Advertisement

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوتھی قسط از مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی


علم غیب مصطفی ﷺ


ماقبل سے پیوستہ

چوتھی قسط


از : مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی
استاذ : جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ، انڈیا ۔

 

( 5 ) زید بن لصیت کا قبول اسلام : 

رسول اللہ ﷺ کے وسعت علم پر اعتراض کرنا منافقین کا شیوہ ہے ، کوئی اہل ایمان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔
 غزوۂ مریسیع سے واپسی کے وقت جب لشکر اسلام مدینہ طیبہ کے نزدیک پہنچا تو شدید آندھی آئی یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے تیز جھونکے سواروں کو بھی زمین میں دفن کر دیں گے ، حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک منافق مر گیا ہے اس لیے یہ سخت آندھی آئی ہے ۔ ( الصحيح لمسلم ، کتاب صفات المنافقين وأحكامهم ، رقم الحديث : 7041 )
 اس آندھی میں حضور اکرم ﷺ کی ایک اونٹنی گم ہوگئی ، تلاش بسیار کے باوجود کہیں نہ ملی ۔ زید بن لُصَیت نامی ایک منافق انصار کی مجلس میں بیٹھا تھا ، اس نے کہا : یہ لوگ کس چیز کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اسے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی گم ہوگئی ہے ، اسی کو تلاش کر رہے ہیں ، وہ کہنے لگا : وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں غیب کا علم ہے اور ان کے پاس اللہ تعالی کی جانب سے وحی آتی ہے ۔
 أفلا تحدثه الله بمكان راحلته ؟ 
کیا اللہ تعالی اس جگہ سے آپ ان کو خبر دار نہیں کرتا جس جگہ ان کی اونٹنی ہے ۔
 اس کا یہ جواب سن کر انصار نے کہا : اے خدا کے دشمن ! اللہ رب العزت تمھیں ہلاک کرے ، تم منافق ہو ۔
 حضرت اسید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اسے جھڑکتے ہوئے ارشاد فرمایا : اگر مجھے حضور اکرم ﷺ کی ناراضگی کا خوف نہ ہوتا تو میں تیرے خصیوں سے نیز ہ پار کر دیتا ۔ اگر تمھارے دل میں ایسی باتیں ہیں تو پھر تم ہمارے ساتھ آۓ ہی کیوں تھے ، میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ ، اب ہم تمھارے ساتھ ایک درخت کے سائے میں بھی نہیں بیٹھ سکتے ۔ اس نے کہا : میں توان کے ساتھ صرف دنیا حاصل کرنے کے ارادے سے آیا ہوں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اسے قتل کرنا چاہا ۔ یہ دم دبا کر وہاں سے فرار ہو گیا اور حضور رحمت عالم ﷺ کے پاس پناہ لینے کے لیے آ گیا ، غیب داں رسول نے اس کو سناتے ہوئے ارشاد فرمایا :
 إن رجلا من المنافقين شمت أن ضلت ناقة رسول اللہ ﷺ فقال : أفلا يحدثه الله بمكان راحلته ؟ وإن الله عز وجل قد حدثني بمكانها ولا يعلم الغيب إلا الله وإنّها في هذا الشعب المقابل لهم قد تعلق زمامها بشجرة .
 ایک منافق نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ رسول اللہ کی اونٹنی گم ہوگئی ہے اور اس نے کہا ہے کہ کیا اللہ تعالی ان کو اس کی جگہ سے آگاہ نہیں کرتا ۔ سن لو ! بے شک اللہ رب العزت نے مجھے اس کی جگہ سے باخبر کر دیا ہے ، اور غیب کا ذاتی علم صرف اللہ تعالی کو ہے ۔ وہ اونٹنی اس گھاٹی میں تمھارے سامنے ہے ، اس کی نکیل اس درخت کے ساتھ پھنسی ہوئی ہے ، سیدھے وہاں چلے جاؤ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین حضور سرور کائنات ﷺ کے ارشاد کے مطابق وہاں گئے اور اونٹنی کو وہاں سے پکڑ کر لے آئے ۔ 
زید بن لصیت نے جب یہ سنا تو وہاں سے فورا اٹھا اور انصار کی اس جماعت کے پاس آیا جن کے سامنے اس نے ہرزہ سرائی کی تھی ، وہ سب اسی جگہ بیٹھے تھے ، ان میں سے کوئی شخص کہیں نہیں گیا تھا ، زید نے ان سے کہا : خدا کے واسطے مجھے صحیح بات بتاؤ ، کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تھا اور اس نے سرور کائنات ﷺ کو ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا ہے ؟ انصار نے کہا : یہاں سے کوئی نہیں گیا ہے ، تم دیکھ رہے ہو کہ سب ابھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ زید نے کہا : 
فإني وجدت عند القوم حديثي ، والله لكأني لم أسلم إلا اليوم وإن كنت في شك من شأنه فأشهد أنه رسول اللہ ﷺ .
 رسول اللہ ﷺ کو ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو کاعلم ہے اس سے پہلے میں شک میں مبتلا تھا لیکن آج میں سچے دل سے ایمان لاتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ 
زید حضور ﷺ کے اس وسعت علم کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے ۔ انصار نے ان سے کہا : تم رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں جاؤ اور اپنے لیے مغفرت کی دعا کا عریضہ پیش کرو ۔ زید رسول اللہ ﷺ کی مقدس بار گاہ میں حاضر ہوۓ اور اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے بخشش کی دعا فرمائی ۔ ( السیرۃ الحلبية ، ج : 2 ، ص : 290 ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت - دلائل النبوة لأبي نعيم الأصفهاني ، ج 2 ، ص : 515 ، دار النفائس ، ضیاء النبي ، ج : 3 ، ص : 643 ، 644 )

( 6 ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ :

 حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے ۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلۂ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جا کر آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ کے نسب سے جا ملتا ہے ۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے ۔ ( المعجم الكبير نسبة أبي بكر الصديق و اسمه )

 والدین کریمین : 

آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے والد محترم کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر قرشی تیمی ہے ۔ کنیت ابو قحافہ ہے ۔ آپ فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور سرور کائنات ﷺ کی بیعت کی ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان کے وارث ہوئے ۔ آپ نے خلافت فاروقی میں وفات پائی ۔ ( تهذيب الأسماء واللغات ، للإمام النووي ، 1 : 296  )
آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے ۔ کنیت " ام الخیر " ہے ۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے والد کے چچا کی بیٹی ہیں ۔ ابتداے اسلام میں ہی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں ۔ مدینہ منورہ میں جمادی الآخرہ 13 ہجری میں وفات پائی ۔ ( الإصابة في تمييز الصحابة ، 8 : 386 )

فضیلت : 

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خود بھی صحابی ، ان کے والد حضرت ابوقیافہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی ، آپ کے تینوں بیٹے ( حضرت عبد اللہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی ، آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پوتے بھی صحابی ، آپ کی بیٹیاں ( حضرت سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا، حضرت سید اسما رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا بنت ابی بکر ) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے ۔ 
حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کر کے شرف صحابیت حاصل کیا ۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں :
 ابو قحافہ عثمان بن عامر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، ابوبکر عبد اللہ بن عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، محمد بن عبد الرحمن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ۔ ( المعجم الكبير ، نسبة أبي بكر الصديق واسمه ، الرقم : 11 )
 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ : 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ قدیم و جدید کثیر علماے کرام نے تحریر کیا ہے ، ماضی قریب کے مستند عالم دین ، رئیس القلم علامہ ارشد القادری رحمہ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے بھی امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ زیب قرطاس  کیا ہے ، وہ واقعہ ان ہی کے پر کشش اور سحر انگیز الفاظ میں ملاحظہ کریں ، اس کے بعد ہم اس کی تخریج اور اس سے متعلق کچھ عربی عبارتیں پیش کریں گے ۔
 سرور کائنات ﷺ کی عمر شریف کا چالیسواں سال تھا ۔ خاک دان گیتی میں رسالت محمدی کے اعلان کا وقت اب بہت قریب آ گیا تھا ، کائنات کا ذرہ ذرہ فاران کی چوٹی سے نشر ہونے والے پیغام کے لیے گوش بر آواز تھا ۔


جاری

نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے