Advertisement

علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری قسط از مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی


علم غیب مصطفی ﷺ


ماقبل سے پیوستہ

دوسری قسط


از : مفتی محمود علی مشاہدی مصباحی
استاذ : جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ، انڈیا ۔


 
وهو الفاجر الغادر يا نبي الله ، لا تأمنه على شيء ، فقال رسول اللہ ﷺ : « أدخله علي » ، فخرج عمر فأمر أصحابه أن يدخلوا على رسول اللہ ﷺ ، ثم يحترسوا من عمير إذا دخل عليهم ، فأقبل عمر و عمير حتى دخلا على رسول اللہ ﷺ ، ومع عمير سيفه ، فقال رسول الله ﷺ لعمر تأخر عنه ، فلما دنا منه عمير قال : أنعموا صباحا - وهي تحية أهل الجاهلية – فقال رسول الله ﷺ : « قد أكرمنا الله عن تحيتك ، وجعل تحيتنا تحية أهل الجنة و هي السلام » ، فقال عمير : إن عهدك بها لحديث ، فقال رسول اللہ ﷺ : « قد أبدلنا الله خيرا منها فما أقدمك يا عمير ؟ » قال : قدمت على أسير من عندكم ، ففادونا في أسرائنا ، فإنكم العشيرة و الأهل . فقال رسول اللہ ﷺ : « فما بال السيف في عنقك ؟ » قال عمير : قبحها الله من سيوف ، فهل أغنت عنا شيئا ؟ إنما نسيته في عنقي حين نزلت ، ولعمري إن لي بها عبرة . فقال رسول اللہ ﷺ : « اصدقني ما أقدمك ؟ » قال : ما قدمت إلا في أسيري ، قال رسول اللہ ﷺ : « فماذا شرطت لصفوان بن أمية في الحجر ؟ » ففزع عمير و قال : ماذا شرطت له ؟ قال : « تحملت له بقتلى على أن يعول بنيك ويقضي دينك ، والله تعالى حائل بينك وبين ذلك » ، قال عمير : أشهد ألا إله إلا الله وأشهد أنك رسول الله ، كنا يا رسول الله نكذبك بالوحي وبما يأتيك من السماء ، وإن هذا من الحديث كان بيني و بين صفوان في الحجر كما قال رسول اللہ ﷺ لم يطلع عليه أحد غيري وغيره ، فأخبرك الله عزوجل به ، فآمنت بالله ورسوله ، و الحمد الله الذي ساقني هذا المساق . ففرح به المسلمون حين هداه الله تعالى ، وقال عمر : والذي نفسي بيده لخنزير كان أحب إلي من عمير حين طلع ، و لهو اليوم أحب إلي من بعض ولدي . وقال رسول اللہ ﷺ : « اجلس يا عمير نواسيك » ، وقال لأصحابه : علموا أخاكم القرآن ، وأطلق له رسول اللہ ﷺ أسيره ، فقال عمير : يا رسول الله ، قد كنت جاهدا ما استطعت على إطفاء نور الله تعالى ، فالحمد لله الذي ساقني هذا المساق و هداني ، فأذن لي فألحق بقريش فأدعوهم إلى الله وإلى الإسلام ، لعل الله تعالى أن يهديهم و يستنقذهم من الهلكة . فأذن له رسول اللہ ﷺ فلحق بمكة ، وجعل صفوان بن أمية يقول لقريش : أبشروا بفتح ينسيكم وقعة بدر ، وجعل يسأل كل راكب قدم من المدينة : هل كان بها من حدث ؟ وكان يرجو ما قال له عمير حتى قدم عليهم رجل من المدينة فسأله صفوان عنه فقال : قد أسلم ، فلعنه المشركون ، وقالوا : صبأ . 
عروہ بن زبیر اور موسی بن عتبہ سے روایت ہے : جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بدر سے مکہ واپس آئے ، اور بحکم خداوندی ان میں سے بہت سے سربر آوردہ افراد قتل ہو چکے تھے ، تو عمیر بن وہب جماحی صفوان بن امیہ کے پاس آیا ، وہ دونوں حجر اسود کے پاس بیٹھ کر بات کرنے لگے ۔ صفوان نے کہا : بدر میں قتل ہونے والوں کی وجہ سے ہماری زندگی انتہائی قبیح اور بد مزہ ہوگئی ہے ۔ عمیر نے کہا : ہاں ! ایساہی ہے ، ان کے قتل ہونے کے بعد اب زندگی میں کوئی بھلائی باقی نہیں رہی ۔ اگر میرے ذمہ یہ قرض نہ ہوتا ۔ جس کی ادائگی کی ابھی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ اور مجھے اپنے اہل و عیال کی فکر دامن گیر نہ ہوتی جن کا میری عدم موجودگی میں کوئی یار و مددگار نہیں ہے ۔ توضرور میں محمد ( ﷺ) کے پاس جاتا اور ان کو قتل کر کے آجاتا اور میرے پاس ان سے قریب جانے کا ایک بہانہ بھی ہے ، میں وہی بہانہ پیش کر کے ان سے قریب ہوجا تا ۔ میں ان سے کہتا کہ میں اپنے قیدی بیٹے سے ملنے آیا ہوں ۔
 اس کی باتیں سن کر صفوان بہت خوش ہوا اور اس سے کہا : تمھارا قرض میرے ذمہ ہے اور تمھارے اہل و عیال بھی میرے بچوں کی طرح میرے سر پرستی میں رہیں گے ، میں ان کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ، صفوان نے عمیر کو اس کام کے لیے آمادہ کیا ، سامان سفر تیار کیا ، عمیر کی تلوار صیقل کرائی اور اسے زہر آلود کیا ۔ عمیر نے صفوان سے کہا : ہمارے اور تمھارے درمیان ہونے والی اس گفتگو کو ابھی کسی پر ظاہر نہ کرنا ، پھر عمیر سفر کرتا ہوا مد بینہ منورہ پہنچا ، مسجد نبوی کے دروازے پر اپنی سواری سے اترا ، اپنی سواری باندھی ، اپنی تلوار سنبھالی اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے لگا اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر اس پر پڑگئی۔ وہ انصار کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھ کر بدر کے واقعے کے سلسلے میں بات کر رہے تھے اور اللہ تعالی کی نعمت کا ذکر کر رہے تھے ۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عمیر کے پاس تلوار دیکھی تو گھبرا گئے اور کہا : تم لوگوں کے پاس یہ کتّا پہنچ گیا ہے ، یہ اللہ تعالی کا دشمن ہے جس نے بدر کے میدان میں دشمنوں کو ہمارے اوپر چڑھائی کے لیے آمادہ کیا ۔
 اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور اندر جاکر رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ عمیر بن وہب مسجد میں گھس آیا ہے ، اس نے تلوار بھی لٹکا رکھی ہے ، اور وہ شخص فاجر اور دغاباز ہے، یارسول اللہ ﷺ  ! آپ کسی طرح اس سے بے فکر نہ رہیں ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : اسے میرے  پاس اندر لے آؤ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ باہر تشریف لائے اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ تم اندر جاؤ اور جب عمیر اندر جاۓ تور سول اللہ ﷺ کا خصوصی خیال رکھو ، پھر عمیر کے پاس آئے اور اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ، اس وقت عمیر کے پاس اس کی تلوار بھی تھی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا : پیچھے ہٹ جاؤ ۔ جب عمیر رسول اللہ ﷺ کے قریب ہوا تو اس نے کہا : "أنعموا صباحا" ( صبح بخیر ) یہ جاہلیت کا سلام تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا : اللہ تعالی نے ہمیں تمھارے سلام سے مستغنی کر دیا ہے اور جنتیوں کا سلام ہمارا سلام مقرر کیا ہے اور وہ « السلام » ہے ۔ اس پر عمیر نے کہا : ابھی تو چند ہی دنوں سے تم یہ سلام کرنے لگے ہیں ۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت نے ہمیں بہت بہتر بدل عطا فرمایا ہے ۔ تم یہ بتاؤ کہ یہاں کس لیے آۓ ہو ؟ عمیر نے نے کہا : میرے قیدی جو تمھارے پاس ہیں انھیں لینے کے لیے آیا ہوں ، تم ہمارے قبیلہ اور خاندان کے ہو ہمارے قیدیوں کا فدیہ لے لو اور ان کو چھوڑ دو ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : گردن میں یہ تلوار کیوں آویزاں ہے ؟ عمیر نے جواب دیا : اللہ ان تلواروں کا ستیاناس کرے ، ان تلواروں نے ہمیں کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ، بات اتنی سی ہے کہ جب سواری سے اترا تواس کو رکھنا بھول گیا اور گردن میں لٹکی رہ گئی ۔ میری زندگی کی قسم میرے لیے اس میں عبرت اور نصیحت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سچ سچ بتاؤ کہ تمھارے آنے کا مقصد کیا ہے ؟ عمیر نے کہا : اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے آیا ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حجر اسود کے پاس بیٹھ کر تم نے صفوان بن امیہ کے ساتھ کیا شرط لگائی ہے ؟ ۔ یہ سن کر عمیر گھبرا گیا ، اور کہنے لگا کہ میں نے تو کوئی شرطا نہیں لگائی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم نے اس شرط پر میرے قتل کی ذمہ داری لی ہے کہ صفوان بن امیہ تیرے اہل و عیال کی کفالت کرے گا اور تیرا قرض بھی ادا کرے گا ، مگر میرے اور تیرے در میان اللہ تعالی حائل ہے ۔ یہ سن کر عمیر نے کہا : « أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أنك رسول الله » ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں ۔
 حضرت عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : یار سول اللہ ﷺ ہم وحی کے بارے میں اور آسمان سے جو کچھ آپ لاۓ ہیں اس کی تقریب کرتے تھے ، یقینا حجر اسود کے پاس ہمارے اور صفوان بن امیہ کے در میان یہی بات طے پائی تھی جو آپ نے بیان فرمائی ہے اور میرے اور صفوان کے علاوہ کوئی اور اس بات کو نہیں جانتا تھا ، پھر اللہ رب العزت نے آپ کو آگاہ کر دیا ، میں اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لایا ، اللہ تبارک و تعالی کا شکر ہے اور وہی ستائش کے لائق ہے ، اس نے مجھے حق کا راستہ دکھایا ۔ 
عمیر کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کو بہت خوشی حاصل ہوئی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جس وقت عمیر یہاں آیا مجھے اس سے خنزیر سے زیادہ نفرت تھی مگر آج وہ میرے بعض بیٹیوں سے زیادہ مجھے عزیز ہے ۔ 
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : عمیر ! بیٹھ جاؤ ، ہم تمھارے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کو قرآن سکھاؤ اور پھر ان کے قیدی کو بھی آزاد کر دیا ۔ 
حضرت عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ ایمان لانے سے پہلے میں نور الہی ( اسلام ) کو مٹانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہا تھا ، پھر اللہ تعالی نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا اور مجھے ہدایت سے نوازا ، میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں قریش کے پاس جاکر انھیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف بلاؤں ( تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دوں ) ، اللہ تعالی کی رحمت سے مجھے امید ہے کہ انھیں بھی ہدایت دے گا اور انھیں ہلاکت سے بچالے گا ، آقاے کریم ﷺ نے انھیں اجازت مرحمت فرمائی پھر وہ مکہ تشریف لے گئے ۔
 صفوان بن امیہ مکہ میں ان کی جانب سے خبر کا منتظر تھا وہ قریش سے کہتا تھا : تمھارے پاس ایسی خبر آنے والی ہے کہ تم بدر کا واقعہ بھول جاؤ گے ، مدینہ سے آنے والے ہرشخص سے وہ سوال کرتا تھا کہ کیا وہاں کوئی نئی بات رونما ہوئی ہے ، اسے امید تھی کہ عمیر نے جو اس سے کہا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا ۔ ایک شخص مدینہ سے مکہ آیا ، صفوان بن امیہ نے اس سے عمیر کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ تو مسلمان ہو گیا ہے ، مشرکین مکہ نے عمیر کو برابھلا کہنا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ بھی وہاں جا کر اپنے دین سے پھر گیا  ۔

جاری



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے