Advertisement

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی


علم غیب مصطفی ﷺ


پہلی قسط


از : مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی
استاذ : جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ، انڈیا ۔



اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا 
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود 
 اللہ تعالی نے اپنے محبوب و مکرم رسولوں بالخصوص نبی آخر الزماں ، خاتم پیغمبراں محمد رسول اللہ ﷺ کو بے شمار غیبی علوم سے نوازا ہے ، قرآن مقدس کی متعدد آیات کریمہ میں اس کا بیان موجود ہے ، نور ایمان سے منور قلوب ، حقیقت شناس نگاہیں اور صالح ذہن و فکر رکھنے والے خوش نصیب افراد اس روشن صداقت کو کسی تاویل و تخصیص کے بغیر تسلیم کرتے ہیں ۔ 
کتب حدیث کے بحر زخار سے علم غیب رسول ﷺ سے متعلق احادیث کی جمع و تدوین اور تخریج و تعلیق کا عظیم الشان کارنامہ اکابر علماے کرام نے سر انجام دیا ہے ، اگر کوئی شخص عظمت رسول اور مقام رسول ﷺ کو پیش نظر رکھے اور غیر جانب دار ہوکر ان دلائل اور بحثوں کا مطالعہ کرے تو وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لے گا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول مرتضی ﷺ کو غیب کا علم عطا فرمایا ہے ۔
 مسلم شریف میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :
 عن حذيفة قال : قام فينا رسول اللہ ﷺ مقاما ، ما ترك شيئا يكون في مقامه ذلك إلى قيام الساعة ، إلا حدث به ، حفظه من حفظہ ونسيه من نسيہ ، قد علمه أصحابي هؤلاء ، وإنه ليكون منه الشيء قد نسيته فأراه فأذكره ، كما يذكر الرجل وجه الرجل إذا غاب عنه ، ثم إذا رآه عرفه . ( الصحيح لمسلم ج : 2 ، ص : 390 ، کتاب الفتن وأشراط الساعة ، مجلس البركات )
اللہ تعالی کے رسول ﷺ ہمارے درمیان ( خطبہ دینے کے لیے ) کھڑے ہوۓ تو آپ نے اس وقت سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا سب بیان فرمادیا ، جس نے یاد رکھا اسے تو یاد ہے اور جو بھول گیا بھول گیا ۔ 
مسلم شریف میں ایک اور حدیث اس طرح ہے :
 عن أبي زيد عمرو ابن أخطب ، قال : صلی بنا رسول اللہ ﷺ الفجر ، وصعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظهر ، فنزل فصلى ، ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت العصر ، ثم نزل فصلى ، ثم صعد المنبر ، فخطبنا حتى غربت الشمس ، فأخبرنا بما كان وبما هو كائن فأعلمنا أحفظنا . ( الصحيح لمسلم ، ج : 2 ، ص : 390 ، کتاب الفتن وأشراط الساعة ، مجلس البركات ) 
صحابی رسول حضرت ابو زید عمرو ابن اخطب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر ہمیں ظہر تک خطبہ دیا پھر منبر سے اتر کر نماز پڑھائی ، پھر منبر پر جاکر خطبہ دینے لگے یہاں تک کہ عصر کا وقت آ گیا ، پھر منبر سے اتر کر نماز پڑھائی ، اس کے بعد پھر منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا ، حضور نبی رحمت نے اس درمیان جو کچھ پہلے ہو چکا اور جو کچھ بعد میں ہوگا کی خبر دے دی ، تو ہم میں زیادہ علم اسے ہے جسے زیادہ یاد رہا ۔ 
عقیدۂ علم غیب رسول ﷺ کوئی نیا اور اختراعی عقیدہ نہیں جیسا کہ درج بالا احادیث سے واضح ہے ، بلکہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی مقدس جماعت میں متعدد خوش نصیب افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے علم غیب رسول ﷺ کی بنیاد پر اسلام قبول کیا ۔
مرور ایام کے ساتھ چودھویں صدی ہجری میں کچھ ناعاقبت اندیش افراد نے بغیر کسی دلیل کے علم غیب رسول ﷺ کو شرکیہ عقیدہ بتانا شروع کیا اور خیر قرن میں جو چیز مسلمان ہونے کا سبب تھی اسے انھوں نے اسلام سے خارج کرنے کا سبب سمجھ لیا اور اپنی اس غلط فکر کی وجہ مسلمانوں کو مشرک اور مرتد سمجھنا اور لکھنا شروع کر دیا ، اللہ تعالی انھیں اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس فاسد خیال پر نظر ثانی کی توفیق عطافرمائے ۔ معتبر اور مستند کتابوں سے چند صحابۂ کرام کے علم غیب رسول ﷺ کی بنیاد پر قبول اسلام کا واقعہ اس امید پر یہاں تحریر کر رہا ہوں کہ شاید اس سے قلب و نظر پر پڑے دبیز پردے کو ہٹانے میں کچھ مددمل سکے ۔ 

( 1 ) حضرت عمیر بن وہب جمحی رضی اللہ تعالی عنہ 

 نام : عمیر ۔ کنیت : ابوامیہ ۔ سلسلۂ نسب یہ ہے : عمیر بن وہب بن خلف بن وہب بن حذافہ بن جمح ۔ ماں کا نام ام سخیلہ تھا ، نانہالی نسب نامہ یہ ہے : ام سخیلہ بنت ہاشم بن سعید بن سہم قرشی ۔
 عمیر قریش کے سربر آوردہ اور بہادر لوگوں میں تھے ، قبول اسلام سے پہلے اسلام اور پیغمبر اسلام کے سخت دشمن تھے ، بدر میں مشرکین کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی نکلے تھے ، مگر اس غزوہ میں انہوں نے جنگ کو ٹالنے کی بڑی کوشش کی ، ابن سعد کا بیان ہے :
 " وقد كان حريصا على رد قريش عن لقي رسول الله ببدر “ [ الطبقات لابن سعد ، ج : 4 ، ص : 151 ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، مؤلف : محمد بن سعد بن منيع هاشمی بصری ]
 لیکن جب اس میں ناکامی ہوئی تو دوسرا طریقہ اختیار کیا کہ قریش سے انصار کی تذلیل کے لیے کہا کہ ان کے چہرے سانپوں کی طرح ہیں ، جو پیاس سے بھی نہیں مرتے ، ان کی یہ مجال کہ ہمارے مقابلہ میں آکر بدلہ لیں ، اس لیے ان روشن و تاباں چہرہ والوں قریش کو ان سے تعارض نہ کرنا چاہیے ، انصار نے جواب دیا یہ خیال چھوڑ دو اور اپنے قبیلہ کو جنگ پر آمادہ کرو ، جب یہ تدبیر بھی ناکام رہی تو مجبورا لڑنا پڑا ۔ [ الاستيعاب في معرفة الأصحاب ٢ / ٤٣٧ مؤلف : ابو عمر ابن عبد البر بن عاصم النمري ناشر : دار الجيل ، بيروت
جس کا نتیجہ قریش کی شکست کی صورت میں ظاہر ہوا اور ان کا لڑکا وہب مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا ۔

 قبول اسلام کا واقعہ :

 حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
 أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ، قال : أخبرنا أبو جعفر محمد بن محمد بن عبد الله البغدادي قال : أخبرنا أبو علاثة محمد بن عمرو بن خالد قال : حدثنا أبي قال : أخبرنا ابن لهيعة ، عن أبي الأسود ، عن عروة بن الزبير ، ( ح ) وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان ، ببغداد قال : أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن عتاب قال : أخبرنا القاسم بن عبد الله بن المغيرة ، قال : أخبرنا ابن أبي أويس ، قال : أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة ، عن عمه موسى بن عقبة في كتاب المغازي قال : ... ولما رجع فل المشركين إلى مكة قد قتل الله من قتل منهم ، أقبل عمير بن وهب الجمحي حتى جلس إلى صفوان بن أمية في الحجر ، فقال صفوان : قبح لك العيش بعد قتلي بدر ؟ قال : أجل ، والله ما في العيش خير بعدهم ، ولولا دين علي لا أجد له قضاء ، وعيال لا أدع لهم شيئا ، لرحلت إلى محمد فقتلته إن ملأت عيني منه ، فإن لي عنده علة أعتل بها ، أقول قدمت على ابني هذا الأسير . ففرح صفوان بقوله وقال : علي دينك ، وعيالك أسوة عيالي في النفقة ، لا يسعني شيء ويعجز عنهم ، فحمله صفوان وجهزه وأمر بسيف عمير فصقل وسم ، وقال عمير لصفوان : اكتمني أياما ، فأقبل عمير حتى قدم المدينة فنزل بباب المسجد وعقل راحلته وأخذ السيف ، فعمد لرسول اللہ ﷺ ، فنظر إليه عمر بن الخطاب وهو في نفر من الأنصار يتحدثون عن وقعة بدر ويذكرون نعمة الله عز وجل فيها ، فلما رآه عمر معه السيف فزع و قال : عندكم ، الكلب هذا عدو الله الذي حرش بيننا يوم بدر وحزرنا للقوم ، ثم قام عمر فدخل على رسول اللہ ﷺ فقال : هذا عمير بن وهب قد کا دخل المسجد متقلدا السيف ، 

جاری 


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے