Advertisement

ہوڑ سے ہڑبونگ تک از غلام مصطفی نعیمی


ہوڑ سے ہڑبونگ تک !! 



از : غلام مصطفی نعیمی
روشن مستقبل دہلی
١٨ محرم الحرام ١٤٤٤ھ
17 اگست 2022 بروز بدھ


کہتے ہیں وقت پر سلیقے سے کیا گیا کام نوٹ بھی کیا جاتا ہے اور عزت بھی بڑھاتا ہے ۔ لیکن تدبر کے فقدان اور کرنے سے زیادہ دکھنے کی چاہت میں جو ہوڑ شروع ہوتی ہے وہ کب ہڑبونگ میں تبدیل ہوجاتی ہے پتا ہی نہیں چلتا ۔ اس بار کے یوم آزادی پر علما/اہل مدارس/تنطیموں اور مسلم عوام کے درمیان ایک ایسی ہی ہڑبونگ مچی ہوئی تھی کہ جیسے بھی ہو، جس طرح بھی ہو بس کسی طور پر حب الوطنی کا اظہار ہوجائے ۔ محب وطن دکھنے کی ہوڑ میں عوام تو کیا اچھے خاصے اہل علم وفہم بھی حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور خود کو ثابت کرنے کے جنون میں وہ کام تک کر بیٹھے جن سے ان کی دینی حیثیت بھی مجروح ہوئی اور اغیار کی نگاہ میں اپنا وقار بھی کھویا۔

ہڑبونگ کے نمونے


ملک کے تئیں مسلمانوں کی خدمات اور کارناموں سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں ۔ کوئی انہیں ہزار کوششوں کے باوجود مٹا نہیں سکتا ۔ خود کو ثابت وہ کریں جن کا ماضی ان کے حال کے خلاف ہے ۔ اگر اسی پہلو پر متانت و سنجیدگی کے ساتھ فوکس کیا جائے تو اس کے مفید نتائج سامنے آتے اور آئیں گے لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ جسے دیکھو وہ اغیار کے بنائے ہوئے ڈھرّے پر ہی چلنے کی کوشش میں لگا ہے تاکہ اس کی حب الوطنی ثابت ہوجائے ۔ اس بھاگم بھاگ میں جو حرکات سرزد ہورہی ہیں وہ غیرت وخود داری نہیں بلکہ بے حسی اور بے ضمیری کا اظہاریہ ہیں۔
٭ آزاد مارکیٹ دہلی میں ایک مسجد کے اندر یوم آزادی کی تقریب منعقد کی گئی جس میں باصرار ہندو افراد کو لایا گیا اور مہمان خصوصی بھی ایک پنڈت ہی کو بنایا گیا ۔ مدرسے کے طلبہ زمین پر بیٹھے تھے اور ہندو بابا اوپر صوفے پر براجمان تھا۔
٭ ایک دینی ادارے میں حب الوطنی کی نظم میں یہ شعر بھی پڑھا گیا:
"وطن جان وایمان سے افضل ہے۔"
(یعنی ترک وطن کی صورت میں ضیاع ایمان کا خطرہ ہے)
٭ مہراج گنج یوپی کے ایک نسواں مدرسے میں ایک لڑکی سے اسٹیج پر ڈانس بھی کرایا گیا ۔ ادارے کی معلمات و طالبات کے علاوہ کچھ مرد بھی اس ڈانس پارٹی میں موجود تھے۔
(کہنے کو ادارے کا قیام لڑکیوں کو عالمہ فاضلہ بنانے کے لیے ہوا ہے لیکن اہل ادارہ کی حرکات دیکھ کر لگتا ہے مستقبل کی فلمی ایکٹریس تیار کرنے کا ارادہ ہے)
٭ کئی مقامات پر علما کی دین دارانہ موجودگی میں وندے ماترم جیسے شرکیہ نعرے بھی لگائے گئے مگر کسی کو روکنے یا ٹوکنے کی توفیق نہ ہوئی۔
٭ ایک روشن خیال مولانا وندے ماترم کی حمایت میں لکھتے ہیں؛
"وندنا کا معنی عبادت نہیں بلکہ احترام اور سلام کرنا ہے۔"
(بلفظ دیگر وندے ماترم پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے)
٭ ہریانہ کے ایک مدرسے میں بابا رام دیو کو مہمان خصوصی بنایا گیا۔
(یہ وہی بابا ہے جو علانیہ مسلمانوں کی گردن کاٹنے کا اعلان کر چکا ہے)
٭ دیگر کئی مدارس میں بھی ہندو دانش وران کو بطور خاص مہمان خصوصی بنا کر پیش کیا گیا۔
(تاکہ بوقت ضرورت حب الوطنی کی سند رہے)
٭ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے ایک دین دار رشتہ دار نے یوم آزادی پر شربت کا اسٹال لگایا اور پورے دن دیش بھکتی پر مشتمل فلمی گانے بجائے۔
٭ ایک مدرسے میں یہ شعر بھی پڑھا گیا؛
"وطن کی مٹی کو ہم ناپاک نہیں کرتے"
(ممکن ہے شاعر صاحب بول وبراز کرنے پڑوسی ملک جاتے ہوں)
اس کے علاوہ اسکول/کالج والوں کی نقالی میں وہ کام بھی انجام دئے گئے جو کسی طور پر علما/طلبہ اور دین دار افراد کے شایان شان نہیں ہیں ، لیکن وفاداری ثابت کرنے کے جنون میں شرکیہ نعرے اور دین سیکھنے والی لڑکیوں کو نچانے جیسے ایمان سوز اور بے غیرتی کے کام انجام دئے گئے ۔ کیوں کہ جب کوئی چیز اعصاب پر سوار ہوجائے تو دماغ اسے ہر حال میں پورا کرنے میں جٹ جاتا ہے ، بھلے ہی غیروں کا اعتبار حاصل کرنے کے چکر میں دینی حمیت اور غیرت کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔

عزت خودی سے ہے ! 


کیا اب سے چند سال پہلے تک مدارس/علما اور مذہبی تنظیموں کے درمیان اس طرح کی بھاگم بھاگ اور بے جا کسرتیں نظر آتی تھیں ؟
جواب ہے بالکل نہیں!
یعنی موجودہ رویوں کی تبدیلی کسی خاص سبب سے ہوئی ہے ۔ ہمارا ماننا ہے کہ نہ پہلا رویہ درست تھا اور نہ ہی موجودہ رویہ اچھا ہے ۔ پہلے ضرورت سے زیادہ بے اعتنائی برتی گئی اور اب ضرورت سے زیادہ وفاداری دکھانے کی کوشش ہورہی ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ جن لوگوں کو آپ کچھ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اُنہیں آپ کا ماضی نہیں پتا ؟ وہ سب کچھ جانتے ہیں اس لیے آپ کی موجودہ محنتوں کو وہ حب الوطنی نہیں بلکہ گلو خلاصی کی کوشش سمجھ رہے ہیں ۔ اس لیے ایسے مواقع پر سنجیدگی اور مومنانہ غیرت کے ساتھ تقریبات کا انعقاد کریں ۔ میڈیا ساتھ دے تو بہتر ورنہ سوشل میڈیا کے توسط سے ملک کے تئیں اپنی خدمات اور کارناموں کو تاریخ کی روشنی میں اُجاگر کریں ۔ مدارس/علما کی قربانیوں پر سنجیدہ اور مدلل خطابات ہوں۔انداز معروضی اور اسلوب عام فہم رکھیں ۔ کسی بھی طور پر اپنی دینی حمیت اور مومنانہ غیرت کا سودا نہ کریں ۔ دنیوی عزت کے لیے دین وایمان داؤں پر نہ لگائیں کیوں کہ ہماری عزت دنیوی اقتدار سے نہیں مومنانہ کردار سے ہے اگر عزت دنیا کے لیے غیرت ایمانی کا سودا کیا تو سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

تیری زندگی اسی سے، تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُو سیاہی


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے