Advertisement

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیسری قسط از مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی


علم غیب مصطفی ﷺ


ماقبل سے پیوستہ

تیسری قسط


از : مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی
استاذ : جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ، انڈیا ۔



 ( 2 ) حضرت عباس بن عبدالمطلب :

 یہ رسول کریم ﷺ کے چچا ہیں ، آپ کا اسم گرامی عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے ، کنیت ابو الفضل ہے - عام الفیل سے تین سال پہلے پیدا ہوئے ۔ حضرت عباس قریش کے نام ور فرد تھے ۔

 حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ : 

اللہ رب العزت نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی عطا کی ۔ اسیران جنگ میں ایک نام عباس بن عبد المطلب کا بھی تھا ۔ جب مسلمانوں سے حضوراکرم ﷺ نے ان قیدیوں کے لیے مشورہ کیا اور طے پایا کہ فدیہ لے کر آزاد کر دیا جاۓ ۔ حضور اکرم ﷺ نے عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا : آپ بھی آزاد ہونا چاہتے ہیں تو چار سو در ہم فدیہ دیجیے اور آزاد ہو جائیے ۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا : اے محمد ﷺ ! میرا کاروبار اس وقت مندا چل رہا ہے ، میرے پاس اتنا مال نہیں کہ میں اس قدر فدیہ اداکر سکوں ۔
 فقال عليه السلام له : " أين المال الذي دفنته أنت و أم الفضل ۔"
حضور سراپا نور ﷺ نے فرمایا : ” اے پچا ! وہ مال کدھر گیا جو آپ نے ہماری چچی ام الفضل کے ساتھ مل کر کمرے میں گاڑ رکھا ہے ور ہدایت کی ہے کہ اگر میں میدان کارزار میں ختم ہو گیا تو یہ مال میرے بیٹوں فضل ، عبداللہ ، اور قثم کے حوالے کر دینا “ ۔
حضرت عباس بن عبد المطلب نے جب یہ سنا تو فورا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور کہا : 
" والله إني لأعلم أنك رسول الله ، إن هذا شيء ما علمه إلا أنا و أم الفضل ."
” اس بات کا علم میرے اور ام الفضل کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا ، جب آپ مدینہ میں بیٹھ کر مکہ میں ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو کو بتا سکتے ہیں تو یقینا آپ اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں “ ۔ ( السيرة الحلبية ، ج : ۲ ، ص : ١٩٨ ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت . دلائل النبوة لأبي نعيم الأصفهاني ، ج : ۲ ، ص : ۴۷۶، دار النفائس . سبل الهدى ، ج ۴ ، ص : ١٠٥ ) 

( 3 ) نوفل رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام :

 بدر کے قیدیوں میں ایک نام نوفل کا بھی تھا ، یہ رسول کریم ﷺ کے چچا زاد ہیں ، نبی کریم ﷺ نے اس سے فدیہ کا مطالبہ کیا اور ارشادفرمایا :
 نفسك بأرماحك التي بجدة ، فقال : أشهد أنك رسول الله ، والله ما أحد يعلم أن لي بجدة أرماحا غير الله تعالى .
 جدہ میں جو تمھارے نیزے رکھے ہیں وہ فدیہ کے طور پر دے دو ہم تمہیں آزاد کر دیں گے ۔ نوفل یہ سن کر ہکابکا ہو گیا ، کہنے لگا : اس بات کا علم میرے علاوہ کسی کو نہیں تھا ، اگر آپ کو اس راز کا علم ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں ۔
 جدہ میں ان کے ایک ہزار نیزے تھے وہ سب انھوں نے بطور فدیہ دے دیا ۔ ( السيرة الحلبية ، . ج : 2 ، ص : 199 ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت ، سبل الهدى ، ج : 4 ، ص : 105 )

( 4 ) حارث بن ابی ضرار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ :

  حارث بن ابی ضرار کی کنیت ابو مالک ہے اور ان کا شجرہ نسب اس طرح ہے :
حارث بن ابی ضرار بن عائذ بن مالک بن خزیمہ بن سعد بن کعب بن عمرو بن ربیعہ بن حار پی مصطلقی ۔ 
یہ ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کے والد ہیں ۔ 
رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو مصطلق کے رئیس حارث بن ابی ضرار نے اپنی قوم کے جوانوں کو اور گرد و نواح میں آباد دوسرے قبائل کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بر انگیختہ کیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں بدو لوگ اس کی دعوت پر اکٹھے ہو گئے ہیں ، اپنی جنگی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد چند روز میں وہ حملہ کرنے کے لیے روانہ ہو جائیں گے ۔ اس اطلاع کی تصدیق کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے حضرت بریدہ بن حُصیب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا ، انھوں نے واپس آکر ان کی جنگی تیاریوں کی تصدیق کر دی ۔ سرور کائنات ﷺ نے فرزندان اسلام کو انھیں روکنے کی دعوت دی ، چشم زدن میں سینکڑوں کی تعداد میں اسلام کے سرفروش پوری طرح تیار ہو کر حاضر ہو گئے ۔ حارث کو جب اس کی اطلاع ملی کہ سرور کائنات ﷺ اپنے سرفروشوں کا لشکر لے کر اس کی سرکوبی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں تو اس کے اور اس کے ساتھیوں کے ہوش اڑ گئے ، ارد گرد کے قبائل کے جو بدو اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے وہ رفو چکر ہو گئے ۔حارث اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کے ساتھ اپنی حماقت کی سزا بھگتنے کے لیے وہاں اکیلا رہ گیا ۔ نبی کریم ﷺ کی پیش قدمی جاری رہی یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ مریسیع کے چشمے پر پہنچ گئے اور قلیل وقت میں ان کے دس آدمی قتل کر دیے گئے اور باقی سب کو گرفتار کر لیا گیا ۔

 حارث بن ابی ضرار کا قبول اسلام : 

اس غزوہ میں دو ہزار اونٹ ، پانچ ہزار بکریاں مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر ملی تھیں ، ان کے علاوہ بہت سے مرد و زن جنگی قیدیوں کی حیثیت سے مسلمانوں کے ہاتھ آۓ ، ان قیدیوں میں قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ بھی موجود تھی ۔ مال غنیمت کی تقسیم کے بعد وہ سینا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصے میں آئی ، جویریہ نے ان سے اپنے بارے میں مکاتبت کر لی ۔

 نوٹ :

 مکاتب اس غلام اور مکاتبہ اس لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ طے کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم مالک کو ادا کر کے آزاد ہوجاۓ گا/ہوجاۓ گی ۔
اس کے بعد جویر یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا : اےا للہ کے رسول ! میں حارث کی بیٹی جویریہ ہوں ، میرا معاملہ آپ سے مخفی نہیں ہے ، میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے اپنے بارے میں مکاتبت کر لی ہے ۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئی ہوں کہ آپ اس بارے میں میرے ساتھ تعاون فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس سے بہتر معاملہ پسند نہیں کرتی ہو ؟ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ” میں تمھاری طرف سے تمھاری رقم اداکر دیتا ہوں اور آپ سے شادی کر لیتا ہوں ۔ “ انھوں نے کہا : میں راضی ہوں ۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سیدہ جویریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے اس وقت اسلام قبول کر لیا ۔
 قبول اسلام کے بعد نبی کریم ﷺ نے حضرت جویریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے رقم ادا کی ، اور حضرت جویریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کو اپنی ازواج مطہرات میں شامل فرما کر "ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا" بنادیا ۔ 
کچھ روز بعد حارث بن ابی ضرار اپنی بیٹی کا فدیہ ادا کرنے کے لیے اونٹوں کا ایک گلہ اپنے ہمراہ لے کر مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوۓ جب وادی عقیق میں پہنچے اور اپنے اونٹوں پر نظر ڈالی ، ان میں سے دو اونٹ بہت اعلی نسل کے تھے جو انھیں بہت پسند آۓ اور انھوں نے ان دونوں اونٹوں کو ایک گھائی میں چھپا دیا تاکہ واپس ہوتے وقت ان کو اپنے ساتھ لے جا سکیں ۔ پھر بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یار سول اللہ ﷺ ! میں اپنی بیٹی کا فدیہ ادا کرنے کے لیے یہ اونٹ لایا ہوں ، انہیں قبول فرما لیں اور میری بچی کو آزاد فرمائیں ، غیب داں رسول نے ان اونٹوں کو دیکھ کر فرمایا :
 « فأين البعيران اللذان غيبت بالعقيق في شعب كذا وكذا » . 
” ان دونوں اونٹوں کا کیا بنا جن کو تم وادی عقیق کی گھاٹی میں چھپ کر آئے ہو ۔ “ 
حارث بن ابی ضرار یہ سن کر حیران و ششدر رہ گیا اور بے ساختہ پکار اٹھا :
 " أشهد أن لا إله إلا الله وأنك محمد رسول الله “ .
 میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ 
فوالله ما اطلع على ذلك إلا الله فأسلم الحارث وأسلم معه ابنان و ناس من قومه . 
اللہ رب العزت کی قسم ! یقینا ان اونٹوں کے بارے میں اللہ تعالی نے آپ کو مطلع فرمادیا ، پھر حارث ، اس کے دو بیٹے اور اس کے قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے ۔ ( السيرة الحلبية ، ج : ۲ ، ص : ۲۸۲ ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت ) ۔

جاری 




نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے