Advertisement

ہندوستانی قومی جھنڈا "ترنگا" کی تاریخ پر ایک نظر از مولانا فیاض احمد برکاتی مصباحی


 ہندوستانی قومی جھنڈا "ترنگا" کی تاریخ پر ایک نظر 



از : فیاض احمد برکاتی مصباحی
جنرل سکریٹری ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ
بلرامپور



‎اس سال پورے ملک میں آزادی کی پچہترویں سال گرہ پورے دھوم دھام سے منائی جارہی ہے ۔ وزیر اعظم کے اعلان کو ملک کے ہر باشندے نے محبت کی نظر سے دیکھا اور ملک کے ہر گھر ، دوکان ، ریسٹورنٹ ، ہوٹل ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، مدارس ، مکاتیب ، دارالعلوم اور جماعات نے اپنی چھتوں ، گاڑیوں اور کاروں پر ترنگا لگایا ۔ کچھ علاقوں سے یہ خبر بھی ملی ہے کہ ترنگا کی کمی محسوس ہونے لگی یعنی جتنی تعداد میں ترنگا تیار ہونا تھا نہیں ہوسکا یا ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق نہیں پہونچ سکا ۔ اس کے فوائد بھی زیر بحث نہیں ہیں حالانکہ ہر ہندوستانی ترنگے کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس کی تعظیم کرتا ہے اونچی سےاونچی جگہ پر آویزاں کرتا ہے ۔ ہر ہندوستانی ملک سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنا کہ بڑے سے بڑا عہدہ پر فائز ہندوستانی کرتا ہے ۔ پندرہ اگست ہم ہندوستانیوں کا قومی تہوار ہے جسے سب مل جل کر مناتے ہیں ۔ آزادی کے نغمے ایک ساتھ گاتے ہیں البتہ جس نغمے کا تعلق آزادی سے نہیں ہے اس پر کچھ فاشسٹ گروہ افتراق کی فضاء ہموار کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔ ملک کی آزادی کے بعد سے ملک کا بچہ بچہ قومی جھنڈے کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، اس کی عظمتوں کا اعتراف کرتا ہے اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی تنظیم آر ایس ایس نے آزادی کے بعد باون سال تک اپنے مرکزی دفتر میں اسے نہیں لگایا ۔ بعض شواہد اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ جب ترنگے کو قومی جھنڈے کے طور پر منظوری مل گئی تو آر ایس ایس نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ " تین رنگی جھنڈا اپ شگونی ہے ، ملک کو اس سے نقصان ہوگا " لیکن پچہتر سال کی تاریخ نے ثابت کردیا کہ نجومی کہلانے والے پنڈت اپنی گنڑت میں فیل ہیں ۔ یا یہ کہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی اچھی چیز پر اپ شگونی کا لیبل لگانا سازشیوں کا خاصہ ہے ۔ 
‎پچھہتر سال بعد بھی آج تک ہماری نسل ترنگے کی تاریخ سے صحیح واقفیت نہیں رکھتی ہے ۔ ترنگے کو ڈیزائن کس نے کیا ؟ کس کے مشورے سے ترنگے کو یہ شکل دی گئی ؟ اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے ؟ آزادی حاصل کرنے والوں رہنماؤں نے اس کام پر کن لوگوں کو مامور کیا ؟ اس کی دستاویزی حیثیت کیا ہے ؟ اس طرح کے بے شمار سوالات تاریخ کے طالب علموں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ۔ آج کی نشست میں ترنگے کے متعلق جنم لینے والے ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ۔ 
‎بڑی مزے دار بات یہ ہے کہ جو سوال آج کے طالب علموں کے ذہن میں ہے، بالکل ٹھیک وہی سوال ملک کو آزادی ملنے کے فوراً بعد بوائز اسکاؤٹ ایسوسی ایشن (انڈیا) کے سامنے بھی آیا تھا اور انہوں نے اس کے متعلق حکومت ہند سے سوال بھی کیا تھا۔یکم ستمبر 1948 کو بوائز اسکاؤٹ ایسوسی ایشن (انڈیا) نے حکومت ہند کے ہوم سکریٹری کو ایک خط لکھ کر کہا کہ ’ہمارے بچے ہمارے قومی پرچم کی تاریخ کو ابتدائی دور سے جاننا چاہتے ہیں ، لیکن اس کی تصدیق شدہ تاریخ ہمیں دستیاب نہیں ہے ۔ اس لیے ہم گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں تصدیق شدہ تاریخ بتائی جائے تاکہ ہم اپنے بچوں کو تاریخ بتاسکیں ایسوسی ایشن کی اس گزارش کے جواب میں حکومت ہند کی وزارت داخلہ نے بتایا کہ وزارت داخلہ میں قومی پرچم کی تصدیق شدہ کوئی تاریخ دستیاب نہیں ہے۔ پرائم منسٹر سکریٹریٹ شاید اس بارے میں کچھ بتا سکے۔ لیکن پرائم منسٹر سکریٹریٹ نے بتایا کہ اس کے متعلق ان کے پاس بھی کوئی معلومات نہیں ہے، اس بارے میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، کونسٹیٹونٹ اسمبلی آف انڈیا سکریٹریٹ بھی اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں دے سکی۔ اس نے بھی بس اتنا ہی بتایا کہ 22 جولائی 1947 کی میٹنگ میں کمیٹی نے اس ڈیزائن کو طے کیا تھا۔اس جانکاری کے مطابق اس کمیٹی میں 13 لوگ شامل تھے جن میں ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا ابوالکلام آزاد، سی گوپالاچاری، سروجنی نائیڈو، کے ایم منشی، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، فرانک انتھونی، پنڈت ہیرالال شاستری، بی۔ پٹابھی سیتارامیہ، سردار بالدیب سنگھ، کے ایم پنیکر، ستیہ نارائن سنہا اور ایس این گپتا کے نام شامل ہیں۔

‎ترنگا اور گاندھی جی 


‎اردو کے ایک قلم کار افروز ساحل ترنگا کی تاریخ کے متعلق اپنی رائے بیان کرتے ہوئے گاندھی جی اور ترنگے کے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔ 
‎      ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جن دنوں ملک میں خلافت تحریک کی شروعات    ہوئی تھی انہی دنوں مدراس پریذیڈنسی (موجودہ آندھرا پردیش) کے مسولی پٹم کے پی وینکیّئا نے عوام کے سامنے ایک کتابچہ پیش کیا تھا۔ اس میں دوسری قوموں کے جھنڈوں کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے قومی پرچم کیلیے بھی نمونے پیش کیے گئے تھے۔ اسی زمانے میں خلافت کمیٹی نے بھی تحریک خلافت کے لیے اپنا جھنڈا تیار کیا۔ یہیں سے مہاتما گاندھی کے ذہن میں آیا کہ اپنے ملک کے لیے بھی ایک الگ جھنڈا ہونا چاہئے جو قوم کی روح کو جگا سکے۔
‎مہاتما گاندھی 13 اپریل 1921 کے ’ینگ انڈیا‘ میں لکھتے ہیں ’تمام ممالک کے لیے جھنڈا ضروری ہے۔ کروڑوں لوگوں نے اس کے لیے جان دی ہے۔ ’یونین جیک‘ کا لہرایا جانا انگریزوں کے دلوں میں ایک ایسا احساس جگاتا ہے، جس کی گہرائی کو ناپنا مشکل ہوگا۔ چاند تارا والا جھنڈا اسلام کی بہادری کی یاد دلاتا ہے۔
‎گاندھی جی اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں، ’تاہم، میں نے ہمیشہ مسٹر پی وینکیّئا کے اس جوش کی تعریف کی ہے جن کے ساتھ وہ گزشتہ چار سالوں سے کانگریس کے ہر اجلاس میں مسلسل قومی پرچم کے سوال کو اٹھاتے رہے ہیں۔ باوجود اس کے میرے دل میں ان کے خیالوں کے تئیں کوئی جوش و جذبہ بیدار نہیں ہوسکا۔ اور انہوں نے جو نمونے پیش کیے ہیں، ان میں مجھے ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا جو قوم کے جذبات کو جگا سکے۔
‎واضح رہے کہ جالندھر کے لالہ ہنسراج نے گاندھی جی کو مشورہ دیا کہ چرخے کو ہمارے سوراجیہ کے جھنڈے میں جگہ ملنی چاہئے۔ گاندھی جی نے اس پر لکھا ’میں ان کی اس تجویز کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ میں نے بیزواڑہ میں پی وینکیّئا سے ایک ایسا نمونہ دینے کو کہا، جس میں سفید، ہرا اور سرخ رنگ کے پس منظر میں چرخا ہو۔ تینوں رنگوں کو برابر رکھا جائے۔
‎ایک رائے یہ بھی ہے کہ قومی جھنڈے ترنگے کو ڈیزائن دینے والے بدرالدین صاحب اور ان کی بیوی ہیں ۔
‎بتایا جاتا ہے کہ بدرالدین طیب جی نے ہی قومی پرچم کے ڈیزائن کو بنایا تھا اور اس میں اشوک کے دھرم چکر کو بیچ میں رکھا تھا۔ بعد ازاں ان کی بیگم ثریہ طیب جی نے اس کی پہلی کاپی تیار کی جسے ہندوستان کی آزادی کی تاریخی رات کو اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی کار پر لہرایا گیا ۔
‎بدرالدین طیب جی کے دادا کا نام بھی بدرالدین طیب جی ہی تھا۔ دادا بدرالدین طیب جی بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کرنے والے پہلے ہندوستانی بیرسٹر اور پھر چیف جسٹس بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ انہوں نے 1867 میں بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کی بطور بیرسٹر شروعات کی اور 1902 میں بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی تاسیس میں اے او ہیوم، ڈبلیو سی بنرجی اور دادا بھائی نوروجی کے ساتھ پیش پیش رہے۔ گاندھی جی انہیں کانگریس کی تاسیس کا محرک مانتے تھے۔
‎ والد جسٹس فیض طیب جی مدراس اور بمبئی کی عدلیہ پر فائز رہے۔ ان کو اسلامی قانون میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ وہیں والدہ سلیمہ نے بھی سماجی کارکن، ماہر تعلیم اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے امتیاز حاصل کیا۔ 1937 میں بمبئی کی مجلس قانون ساز کے لیے چنی گئیں۔ ثریا طیب جی ان کی اہلیہ تھیں۔ وہ خود ایک انڈین سول سروس آفیسر تھے۔ بعد میں 1962 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ اس کے بعد جاپان میں ہندوستانی سفیر بنے۔ جواہرلال نہرو کے خاص دوستوں میں سے تھے اور ان سے کافی گہرے مراسم تھے۔ 
‎ہندوستانیوں کے پاس اس بات کا اگرچہ کوئ ثبوت نہیں ہے کہ جھنڈے کو کس نے ڈیزائن کیا لیکن پوری دنیا کی پرچم کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ، ایڈن برگ میں رہنے والے جنگ اور سلطنت کے مورخ کی حیثیت سے دنیا بھر میں مشہور ٹریور رائل (Trevor Royle) کے مطابق ہندوستان میں اس وقت جس جھنڈے کی پرچم کشائی کی جاتی ہے اس کا ڈیزائن بدرالدین طیب جی نے کیا تھا۔ ٹریور رائل نے یہ بات اپنی کتاب ’دی لاسٹ ڈیز آف راج‘ میں لکھا ہے۔ ان کی یہ کتاب 1989 میں شائع ہوئی تھی۔ ٹریور رائل کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ لیلا طیب جی جو پدم شری بھی ہیں اور ثریا طیب جی کی بیٹی ہیں اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ان کے والد بدرالدین طیب جی نے نہرو کے ہدایت پر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی سربراہی میں فلیگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ بدرالدین طیب جی اس وقت بطور آئی سی ایس آفیسر وزیر اعظم کے دفتر میں کام کر رہے تھے۔
‎لیلا طیب جی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے ہی نہرو کو اشوک کے چکر کا نہ صرف خیال دیا بلکہ والدہ نے جھنڈے کا تصویری نقشہ بھی کھینچا۔ اس مضمون میں لیلا طیب جی کے الفاظ کے مطابق میرے والد نے پہلی بار قومی پرچم کو دیکھا۔ اسے میری ماں کی نگرانی میں دہلی کے کناٹ پیلیس میں واقع ایڈی ٹیلرز اینڈ ڈریپرس سے سلوایا گیا تھا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے