Advertisement

ہم نے بھی لہو دے کر گلشن کو سنورا ہے از مولانا محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی

 

ہم نے بھی لہو دے کر گلشن کو سنورا ہے



از: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی ، رام گڑھ ۔
ڈائریکٹر: مجلس علماے جھارکھنڈ و ڈائریکٹر الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ۔



وطن عزیز ہندوستان کی "جنگ آزادی" تاریخ میں ایک اہم باب ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا.
ہمارا ملک 15/اگست 1947ء کو آزاد ہوا. جب بھی یہ تاریخ ہم ہندوستانیوں کے درمیان آتی ہے تو اسے ہم ایک جشن اور تہوار کی طور پر مناتے ہیں اور اپنے ان تمام مجاہدین آزادی کو جنھوں نے وطن کی آزادی کے لیے اپنے جان و تن کو نچھاور کر دیا، اپنی جانوں کی قربانی پیش کی، انھیں ہم یاد کرتے ہیں اور ان کی بارگاہ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں.
جنگ آزادی میں جہاں دیگر برادران وطن نے حصہ لیا وہی مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا بلکہ وطن عزیز کی آزادی کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی، ہمارے پیارے ملک ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار سنہرے باب کی حیثیت رکھتا ہے. جنگ آزادی میں جاں باز مسلمانوں کا جوش و ولولہ، عزم و ہمت، ایثار و قربانی ایک ناقابل فراموش داستان ہے.
1754ء سے لے کر 1947ء تک سالہا سال کی عظیم محنت اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد ہمارا ملک ہندوستان ظالم انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہواہے.
قارئین ! جشن کے اس موقع پر جنگ آزادی میں اپنی جان نچھاور کرنے والوں کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو ہمارے بڑے بڑے اور جید علمائے کرام کا کہیں بھی تذکرہ تک نہیں آتا. حیرت ہوگی جب آپ سنیں گے یا پڑھیں گے تو، کہ مسلمانوں اور ان میں علماے کرام نے جنگ آزادی میں کتنا اہم اور قائدانہ کردار ادا کیا ہے، بلکہ انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا. 
جب انگریزوں نے پورے بھارت پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد انھوں نے جو بربریت اور ظلم و ستم کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی ہے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے.
1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے بحیثیتِ مجموعی جس شدت سے انگریز مخالفت کا ثبوت دیا تھا اس سے انگریزوں کی آنکھیں کھل گئیں. انگریز اچھی طرح جانتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بہتر قوم ہے. "ہنٹر نامی" انگریز مؤرخ اپنی کتاب میں لکھتا ہے :  "حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ملک ہمارے قبضہ میں آیا تو مسلمان ہی سب سے اعلیٰ قوم تھی. وہ دل کی مضبوطی اور بازوؤں کی توانائی ہی میں برتر نہ تھے بلکہ سیاسیات اور حکومت عملی کے علم میں بھی سب سے افضل تھے"-
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، علامہ فضل حق خیر آبادی و دیگر علمائے کرام نے تحریک آزادی 1857ء سے پہلے ہی شروع کر رکھی تھی لیکن باضابطہ طور سے اس کا اعلان 1857ء ہی میں دہلی کی جامع مسجد سے"فتوے جہاد" جاری کرنے کے بعد کیا. ان کی کوششوں کو دیکھ کر صرف مسلم ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ہندوستانی بھی نہایت تیزی کے ساتھ اس تحریریک میں شامل ہونے لگے.
انقلاب 1857ء کے بانی در حقیقت اس وقت کے علمائے کرام ہی تھے. لہٰذا یہ حقیقی تاریخ کا اظہار ہے کہ تحریک آزادی کے بانی اور محرک مسلمان تھے.
 "ممتاز علماے انقلاب 1857ء" نامی کتاب میں ایک انگریز فوجی افسر "ہنری کوٹن" کے بیان کے ذریعے اس طور پر کی گئی ہے کہ : دہلی دروازہ سے پشاور تک، گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں ہی جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درخت ہوگا جس پر، انقلاب 1857ء کے ردعمل اور اسے کچلنے کے لیے ہم نے ایک، یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو. ایک اندازے کے مطابق تقریباً بائیس ہزار علماے کرام کو پھانسی دی گئی.. مزید ان کے ظلم وستم کی داستان مذکورہ کتاب میں اس طرح درج ہے : مسلم مجاہدین کے نام سے لکھی گئی اس کتاب میں ایک غیر مسلم مؤرخ لکھتا ہے :" ایک اندازے کے مطابق، 1857ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی دی گئیں. جو بھی معزز مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اس کو ہاتھی پر بٹھایا گیا اور درخت کے نیچے لے گئے. اس کی گردن میں پھندا ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھایا گیا. لاشیں پھندے میں جھول گئیں، آنکھیں ابل پڑیں اور زبان منہ سے باہر نکل آئی"-
نہایت ہی درد ناک اذیتوں سے مسلمانوں کو دوچار ہونا پڑا اور بڑی بڑی قربانیاں مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں پیش کی گئی. لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جہاں دوسروں نے مسلمانوں کی قربانیوں کو نظر انداز کیا ہے وہی اپنوں نے بھی جاں باز مسلمانوں کی قربانیوں سے اپنے آنے والی نسلوں کو متعارف کرانے کا کام نہیں کیا ہے. جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچے بھی ہمارے ان جاں باز مجاہدین کے نام اور ان کے کارناموں سے واقف نہیں ہیں.
 اب ان مجاہدین علمائے کرام جنھوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خود پیش پیش رہے۔ جنگِ آزادی کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں، پریشانیاں جھیلیں اور ملک و ملت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔  ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔۔

حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی- جنگ آزادی 1857ء کے محرک اول :


حضرت علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے1857ء کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا.  انگریزوں کے خلاف باقاعدہ جہاد کا فتویٰ دیا، کئی جگہوں کا دورہ کیا اور دہلی پہنچ گئے۔
علامہ فضل حق کے مشورے سے صرف لال قلعہ کی پوشیدہ مجلسوں تک محدود نہیں تھے بلکہ وہ جنرل بخت خاں سے ملے، مشورے ہوئے۔
آخر میں بعد نماز جمعہ دہلی کی جامع مسجد میں علماے کرام و عوام کثیر کے سامنے زبردست تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔ علامہ فضل حق گرفتار ہوئے ، ان پر مقدمہ چلایا گیا ، انگریز ججوں کے سامنے پیش کیے گئے۔ جس مخبرنے عدالت میں حضرت علامہ پر اعتراض پیش کیا تھا آپ کی علمی ہیبت سے لرز اٹھا اور کہنے لگا کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس نے فتویٰ جہاد پر دستخط کیا تھا۔ علامہ نے بلا خوف و خطر انگریز کچہری کو للکارا اور کہا مخبر جو بیان پہلے دے چکا ہے وہی صحیح ہے اور اب میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیا ہے اور جھوٹ بول رہا ہے۔ سنو ! جہاد کا فتویٰ میں نے ہی دیا ہے اور میں اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہوں۔
اس فتوی کی وجہ سے انگریزوں نے علامہ فضل حق خیرآبادی کو دریائے شور(کالا پانی) کی سزا دی۔ جزیرہ انڈمان بھیجے گئے جہاں انگریزوں نے آپ پر آپ کے ہمنواؤں پر سخت ظلم و ستم ڈھائے۔ بالآخر انڈمان میں ہی 12؍صفر 1227ھ کو آپ کا انتقال ہوا۔

حضرت مولانا کفایت علی مرادآبادی :


1857ء سے پہلے آپ کا قیام آگرہ اکبر آباد میں تھا۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔ بریلی شریف کے اطراف میں جہاد کے لیے دورے کیے۔ حویلی مرادآباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علمِ جہاد بلند فرمایا۔ جس طرف آپ کا رخ ہوا برطانوی سامرج کی شکست ہوئی ۔ سلطان بہادر شاہ ظفر نے آپ کو دہلی بلایا اور جہاد کے لیے مشورے کیے۔ آپ نے جنرل بخت خان، شیخ افضل صدیقی، شیخ بشارت علی خاں، مولانا سبحان علی، نواب مجدالدین، مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی کے ساتھ مختلف محاذوں پر انگریزوں کوشکست دی۔ رام پور، مرادآباد کے اکثر معرکے سر کیے۔
آخر کار انگریزوں نے 6؍رمضان 1274ھ/30؍اپریل 1858ء کو اپنے پٹھو کلال فخرالدین اور دیگر دغا بازوں کی سازش کے ذریعہ گرفتار کرکے مرادآباد جیل سے متصل بر سرعام تختہ دار پر لٹکادیا۔ پھانسی کےلیے جس وقت آپ کو لے کر جایا جارہا تھا اس وقت نعت شریف کے یہ اشعار آپ ترنم سے بڑے ہی والہانہ انداز میں پڑھ رہے تھے۔

کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا

ہم سفیرو باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے

بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تنِ بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا

سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک

نعت حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا


مولانا عبد الجلیل علی گڑھی :


تحریک آزادی 1857ء میں مجاہدین نے انگریزوں کو علی گڑھ سے بے دخل کر دیا تو قیادت کا بار مولانا عبد الجلیل علی گڑھی کے حوالے کیا گیا۔ دوبارہ انگریزوں نے علی گڑھ پر چڑھائی کی تو دشمن سے مقابلہ میں بہت سے مجاہدین شہید ہوگئے۔ مولانا عبد الجلیل بھی ان شہدا میں شامل تھے۔

مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی :


مجاہد اعظم مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی 1857ء میں انگریزوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرکے تحریک کے قائد اعظم کی حیثیت سے بخت خان کے دست راست بن کر دہلی پہنچے۔ بخت خان کے مشورے سے علامہ فضل حق نے بعد نماز جمعہ جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر شعلہ بار تقریر کی اور اس کے لیے فتوی جہاد مرتب کیا۔
مفتی صدرالدین آزردہ، ڈاکٹر وزیر خاں، سید مبارک شاہ، احمداللہ شاہ مدراسی نے اس پر اپنے دستخط کیے اور مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت کی۔ آگرہ میں انگریزی استبداد سے ٹکرائے پھر کان پور میں برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑائے، پھر لکھنؤ میں محاذ فتح کیے اور جنرل کولن کیمبل کو دوبارہ شکست دی۔
پھر فیض آباد میں فرنگی سامراج کا ستیا ناس کیا۔ الغرض برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑانے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ تن من دھن سب کچھ ملک و ملت پر نثار کرکے بالآخر شاہ جہاں پور کے میدان کارزار میں داد شجاعت دیتے ہوئے 13؍ذیقعدہ 1275ھ کو جام شہادت نوش فرمایا۔

مفتی صدرالدین خان:

مفتی صدرالدین خان نے جب انگریزوں کا اقتدار بڑھتا دیکھا تو تحریکِ آزادی کا علم اٹھا کر فتویٰ جہاد نشر کیا۔ مجاہدین و اکابرین تحریکِ آزادی کی قیادت کی۔ عظیم الشان کتب خانہ جو زندگی بھر کی تلاش کا حاصل تھا فتوی جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں جائیداد کے ساتھ ضبط ہوگیا۔اس طرح ایک عظ علمی ذخیرہ انگریزوں نے لوٹ لیا اور انھی گرفتارکرلیا۔
جائیدادتو مل گئی لیکن ظالم انگریزوں نے کتب خانہ واپس نہ کیا۔

حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی :


ولادت :

 آپ کی ولادت 9شوال المکرم 1228ھ مطابق 15 اکتوبر 1813ءمیں قصبہ دیوہ ضلع بارہ بنکی میں ہوئی.

جنگ آزادی میں شرکت :

  مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ صدرالصدور کے عہدے پر ترقی پاکر آگرہ جانے کی تیاری میں مصروف تھے ہی کہ مئی میں جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھےاور آپ آگرہ نہ جاکر بریلی شریف اور رام پور میں انقلابیوں کے ہمنوا اور معاون بلکہ سرپرست کی حیثیت سے سرگرم ہوگئے.
 چناں چہ آپ نے 1857ءکی تحریک آزادی میں انگریزوں کے خلاف مجاہدین تحریک کے لیے مالی امداد واعانت کا فتاوی دیا.
پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں: تحریک 1857ءکے شروع ہوتے ہی انگریزوں کے خلاف وہاں(بریلی شریف میں) بڑا جوش و جذبہ تھا اور بڑے خاص انداز سے تیاریاں جاری تھیں. قائدین تحریک حالات کا بالکل اندازہ نہیں ہونے دیتے تھے. انقلاب سے پہلے بریلی میں اس تحریک کے دو ممتاز کارکن موجود تھے،مولوی سرفراز علی اور دوسرے مفتی عنایت احمد کاکوروی ( جنگ آزادی.ص:118،مطبوعہ کراچی )
 کالم نگار میاں عبدالرشید روزنامہ نوائے وقت لاہور رقم طراز ہیں :
آپ (مفتی عنایت احمد کاکوروی ) بریلی میں نواب بہادر خاں روہیلہ کی زیر قیادت، جہاد حریت کی تنظیم کے لیے سرگرم عمل رہے. ان دنوں روہیل کھنڈ بریلی مجاہدین آزادی کا اہم مرکز تھا. اور مولانا احمد رضاخاں بریلوی کے جدامجد، مولانا رضا علی خاں بریلوی اس تحریک کے قائدین میں سے تھے.
مفتی عنایت احمد نے مجاہدین کی تنظیم پر ہی اکتفا نہ کیابلکہ نواب بہادر خاں روہیلہ کے دست راست کی حیثیت سے مختلف معرکوں میں عملی حصہ بھی لیا. (جنگ آزادی نمبر. ماہنامہ ترجمان اہل سنت کراچی، جولائی 1975ء)

گرفتاری :

انقلاب کی چنگاری اڑنے کے بعد تحریک کے مجاہدین کے خلاف انتقامی کار روائیوں کا آغاز ہوا، چناں چہ آپ نے مجاہدین کے لیے مالی امداد و اعانت پر مشتمل جو فتوی دیا تھا وہ انگریزوں کےہاتھ لگ گیا. آپ پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور آپ کو حبس دوام کی سزا سناکر 1274ھ میں جزیرہء انڈمان نیکوبار بھیج دیا گیا .
جزیرہء انڈمان کی آب ہوا اتنی خراب تھی کہ کوئی بھی شخص وہاں جانا پسند نہیں کرتا تھا.
اس سلسلے میں حضرت علامہ فضل حق خیرا آبادی علیہ الرحمہ کا تاءثر نظر قارئین کررہاہوں جوکہ بذات خود بھی اس جگہ پہنچے، جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف حضرت علامہ فضل حق خیرا آبادی نے بھی فتوی جہاد دیا تھا، اس لیے انگریزوں نے انھیں بھی کالا پانی جزیرۂ انڈمان بھیجا تھا، قائدین تحریک آزادی حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی وہاں کی درد ناک آب و ہوا کی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنی آب بیتی لکھتے ہیں :
پھر ترش رو دشمن کے ظلم نے مجھے دریائے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، ناموافق آب وہوا والے پہاڑ پرپہنچادیا. جہاں سورج ہمیشہ سرپر رہتا تھا. اس میں دشوار گزار گھاٹیاں اور راہیں تھی جنھیں دریائے شور (کالا پانی) کی موجیں ڈھانپ لیتی تھیں. اس (جزیرہ انڈما ) کی نسیم صبح بھی گرم و تیز ہوا سے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلال سے زیادہ مضر تھی. اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں اس کا آسمان غموں کی بارش کرنے والا، اس کا بادل رنج و غم برسانے والا، اس کی زمین آبلہ دار، اس کے سنگریزے بدن کی پھنسیاں اور اس کی ہوا ذلت و خواری کی وجہ سے ٹیڑھی چلنے والی تھی. ہر کوٹھری پر چھپر تھا جس میں رنج و مرض بھرا ہوا تھا. میری آنکھوں کی طرح ان کی چھتیں ٹپکتی رہتی تھیں، ہوا بدبو دار اور بیماریوں کا مخزن تھی.
جب کوئی ان ( قیدیوں میں سے)  مرجاتاہے تو نجس و ناپاک خاکروب جو درحقیقت شیطان خناس یا دیو ہوتا ہے اس کی ٹانگ پکڑکر کھینچتاہوا غسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریت کے تودے میں دبا دیتا ہے، نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے.
یہ کیسی عبرت ناک اور الم انگیز کہانی ہے. یہ واقعہ ہے کہ اگر میت کے ساتھ یہ برتاؤ نہ ہوتا تواس جزیرہ میں مرجانا سب سے بڑی آرزو ہوتی اور آچانک موت سب سے تشلی بخش تھی. اور اگر مسلمان کی  خودکشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب وعقاب کا باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی( مسلمان) یہاں مقید و مجبور بنا کر ناقابل برداشت تکالیف نہ دیا جاتا اور ایسی مصیبتوں سے نجات پانا اس کے لیے بڑا آسان ہوتا. ( باغی ہندوستان : ص، 77 تا 79. ناشر: المجمع الاسلامی، مبارک پور. اشاعت، 2011ء)

وصال پرملال :

 رہائی کے دوسال بعد 1279ھ /1862ء میں بحری جہاز کے ذریعے سفر حج پر روانہ ہوئے، قافلے کے امیر آپ ہی تھے، مگر جدہ کے قریب آپ کا جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا. حضرت مفتی صاحب قبلہ بحالت نماز احرام باندھے سمندر کی لہروں کی نذر ہوکر مرتبہء شہادت سے سرفراز ہوئے. انا للہ وانا الیہ راجعون.


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے