لیے جائے ، مگر اس حاجت کے لیے جا سکتا ہے جو ضروری ہے ( جیسے پیشاب ، پاخانہ ، جب کہ مسجد میں انتظام نہ ہو ) اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں اور اعتکاف جماعت والی مسجد میں کرے ۔ ( سنن ابو داؤد ، کتاب الصيام )
 لہذا اعتکاف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے ، اور مسجد کے باہر اجازت دینا اجتماع کی خلاف ورزی ہے جس پر قرآن حکیم میں جہنم کی وعید آئی ہے ۔
رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیت عبادت مسجد میں حاضر رہے ، اور تیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے کے بعد یا انتیسویں کو چاند کا ثبوت ہونے کے بعد مسجد سے نکلے ۔ یہ اعتکاف سنتِ کفایہ ہے کہ آبادی میں ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے کافی ہو گا ۔ 
لہذا لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کی بنا پر اس سال یہ حکم دیا جاتا ہے کہ مسجد میں صرف ایک یا دو آدمی اعتکاف کر لیں ، اور انتظام اس طرح کا رکھیں کہ جماعت پنج گانہ کے افراد زیادہ نہ ہوں ، محدود ہی رہیں ۔
عورتوں کی مسجد ''مسجد بیت'' بھی ہے وہ اس میں اعتکاف کر سکتی ہیں ۔ [ مسجد بیت : گھر کا وہ حصہ جسے عورتیں نماز کے لیے مخصوص کر لیتی ہیں ۔ ]
 ( ۲ ) شب قدر کی تمام عبادتیں اپنے اپنے گھروں میں ادا کر میں اس کے لیے مسجد ضروری نہیں ، تلاوت قرآن پاک کریں ، آذکار مثلاً سبحان الله ، الحمد لله ، الله أكبر پڑھیں ، سجدہ ریز ہو کر دعائیں کریں اور نفل نمازوں کی جگہ قضاۓ عمری پڑھیں کہ اس کا ثواب نفل عبادت سے زیادہ اور فائدہ بہت ہے ، تفصیل کے لیے میری کتاب ' ' مبارک راتیں ' ' پڑھیں ۔ 
( ۳ ) صدقہ فطر : یہ مالک نصاب پر واجب ہے اور یہ قریب بہ اجماع ہے ، نیز اس کا ثبوت سرکار علیہ الصلاۃ والسلام کی صحیح احادیث سے ہے جو صیح بخاری وصحیح مسلم اور مستند رک وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شریعت قیامت تک کے لیے ہے ، در میان میں کبھی منسوخ نہ ہوگی ، لہذا اگر کوئی صدقہ فطر کی معافی کی بات کرے تو اس پر توجہ نہ دی جائے ۔ 
مقدار : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کی مقدار یہ مقرر کی : ایک صاع منقیٰ ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ، یا نصف صاع گیہوں ۔ صاع ایک پیما نہ تھا جس میں گیہوں چار کلو ۹۴ گرام آتا ہے تو نصف صاع دو کلو ۴۷ گرام ہوا ۔ اس کی تحقیق ماہنامہ اشرفیہ سنہ ۲۰۰۴ ء کے دو شماروں میں ہے ۔
جنہیں اللہ نے نوازا ہے انھیں چاہیے کہ صدقہ فطر منقیٰ یا کھجور سے اداکریں ، یا جَو کا دام ، یا جَو دیں ۔ آدھا صاع گیہوں یا اس کا آٹا ، یا اس کا دام دیں گے تو بھی ادا ہو جاۓ گا ۔  مبارک پو اور قرب و جوار کے لیے صدقہ فطر نصف صاع گیہوں یا اس کا آٹا یا چالیس روپے ہے اور بڑھا کر دیں تو بہتر ۔  دوسرے مقامات پر وہاں کے علماے اہل سنت کی طرف سے جو اعلان ہو اس پر عمل کریں ۔  صدقہ مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچے کی طرف سے واجب ہے جب کہ بچہ خود مالک نصاب نہ ہو ، ورنہ اس کا صدقہ اس کے مال سے ادا کیا جاۓ ۔
 خداے پاک سب کی عبادتیں ، تلاوتیں ، روزے ، دعائیں قبول فرماۓ اور سب کو اپنی رحمتوں سے نوازے ، آمین ۔

17 رمضان المبارک 1441 ھ 
11 مئی 2020 ء ۔ یک شنبہ 


مزید پڑھیں : 




ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے