Advertisement

سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم از غلام مصطفی نعیمی


 سِنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم  ! !



از : غلام مصطفی نعیمی
روشن مستقبل دہلی
٢ ذوالقعدہ ١٤٤٣ھ
3 جون 2022 بروز جمعہ


پچھلے کچھ وقت سے بھارتی سنیما نئی تاریخ گڑھنے کی مہم میں لگا ہوا ہے۔تاریخ گری کی اس مہم کا مقصد  مسلم بادشاہوں کے سہارے اسلامی تہذیب وثقافت کو داغ دار اور گھناؤنا ثابت کرنا ہے۔تاکہ موجودہ نسل کو یہ سمجھانے میں آسانی ہو کہ مسلمان مذہبی اعتبار سے ہی خوں خوار، بے رحم، موقع پرست، ظالم اور بدکردار ہوتے ہیں۔آج ریلیز ہونے والی فلم "سمراٹ پرتھوی راج" بھی اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔میڈیائی رپورٹ کے مطابق یہ فلم "پرتھوی راج راسو" نامی اس کتاب پر مشتمل ہے جسے پرتھوی راج چوہان کے درباری شاعر "چند بَردائی" نے لکھا تھا۔اسی کتاب کو بنیاد بنا کر پرتھوی راج چوہان کی زندگی کو سنیمائی پردے پر اتارا جارہا ہے۔سابقہ فلموں کے پیش نظر یقین کامل ہے کہ اس فلم میں بھی مسلمانوں کی کردار کشی میں کوئی کمی باقی نہیں رکھی گئی ہوگی۔

پرتھوی راج راسو کیا ہے؟


ہندی ادب کے مطابق "راسو" ایک صنف سخن ہے۔جس میں شاعر اپنے ممدوح کی بہادری، خوب صورتی اور کردار کی عظمت بیان کرتا ہے۔راسو میں خصوصیت کے ساتھ دو چیزوں کا بیان ہوتا ہے، اول بہادری، دوم حسن وجمال۔ہندو مؤرخین کے نزدیک راسو صنف سخن تاریخی اعتبار سے مشکوک اور اس میں درج نصف حقائق سچائی سے پرے ہوتے ہیں۔شاعر محض اپنی عقیدت کی بنا پر اپنے ممدوح سے بہت سارے واقعات منسوب کردیتا ہے۔
پرتھوی راج راسو بھی اسی صنف سخن کی ایک ضخیم کتاب ہے جس میں کل 2500 صفحات ہیں۔یہ کتاب پرتھوی راج کے درباری شاعر چَند بَردائی سے منسوب ہے۔کتاب میں 69 ابواب ہیں۔کتاب کی تکمیل چند بَردائی کے بیٹے جَلہاڈ نے کی تھی۔کتاب کی اصل زبان کے بارے میں ہندو مؤرخین کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ہندو مؤرخین کے نزدیک پرتھوی راج راسو کی تصنیف 13 ویں صدی میں ہوئی اس زمانے میں ہندی زبان کا وجود آج کی طرح نہیں تھا۔اس زمانے میں سنسکرت، پراکرت اور اَپ بِھرش نامی زبانیں رائج تھیں۔لیکن راسو ان رائج زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں نہیں ہے۔اس کتاب میں مختلف زبانوں کے الفاظ دکھتے ہیں۔بعض مؤرخین اسے بِرج بھاشا کا ابتدائی روپ اور جَین مُنی "جِن وِجے" اسے اَپ بھرش زبان مانتے ہیں۔ڈاکٹر دشرتھ جیسے کچھ مؤرخین کا ماننا ہے کہ راسو کی اصل زبان ڈِنگلی(قدیم راجستھانی زبان) ہے۔جبکہ پنڈت رام چندر شکل، ڈاکٹر شیام سندر داس، ڈاکٹر اُدے نارائن تواری جیسے محققین کے نزدیک راسو کی اصل زبان نہ تو قدیم ہندی ہے، نہ اَپ بھرش، نہ ڈِنگل بلکہ اس کی اصل زبان پِنگل ہے جو برج بھاشا کی ابتدائی شکل تھی۔

کچھ غلط حقائق کی نشان دہی


آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ پرتھوی راج راسو، "راسو کاویہ" صنف سخن کی کتاب ہے۔جس کی معتبریت ہمیشہ مشکوک رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے ہندو مؤرخین نے پرتھوی راج راسو کو غیر مستند کتاب قرار دیا ہے۔ان مؤرخین میں گوری شنکر اوجھا، کَوی راج مُراری دان، شیامل دان، مُنشی دیوی پرساد، آچاریہ رام چندر شُکل، ڈاکٹر وولر، موتی لال منیریا، ہزاری پرساد دِویدی، اگرچَند ناہٹا، منی جِن وِجے اور سُنیت کمار چٹرجی جیسے محققین شامل ہیں۔جن کے نزدیک اس کتاب میں درج سارے حقائق یا نصف حقائق خلاف واقع اور فرضی ہیں۔چوہان کی بہادری بیان کرنے میں ایسے واقعات کثرت سے بیان کیے گئے ہیں جن کا تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اس کذب بیانی کو افسانہ کہیں یا شاعر کی عقیدت، مگر قصیدہ خوانی کی اس دُھن میں نہایت بے رحمی سے حقائق کا خون کیا گیا ہے۔ذیل میں ہم ان چند حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں جو پرتھوی راج راسو میں درج کیے گیے ہیں:
🔹راسو کے مطابق شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج کے درمیان چار جنگیں ہوئیں۔جب کہ مؤرخین کے نزدیک ان کے درمیان صرف دو جنگیں ہوئیں۔ایک 1191ء میں جب کہ دوسری جنگ 1192ء میں ہوئی۔بعض جوشیلے مؤرخین تو غوری اور چوہان کے درمیان 17 جنگوں کا قول بھی کرتے ہیں حالانکہ اگر ان سے ثابت کرنے کو کہا جائے تو بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کیوں کہ ہندو مؤرخین کے مطابق بھی پرتھوی راج کا اصل زمانہ حکومت 1180ء سے 1192ء پر مشتمل ہے، یعنی کل 12 سال۔اب اگر غوری اور چوہان کے درمیان ہر سال ایک جنگ مانی جائے تو 17 سال کا زمانہ 1197 میں جاکر پورا ہوتا ہے، یعنی پرتھوی راج کی موت کے پانچ سال بعد تک!
اب کون سمجھ دار اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ایک شخص اپنی موت کے پانچ سال بھی جنگ میں برسرِ پیکار تھا؟
٭پرتھوی راج چوہان اور راجہ جے چند کے درمیان کسی جنگ کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے جب کہ راسو میں دونوں کے درمیان جنگ بتائی گئی ہے۔
٭راسو کے مطابق شہاب الدین غوری پرتھوی راج چوہان کو قید کرکے غزنی لے گیا تھا۔حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے، تقریباً تمام ہی مؤرخین کے نزدیک پرتھوی راج چوہان کبھی غزنی نہیں گیا۔
٭راسو کے مطابق شہاب الدین غوری کی موت پرتھوی راج کے ہاتھوں اس وقت ہوئی جب غوری چوہان کو غزنی لے گیا۔غزنی پہنچ کر چوہان کو اندھا کردیا گیا لیکن چوہان نے آواز سن کر نشانے لگانے کی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے بھرے دربار میں شہاب الدین غوری کو مار گرایا۔
٭راسو کے مطابق پرتھوی راج کی موت اسی کے درباری شاعر چند بَردائی کے ہاتھوں ہوئی، اور چند بَردائی بھی پرتھوی راج کے ہاتھوں مارا گیا۔حالانکہ تاریخ اس کے بالکل برعکس ہے۔
یہ ایسے دعوے ہیں جنہیں سنجیدہ ہندو مؤرخین نے بھی تسلیم نہیں کیا۔تاریخ کی معتبر کتب طبقات ناصری، تاریخ فرشتہ وغیرہ میں لکھا ہے کہ پرتھوی راج کو دوسری جنگ ترائن میں دریائے سرس وتی کے کنارے اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ ہزیمت کے بعد میدان جنگ سے نکلنے کی کوشش میں تھا۔
دوسرے یہ دعوے اس لیے بھی مضحکہ خیز مانے جاتے ہیں کہ شہاب الدین غوری پرتھوی راج کی موت کے 12 سال بعد تک بھی زندہ رہے اور مختلف جنگوں میں فتوحات بھی حاصل کیں۔یہاں یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ کتاب مذکور کے مطابق مصنف اور پرتھوی راج ایک دوسرے کے ہاتھوں غزنی میں مارے گیے، تو دربار غوری کے حالات اور خود ان کے مرنے کی داستان کس نے لکھی، جب کہ لکھنے والا خود مرچکا تھا؟
یہ وہ چند حقائق ہیں جن سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مذکورہ کتاب شاعرانہ تخیلات اور رطب ویابس کا مجموعہ بھر ہے جس سے اپنا دل بھلے ہی خوش ہوجائے مگر تاریخ نہیں بدل سکتی۔

سنیما والے یہ سچ دکھائیں گے؟


موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف ہندو عوام کو مختلف طریقوں سے ورغلایا جارہا ہے جن میں سے ایک تعدد ازواج بھی ہے۔تعدد ازواج کے خلاف اس لیے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو عیاش، بدکردار اور عورتوں کا رَسِیا ثابت کیا جاسکے۔حالانکہ ہندو تاریخ میں بھی ایک سے زائد بیویوں کا چلن رہا ہے خود پرتھوی راج چوہان کی 13 بیویاں تھیں۔ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسلم بادشاہوں کی کردار کشی کرنے والے فلم ساز کیا اپنی فلم میں ہندو راجہ کی 13 بیویاں دکھائیں گے؟
پرتھوی راج چوہان کی 13ویں بیوی سَنیوگِتا تھی۔جسے قنوج کے راجہ جےچند کی بیٹی بتایا جاتا ہے۔پرتھوی راج نے سَنیوگِتا کو شادی کے مَنڈَپ سے اس وقت اُٹھا لیا تھا جب کہ اس کے باپ نے بیٹی کی شادی کے لیے سویمبر(स्वयंवर) منعقد کیا تھا۔کیا کسی کی بیٹی کو شادی کی محفل سے اٹھا لانا اچھی روایت ہے؟
ممکن ہے کہ کوئی اس کے جواز میں یہ دلیل دے کہ سَنیوگِتا خود پرتھوی راج سے عشق کرتی تھی، اس کے باوجود بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ لڑکی کی رضامندی کے باوجود، والدین کی مرضی کے خلاف اسے گھر سے لے آنا کہاں تک درست ٹھہرایا جاسکتا ہے؟
اسے مذہبی اینگل نہیں بلکہ ایک باپ کی نگاہ سے دیکھیں کہ اس طرز عمل سے ایک باپ کی عزت وغیرت کیسے پامال ہوتی ہے۔ کیا کوئی غیرت مند باپ اسے برداشت کر سکتا ہے کہ کوئی اس کی نگاہوں کے سامنے اس کی بیٹی کو اٹھا لے جائے؟
سنیما کی روش سے پہلے ہی معاشرے میں بے حیائی، آوارگی اور جرائم کے جراثیم پھیلے ہوئے ہیں، اب تاریخ کے نام پر سنیما ملک میں بسنے والی قوموں کے درمیان اختلاف و انتشار کا ماحول بنا کر امن وامان خراب کرنا چاہتا ہے۔گذشتہ دنوں کشمیر فائلز نامی فلم نے کس طرح امن وامان کو نقصان پہنچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر فلم ساز اپنی جیبیں بھرنے کے چکر میں مسلسل متنازع ایشوز پر فلمیں بنا رہے ہیں جس سے ایک طرف فرقہ پرست جماعتیں مسلمانوں کے خلاف فتنہ پھیلا رہی ہیں تو دوسری جانب کچھ سیاسی جماعتیں اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں مست ہیں۔اس مستم مستی میں نقصان صرف ملک اور ساتھ میں اٹھنے بیٹھنے والے ہمسایوں کو ہورہا ہے۔ہندو دانش وران کو چاہیے کہ وہ آگے آکر اس روش کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ مفاد پرست فلم سازوں اور نفرت کی کاشت کرنے والوں سے ملک کو بچایا جاسکے۔
اس کے علاوہ مسلم وکلا/سیاست دانوں/سوشل ورکروں کو چاہیے کہ وہ ایسے متنازع ایشوز پر بننے والی فلموں کے خلاف سینسر بورڈ اور سپریم کورٹ میں شکایت کریں۔فلم سازوں/ایکٹروں/کہانی نویسوں کے خلاف مقدمات کریں تاکہ وہ مسلمانوں کی کردار کشی پر مبنی فلمیں/ڈرامے بنانے کی سوچ بھی نہ سکیں۔


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

مزید پڑھیں :



ایڈیٹر : مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے