Advertisement

حافظ ملت خدمات، اثرات اور علمی فتوحات دوسری اور آخری قسط از توفیق احسن برکاتی


 حافظ ملت خدمات، اثرات اور علمی فتوحات


دوسری اور آخری قسط


از : مولانا توفیق احسن برکاتی مصباحی
استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


 خدمات واثرات : 

حضور حافظ ملت شیخ المشائخ مولانا شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے، حضور صدر الشریعہ سے بھی آپ کو خلافت حاصل تھی، جب آپ نے ۱۳۵۳ھ میں ’’باغ فردوس‘‘ دارالعلوم اشرفیہ کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور اس میں حضور صدر الشریعہ، حضور اشرفی میاں علیہما الرحمہ کو مدعو کیا تو حضور اشرفی میاں کے نواسے اور نور دیدہ تلمیذِ امام احمد رضا حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ حضور اشرفی میاں ۱۳۵۳ھ سے اخیر عمر تک دارالعلوم اشرفیہ کے سرپرست رہے، آپ کے وصال کے بعد سرپرستی کی ذمہ داری حضور محدث اعظم ہند نے قبول فرمائی۔ حضور محدث اعظم ہند دارالعلوم کے تعلیمی اور تربیتی نظام سے انتہائی مطمئن تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دونوں صاحب زادگان شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اور سیدہاشمی میاں کو حضور حافظ ملت کی تربیت میںبھیجا، حضور مدنی میاں نے اعدادیہ سے دورۂ حدیث تک کی مکمل تعلیم دارالعلوم اشرفیہ میں حاصل کی۔ سن ۱۹۶۳ء میں وہاں سے آپ کی فراغت ہوئی، علامہ سید مدنی میاں نے حضور حافظ ملت کی صبح وشام کا نظارا کیا ہے، وہ آپ کے درد وسوز اور اخلاص ومجاہدانہ کردار کے چشم دید گواہ ہیں۔ ’’حضور حافظ ملت کی زندۂ جاوید شخصیت‘‘ کے عنوان سے آپ لکھتے ہیں:
’’ملت کا حافظ جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت کی حفاظت میں گزرا، جس نے ملت کی حفاظت فرمائی (۱)تقریر سے (۲) تحریر سے (۳)تدریس سے (۴)مناظرہ کے ذریعہ احقاق حق اور ابطال باطل سے (۵)اپنی زندگی کو اُسوۂ نبی میں ڈھال کر (۶) اپنی درس گاہ علم وادب سے جلیل القدر علما واساتذہ وخطبا واصحاب قلم و مناظرین و متکلمین و مفسرین و محدثین اور اصحاب افتا پر مشتمل ایک خدائی گروہ بنا کر (۷) خانقاہوں میں بیٹھ کر (۸) جامعہ اشرفیہ کے لیے زندگی وقف کرکے (۹)اسٹیج پر رونق افروز ہوکر (۱۰) اپنی درس گاہ علم وادب میں پلنے والے کو اپنی نگاہ فیض سے اس منزل تک پہنچا کر کہ وہ عالمی شہرت کے مالک ہوجائیں۔ المختصر ملت کے حافظ نے ملت کی حفاظت کی ہر ان موثر ذرائع کو استعمال فرما کر جو ملت کی حفاظت کے لازمی وسائل تھے۔‘‘ (ماہ نامہ کنزالایمان، دہلی ،جولائی ۲۰۰۵ء، ص: ۴۶)
شیخ الاسلام کے ان مختصر اور جامع ارشادات نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی دینی خدمات جلیلہ اور فیضان علمیہ کے اثرات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ واشگاف کردیا کہ ان مختصر سے جملوں میں ایک جہان سمٹ کر آیا اورخدمات واثرات کا اجمالی تعارف ہوگیا۔
حضور حافظ ملت کا صرف یہی اہم اور امتیازی کارنامہ نہیں ہے کہ انھوں نے اشرفیہ قائم فرمایا۔ اس کے لیے جلیل القدر ماہر اساتذہ کی ٹیم جمع فرمائی، نصاب تعلیم و نظام تعلیم کو بہتر بنایا، میدان تدریس، تصنیف، بحث ومناظرہ تقریر وخطابت میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ فرمایا بلکہ سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دین کی خدمت اور قوم کی ترقی کے ہر میدان کے لیے افراد کی تعیین فرمائی، شخصیت سازی کا فریضہ انجام دیا، تحریک اشرفیہ نے صرف ایک خطے کو متاثر نہ کیا بلکہ اہل سنت وجماعت کے ارباب علم ودانش، اصحاب تحقیق اور عوام وخواص کے لیے ایک عمدہ، دور رس تاثر چھوڑا، مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ کے افکار کی ترویج ، تعلیمات کی تبلیغ اور تحقیقات کی اشاعت کے لیے علما کو راغب کیا، صدر الشریعہ ومفتی اعظم ہند علیہما الرحمہ کی نشان دہی پر اس میدان کے لیے جان باز تیار کیے اور انھیں کام دے کر اس مشن کو آگے لے جانے کی تلقین کی۔
جس طرح امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ نے دینی خدمات کی اور مختلف میدانوں میں اپنے تلامذہ اور خلفا کی ایک جماعت کو دین کا فوجی بنا کر میدان کار زار میں تعینات کیا، درس وتدریس ہو، فتویٰ نویسی ہو، تحریر وتقریر ہو، سیاست وسماجیات ہو، بحث ومناظرہ ہو، انتظامی امور کی قائدانہ صلاحیتوں کا مناسب استعمال ہو ،غرض کہ متعدد محاذوں پر اپنے شاگردوں اور خلفا کی ٹیم روانہ کی، دونوں شہزادگان، ملک العلماء، صدر الافاضل، صدر الشریعہ، محدث اعظم ہند، محسن ملت، مبلغ اسلام، شیر بیشۂ اہل سنت وغیرہم بے شمار نام ہیں اور ہزاروں ان ناموں سے جڑے ہوئے دینی کام۔ گویا امام احمد رضا نے دینی فتوحات وخدمات علمیہ کے لیے ایک فوج تیار کردی تھی اور مذہب اہل سنت وجماعت کو استحکام مل رہا تھا، جس کے اثرات آج بھی باقی ہیں اور ان شاء اللہ عزوجل یہ تسلسل قائم و باقی رہے گا، حضور حافظ ملت کی ذات بھی اسی سلسلۃ الذہب کی ایک نمایاں کڑی تھی اور آپ نے بھی دین کی خدمت کے مختلف محاذوں پر اپنے تلامذہ ومتوسلین کی ٹیم ارسال کی اور اسلام وسنیت کی بقاے دوام اور ترویج واشاعت اور خدمت علم نبوی کے لیے مکمل دور اندیشی کے ساتھ نئی نئی جہات کو دریافت کیا اور باقاعدگی کے ساتھ افراد کا انتخاب فرمایا، خود بھی کتابیں تحریر کیں، معارف حدیث، الارشاد، المصباح الجدید، فتاویٰ عزیزیہ، ارشاد القرآن، انباء الغیب، فرقہ ناجیہ، حاشیہ شرح مرقاۃ، یہ سب آپ کے رشحات قلم کی یادگار ہیں۔
 ماہ نامہ اشرفیہ کا اجرا تحریر و صحافت کے میدان میں ایک بڑا ہی اہم اور افادیت سے بھرپور کارنامہ ہے، مولانا بدرالقادری مصباحی [ہالینڈ]، مولانا ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی[ الٰہ آباد] ، حضرت قاری محمد یحییٰ اعظمی، مولانا عبدالمبین نعمانی مصباحی کی ادارت میں جس نے تحریر وقلم کے میدان میں بے پناہ خدمات پیش کیں، اب ما ہر قلم مولانا مبارک حسین مصباحی تقریباً بیس برس سے ماہ نامہ اشرفیہ کے مدیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور اپنے قلم زرنگار سے مختلف موضوعات کو مالا مال کررہے ہیں۔ ماہ نامہ اشرفیہ نے اب تک کئی خصوصی نمبرات شائع کیے ہیں جو اپنی جگہ پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، مثلاً حافظ ملت نمبر، مجاہد ملت نمبر، صدر الشریعہ نمبر، پیغمبر اعظم نمبر، انوار حافظ ملت نمبر، تعلیمی کنونشن نمبر، غریب نواز نمبر، جشن شارح بخاری نمبر، فقیہ اعظم نمبر، سیدین نمبر، جنگ آزادی ۱۸۵۷ء نمبر قابل ذکر ہیں۔
جامعہ اشرفیہ میں ۱۹۵۹ء میں سنی دارالاشاعت قائم ہوا جس کے تحت فتاویٰ رضویہ جلد سوم تا جلد ہشتم کی طباعت واشاعت کا عظیم کارنامہ دیا جا چکا ہے۔ انجمن اہل سنت واشرفی دارالمطالعہ کا قیام اور اس کا دورِ عروج بھی جامعہ اشرفیہ کے باذوق طلبہ کا عظیم کارنامہ ہے، جس کی لائبریری اور بارہ ربیع الاول کا جلوس عید میلاد النبی آج بھی یادگار ہے۔
آپ کے تلامذہ میں شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی، بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ ارشد القادری، محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، نصیر ملت علامہ نصیر الدین قادری، شیخ الاسلام علامہ سید مدنی میاں اشرفی، ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی، مولانا وارث جمال قادری ،مولانا بدرالدین احمدر ضوی، سید محمد جیلانی محامد اشرفی، علامہ محمد احمد مصباحی، علامہ بدرالقادری مصباحی، علامہ یٰسین اختر مصباحی، علامہ قمر الزماں اعظمی، علامہ عبدالمبین نعمانی قادری، علامہ عبداللہ خاں عزیزی، علامہ عبدالشکور مصباحی وغیرہم یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی جگہ آفتاب و ماہ تاب ہیں اور ہندو پاک کے اہل علم جن کی علمی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں ان حضرات نے نہ صرف درس وتدریس، تصنیف وتالیف میں نمایاں کارنامہ انجام دیا، بلکہ ملک وبیرون ملک ان کی دعوتی خدمات کا دائرہ وسیع ہے، مختلف تعلیمی اداروں کے قیام، تحریری واشاعتی مراکز کا قیام ،مساجد وتربیتی مراکز کا قیام ان کی مساعی جمیلہ سے عمل میں آیا، پاکستان میں حضرت مفتی ظفر علی نعمانی مصباحی بانی دارالعلوم امجدیہ کراچی، نیپال میں مفتی جیش محمد برکاتی، کراچی ہی میں شہزادۂ صدر الشریعہ علامہ قاری رضاء المصطفیٰ اعظمی، انگلینڈ میں علامہ قمر الزماں اعظمی، ہالینڈ میں علامہ بدرالقادری مصباحی، مختلف ممالک میں علامہ ارشاد القادری، مدینہ منورہ میں علامہ افتخار احمد قادری، گھوسی میں علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، چریاکوٹ میں علامہ عبدالمبین نعمانی وغیرہم جیسے فرزندان اشرفیہ دینی وعلمی کاموں میں مصروف ہیں۔ ان حضرات نے مدراس قائم کیے، مساجد بنوائیں، رسائل وجرائد کا اجرا کیا ،کتابیں لکھیں، امامت وخطابت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، تدریس وافتا میں مشغول ہیں۔
بالخصوص افکار امام احمد رضا کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں فرزندان اشرفیہ کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ فتاویٰ رضویہ کی طباعت، جد الممتار کی اشاعت، سوانح اعلیٰ حضرت، ماہ نامہ تجلیات ناگپور کا امام احمد رضا نمبر، ماہ نامہ المیزان ممبئی کا امام احمد رضا نمبر، امام احمد رضا کی فقہی بصیرت، امام احمد رضا اور تصوف، امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں، امام احمد رضا اور رد بدعات ومنکرات، امام احمد رضا کا محدثانہ مقام، عشق رضا کی سرفرازیاں، مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا، فن تفسیرمیں امام احمد رضا کا امتیاز، افکار رضا، تذکرۂ رضا، معارف کنزالایمان، ارشادات اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا کے ایمان افروز وصایا، جیسی اہم اور مستند ومحقق کتابیں فرزندان اشرفیہ اور حضور حافظ ملت کے خوشہ چینوں نے خاص امام احمد رضا کے افکار وتحقیقات پر تصنیف کیں اور اس باب رضویات میں اولیت کا سہرا اپنے سر سجایا، اور آج بھی تقریر وتحریر، تصنیف وتحقیق کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری ہے اور مصباحی برادران اپنا علمی فیضان عام کررہے ہیں۔
جامعہ اشرفیہ کے زندہ دل اور مخلص ذمہ داران نے ۱۹۹۲ء میں ’’مجلس شرعی ‘‘ کے نام سے ایک بورڈ قائم فرمایا تاکہ وقت کے مفتیان کرام اور محققین عظام کی ٹیم بیٹھ کر امت مسلمہ کو درپیش مختلف لاینحل مسائل کے حل کے لیے بحث ومذاکرہ کرے اور کسی خاص نکتے پر اتفا ق رائے سے فیصلہ ہوسکے، اس کے تحت مختلف موضوعات پر ۱۹۹۳ء سے ٢٠١٩ء تک چھبیس کامیاب ترین فقہی سمینار منعقد کیے جاچکے ہیں، یہ بھی تدوین فقہ حنفی کی بہت بڑی خدمت ہے جو بے حد سراہے جانے کے قابل ہے، اس کی تقلید میں اب تک کئی سمینار بورڈ تشکیل دیے جا چکے ہیں اور ہندو بیرون ہند اپنی اپنی جگہ کامیاب سمینار منعقد کروارہے ہیں، اس میں اولیت اشرفیہ کے ارباب حل وعقد کو حاصل ہے۔ 
یکم جمادی الآخرہ ۱۳۹۶ھ مطابق۳۱ ؍مئی ۱۹۷۶ء بروز دو شنبہ گیارہ بج کر ۵۰ منٹ پر شب میں حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا، نماز جنازہ آپ کے صاحب زادے سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مولانا شاہ عبدالحفیظ عزیزی دام ظلہ العالی نے پڑھائی۔ جامعہ اشرفیہ کے صحن میں آپ کامزار مبارک مرجع خلائق ہے۔ یہ شمع اگر چہ بجھ گئی لیکن ہزاروں چراغ جو اس سے جل اٹھے ہیں وہ تو جل رہے ہیں، علم کی روشنیاں عام ہورہی ہیں اور فیضان حافظ ملت سے اکتساب کا سلسلہ جاری ہے: 

جس نے پیدا کیے کتنے لعل وگہر
حافظِ دین و ملت پہ لاکھوں سلام


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے