Advertisement

حافظ ملت خدمات، اثرات اور علمی فتوحات از توفیق احسن برکاتی


 حافظ ملت خدمات، اثرات اور علمی فتوحات

پہلی قسط 


از : مولانا توفیق احسن برکاتی مصباحی
استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔


یقینِ محکم اور عملِ پیہم کے ساتھ جب کوئی بندۂ خدا مذہب وملت کی خدمت کا جذبۂ بیکراں لے کرمستقبل کے لیے منصوبہ سازی کرتا ہے اور اپنے بنائے ہوئے خاکوں میں رنگ بھرتا ہے تو اس کی یہ رنگ آمیزی رائیگاں نہیں جاتی، اس کا جذبۂ اخلاص اس کی قوتِ ارادی کو مہمیز دیتا ہے اور وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتا ہے۔کسے پتہ تھا کہ چودہویں صدی ہجری کی دوسری دہائی میں ہندوستان کی ایک گم نام بستی میں جنم لینے والا بچہ محض چالیس برس کی عمر میں ایک تاریخی انقلاب برپا کردے گا اور بر صغیر ہندو پاک کی دینی وعلمی فضا اس کے نام کی نغمہ سنجی سے زعفران زار ہوتی رہے گی۔
 نام ہے عبدالعزیز، لقب ہے جلالۃ العلم، حافظ ملت، محدث مرادآباوی اور کنیت ابوالفیض ہے۔ 
حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کی ولات بروز دو شنبہ مبارکہ ۱۳۱۳ھ/ ۱۸۹۴ء کو ضلع مرآد باد اتر پردیش کے موضع بھوج پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی۔ والد ماجد حافظ غلام نور کی نگرانی میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتب جناب عبدالمجید بھوج پوری سے پڑھنے کے بعد جامعہ نعیمیہ مرآدباد میں داخلہ لیا، وہاں متوسطات پڑھیں، تین سال وہاں رہے پھر اعلیٰ تعلیم ومنتہی کتابوں کی تحصیل کے لیے چند رفقا کے ساتھ صدر الشریعہ علامہ مفتی محمدامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [مصنف بہارِ شریعت] کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے ۔ان رفقا میں مولانا غلام جیلانی میرٹھی، قاضی شمس الدین جون پوری، مولانا قاری اسد الحق اور حافظ ضمیر حسن صاحبان کا نام آتا ہے۔ شوال ۱۳۴۲ھ میں مدرسہ معینیہ ، اجمیر شریف میں داخلہ لیا اور یہاں رہ کر صدر الشریعہ اور دیگر اساتذۂ ذوی الاحترام کی بارگاہ فیض میں اکتساب علم کرتے رہے، حدیث شریف کی تکمیل حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں کی، ۱۳۵۱ھ میں دارالعلوم منظر اسلام، بریلی شریف سے سند ِفراغت حاصل کی۔
 آپ کے اساتذہ میں مولوی عبدالمجید بھوج پوری، مولوی حکیم مبارک اللہ ، حافظ حکیم نور بخشاور حکیم محمد شریف کے ساتھ مولانا عبدالعزیز خاں فتح پوری، حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلی، مولانا محمد یونس سنبھلی، مولانا وصی احمد سہ سرامی، صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی، مفتی امتیاز احمد، مولانا عبدالحئی افغانی، مولانا سید امیر پنجابی، مولانا حافظ سید حامد حسین علیہم الرحمہ کے اسما قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ قابل احترام علمی سرچشمے ہیں جن کی نگاہِ التفات نے حافظ ملت علیہ الرحمہ کو ملت کی نگہبانی کا سلیقہ بخشا، علمی فیضان سے مالا مال کیا، فکروشعور کو بالیدگی عطا کی، قوت ارادی کو صحیح سمت میں استعمال کرنے کا حوصلہ دیا۔ بالخصوص صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی نگاہ کرم اور خصوصی عنایت نے آپ کو علوم وفنون کا بحر ذخار بنا دیا، آپ نے بارہا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔ایک بار فرمایا: ’’میں نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے سب کچھ سیکھا، یہاں تک کہ کھانا، پینا اور چلنا بھی میں نے حضرت سے سیکھا۔‘‘مزید ارشاد فرمایا: 
’’میں بہت گرم چائے اس لیے پیتا ہوں کہ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ بھی بہت گرم چائے پیتے تھے۔‘‘ 
شوال۱۳۵۲ھ میں صدر الشریعہ کے حکم پر مبارک پور اعظم گڑھ اترپردیش میں خدمت دین کا مقصد لے کر پہنچے اور اپنے استاد محترم کے اعتماد وووقار کو ذرہ بھرٹھیس نہ پہنچائی، پوری دل جمعی کے ساتھ میدان عمل کے اس دشوار ترین سفر کو جاری رکھا اور بے طرح کامیابی حاصل کی، اس چھوٹے سے مدرسے کو جہاں معیار تعلیم فارسی، نحومیر، پنج گنج تک تھا ،تھوڑے ہی عرصے میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں تبدیل کردیا، جس کا سنگ بنیاد ۱۳۵۳ھ میں حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں اور حضور صدر الشریعہ علیہما الرحمہ کے مقدس ہاتھوں رکھا گیا، جس میں محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ لیکن جب دارالعلوم کی یہ عمارت اپنی تنگ دامنی پر شکوہ کناں ہوئی تو قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع خطہ زمین ایک شہر ستان علم بسانے کے لیے حاصل کی اور ربیع الاول ۱۳۹۲ھ مطابق مئی ۱۹۷۲ء میں ’’الجامعۃالاشرفیہ‘‘ کا جشن تاسیس منایا گیا۔ جو اشرفیہ کی تاریخ میں تاریخ ساز’’ تعلیمی کانفرنس‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی اس کانفرنس کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے، جہاں سے تحریک اشرفیہ کو ایک نئی جہت ملتی ہے۔
۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کو منعقد کی جانے والی اس تاریخی کانفرنس میں بے شمار مشائخ واساتذہ وعلما کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری، سید العلماء سید آل مصطفی قادری برکاتی مارہروی، مجاہد ملت علامہ شاہ حبیب الرحمن قادری اڑیسوی، شمس العلما قاضی شمس الدین جون پوری، خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی، مفتی مالوہ مولانا محمد رضوان الرحمن فاروقی، سلطان الواعظین علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری قدس سرہم جیسی عبقری شخصیات نے شرکت فرمائی اور الجامعۃ الاشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں حضور سید العلماء نے فرمایاتھا:
’’اشرفیہ اور حافظ ملت کے ساتھ آلِ رسول ہے اور جس کے ساتھ آلِ رسول ہے اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ ضرورت پیش آئی تو آل رسول اپنے مریدین ومخلصین کو ساتھ لے کر اس کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرے گا۔‘‘
اور شہزادۂ امام احمد رضا علامہ مصطفی رضا نوری کی یہ دعا آج بھی اشرفیہ کی بنیادوں کو روحانی توانائی دے رہی ہے:
’’دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کو ایک عظیم سنی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی نیک کوشش کا میں خیر مقدم کرتا ہوں اور حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ انھیں اپنے عظیم مقاصد میں کامیاب فرمائے اور حضرات اہل سنت کو توفیق بخشے کہ وہ اشرفیہ عربی یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ لے کر دین کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت پوری فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔‘‘
خانقاہ برکاتیہ کے نامور قلم کار پروفیسر سید جمال الدین اسلم مارہروی رقم طراز ہیں:
’’بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت کا آستانۂ علم وافتا شیخ کامل حضور مفتی اعظم کی قیادت میں ایک خانقاہ کی صورت میں منتقل ہوگیا، غالباً شیخ کامل نے اپنی حیات میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور کی سرپرستی فرما کر، اس کے احیا میں بھرپور تعاون عطا فرماکر، اسے حیات نو دے کر یہ طے فرمادیا تھا کہ یہ دارالعلوم اہل سنت کا علمی مرکز بنے گا اور بریلی شریف میں آستانہ رضویہ اہل سنت کی ایک مرکزی خانقاہ کی صورت میں مقبول عام ہوگی، مرشدان سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی روحانی عظمتوں کے طفیل اللہ رب العزت ان دونوں علمی اور روحانی آستانوں کو ہمیشہ قائم رکھے، آمین۔‘‘ (پیغام رضا، مفتی اعظم نمبر، ص: ۳۳۵، ۳۳۶)
جب یہ سلسلہ اور توانا ہوا تو نومبر ۱۹۷۳ء میں دوسری تعلیمی کانفرنس نے اشرفیہ کو شہرت وناموری کے اوج ثریا پر پہنچا دیا، یہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کا خلوص اور بین العلماء والمشائخ ان کی مقبولیت ہی تو تھی کہ خانقاہ برکاتیہ، خانقاہ اشرفیہ اور خانقاہ رضویہ کے سجادہ نشینان ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جذبۂ دروں کے ساتھ اشرفیہ کو اپنے فیضان سے مالا مال کررہے تھے ،حضور صدر الشریعہ کی دعائیں قدم قدم پر ان کی معاونت کررہی تھیں۔
اس سلسلے میں حضور حافظ ملت کے رفقا وتلامذہ کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ مثلاً حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی، بحر العلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، مولانا محمد شفیع اعظمی، مولانا قاری یحییٰ مبارک پوری، علامہ ارشد القادری وغیرہم اور اہل مبارک پور کی قربانیاں آج بھی تاریخ اشرفیہ اور تحریک اشرفیہ کے لیے اپنے وجود کا مسلم احساس کرارہی ہیں، جسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا، ایسا نہیں ہے کہ ایک مکتب مدرسے میں اور ایک مدرسہ دارالعلوم میں اور دارالعلوم الجامعۃ الاشرفیہ میں یوں ہی تبدیل ہوگیا اور ہر عہد میں حالات سازگار ہی رہے ہوں۔ قدم بہ قدم در پیش ہونے والے خطرات اور رکاوٹ پیدا کرنے والی وجوہات کو اگر قلم بند کیاجائے تو یہ مضمون طویل ہوجائے گا، اس لیے سردست اسے قلم زد کرتے ہوئے اتنا ضرورعرض کریں گے کہ ہزارہا طوفان آئے ، ان گنت مشکل گھڑیاں پیش ہوئیں، خطرات کی آندھیاں چلیں لیکن حضور حافظ ملت، آپ کے رفقا، تلامذہ، معاونین کے پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش پیدا نہ ہوئی، بالآخر آپ نے اپنے ذہن میں جس یونیورسٹی کا خاکہ مرتب کیاتھا اور جو خواب پورے ہوش وحواس کی حالات میں دیکھا تھا اسے زمین پر اتار دیا اور وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ذرا وہ خواب بھی ملاحظہ کرلیں، کیا آفاقی ذہن تھا، کیسی دور بینی ودور اندیشی تھی، واہ! سبحان اللہ!
’’میں نے دارالعلوم اشرفیہ کو ترقی کی منزل پر پہنچانے کے لیے "الجامعۃ الاشرفیہ" قائم کیا، اشتہار میں احباب نے بلا میری راے کے اس کا ترجمہ بریکٹ میں عربی یونیورسٹی کردیا، نہ میں نے عربی یونیورسٹی قائم کی، نہ کرسکتا ہوں۔ الجامعۃ الاشرفیہ سے میرا مقصد درس نظامی کے منتہی طلبہ کو ہندی، انگریزی، عربی زبان کا صاحب قلم و صاحب لسان بنانا ہے تاکہ وہ ہندو بیرون ہند مذہب حق اہل سنت کی اشاعت کرسکیں، خیال تو بہت زمانہ سے تھا لیکن ہر کام کا وقت ہے، وقت آیا، ہوا، ہورہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہوگا۔‘‘ (ملفوظات حافظ ملت، ص:۱۲۹)
ان جملوں کے بین السطور سے آپ کا جذبہ دروں صاف دکھائی دے رہا ہے اور آپ کے تعلیمی نظریات پر بھی کما حقہ روشنی پڑ رہی ہے ۔الجامعۃ الاشرفیہ کے جشن تاسیس کے زریں موقع پر دارالعلوم اشرفیہ میں ابناے قدیم کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی موثر اور رقت انگیز لہجہ میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’میں نے آج تک کوئی کاغذی اخبار واشتہار تو نہیں شائع کیا (حضرت مفتی محمدشریف الحق امجدی، بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ ارشد القادری، علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، مولانا قمر الزماں اعظمی اور دیگر موجود ممتاز شاگرد علما کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) یہ ہیں اشرفیہ کے وہ زندۂ جاوید اخبارات واشتہارات جنھیں ہم نے بڑے اہتمام کے ساتھ خون جگر کی سرخیوں سے شائع کیا ہے۔‘‘ (ملفوظات حافظ ملت، ص: ۱۳۳، ۱۳۴)
 حافظ ملت قدس سرہ العزیز نے تحریک اشرفیہ کا جس مشن کے تحت آغاز فرمایا تھا اللہ رب العزت کے فضل وکرم اور مشائخ کے فیضان خصوصی سے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور آپ اپنے مقصد دینی میں کامیاب ہوئے، اس سلسلے میں اہل مبارک پور سے آپ کا وہ خطاب بڑا فکر انگیز اور تشکر آمیز ہے جو روانگی حج کے وقت فرمایا تھا:
’’برادران اسلام! میری زندگی کا اہم مقصد دارالعلوم اشرفیہ ہے، میں نے اس کو اپنا مقصد زندگی قرار دیا ہے۔ ۳۵ سالہ زندگی کا بڑا قیمتی وقت اس کی خدمت میں صرف کیا ہے،آپ حضرات کی مخلصانہ خدمات اور بے مثال قربانیوں سے یہ دارالعلوم اس منزل پر پہنچا کہ اپنی خصوصیات میں امتیازی شان رکھتا ہے، پورے ہندوستان پر اس کی خدمات کا سکہ ہے، ملک کے طول وعرض سے خراج تحسین وصول کرتا ہے، یہ مذہب وملت کا قلعہ ہے، بڑی وزنی اور شان دار درس گاہ ہے، اب یہ خادم جارہا ہے آپ کے اشرفیہ کو آپ کے سپرد کرتا ہے آپ اس کو اپنا مقصد زندگی قرار دیں اور اپنی زریں خدمات سے ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہیں، پورا خیال رکھیں کہ اشرفیہ کے کسی شعبہ میں تنزل وانحطاط نہ ہونے پائے، بلکہ آپ کی خدمات سے یہ آگے بڑھتا رہے، خداوند کریم آپ حضرات کو جزائے خیردے، شاد وآباد رکھے، آمین۔‘‘ (ماہ نامہ اشرفیہ ، مبارک پور،حافظ ملت نمبر،جون تا اگست ۱۹۷۸ء، ص: ۲۲۸)
قارئین کرام! ذرا ایک ایک لفظ پر غور کریں اور حضور حافظ ملت کی خدمات دینیہ کی شفافیت، مقصد زندگی، درد وسوز، انقلاب آفریں اقدام، دوسروں کی معاونت کی سراہنا، اس تاریخی قلعے کو ناقابل تسخیر بنانے کی حد درجہ کاوشات آپ کا جذبۂ دینی، اشرفیہ کے لیے آپ کی مجنونانہ جد وجہد کا نقشہ نگاہوں میں محفوظ رکھیں۔آپ نے متعدد باراس خیال کا اظہار فرمایا :’’میں نے اپنے کو ہمیشہ دارالعلوم اشرفیہ کا خادم جانا، خدمت ہی اپنا کام ہے، عہدہ اور اختیارات کا استعمال میرے خیال میں نہیں۔‘‘ایک انسان جب ایسا اخلاص اور پاک دل رکھتا ہے اور عہدہ ومنصب وسربراہی سے بے نیاز ہوکر خدمت دین وملت کو اپنا خاص مشغلہ بنالیتا ہے تو رحمت الٰہی اس کی دست گیری فرماتی ہے اور غیب سے اس کی مدد ہوتی ہے۔

جاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے