Advertisement

عناصر اربعہ پر فاروقی حکومت از شہباز احمد مصباحی


 عناصر اربعہ پر فاروقی حکومت 



از : شہباز احمد مصباحی (ارول) 
جامعۃ المدینہ–––پڑاؤ ،بنارس 
یکم محرم الحرام، بروز اتوار ۱۴۴۴


  خلیفۂ دوم، امیرالمومنین، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عہد حکومت اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے۔ آپ کے دور میں اسلام کو عظیم فتوحات نصیب ہوئیں اور تقریباً ۲۲ لاکھ مربع میل پر اسلامی ریاست پھیل گئی ۔ فاروقی دور خلافت، قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہیں؛ بلکہ عناصر اربعہ (آگ، پانی، مٹی، ہوا) پر بھی تھی۔ ہم اختصار کے ساتھ انھیں بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔

  آگ پر حکومت:

امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ ایک بار مدینہ منورہ کے گھروں میں آگ لگ گئی جو بجھنے کا نام نہ لیتی تھی، لوگ بہت زیادہ پریشان ہوگئے اور بارگاہ فاروقی میں حاضر ہوکر اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک رقعہ پر لکھا ”یانار! اسکنی باذن اللہ “ یعنی: اے آگ ! اللہ عزوجل کے حکم سے رک جا۔ اور وہ رقعہ لوگوں کو دیا کہ اسے آگ میں ڈال دو ۔ لوگ وہ رقعہ لے کر گئے اور جیسے آگ میں ڈالا تو آگ فوراً ٹھنڈی ہوگئی۔ ( تفسیر کبیر، پ:15،الکہف تحت الایۃ:9، ج:7،ص:433، بحوالہ: فیضان فاروق اعظم ،ج:1،ص: 639،ناشر: المدینۃ العلمیہ)
 

 پانی پر حکومت:

قدیم دور میں دریائے نیل (مصر) سوکھ جاتا تو دوبارہ اسے جاری کرنے کے لیے حسین و جمیل دوشیزہ کو آراستہ کرکے دریا کے سپرد کردیا جاتا تو وہ رواں ہوجاتا ۔ دور فاروقی میں جب مصر فتح ہوا تو حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گورنر مقرر کیا گیا، آپ نے اس بے ہودہ رسم سے منع کیا اور امیرالمومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے دریائے نیل کے نام ایک خط لکھا، جس کا مضمون کچھ یوں ہے:
 ” اے دریائے نیل! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہمیں تیری کوئی ضرورت نہیں اور اگر تو اللہ عزوجل کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ عزوجل کے نام سے جاری ہوجا“۔  جب یہ خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو وہ اسی وقت جاری ہوگیا اور آج تک جاری ہے۔(جامع کرامات اولیاء، للشیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی، ج:1،ص: 157،158،ملخصاً، ناشر: برکات رضا ،پوربندر ،گجرات)
  جس طرح امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خشکی کے حاکم ہیں، ویسے ہی آپ کی حکمرانی کا پرچم دریاؤں کے پانیوں پر لہرا رہا تھا کہ دریاؤں کی روانی بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فرماں بردار تھی ۔ جس طرح آپ کا حکم لوگوں پر چلتا تھا بعینہ ویسا حکم سمندر پر بھی چلتا تھا، جس طرح لوگ آپ کو حاکم سمجھتے اور آپ کے فرامین پر عمل پیرا ہوتے تھے ویسے ہی سمندر بھی آپ کو اپنا حاکم سمجھتا اور آپ کے فرمان پر عمل پیرا ہوتا تھا ۔(فیضان فاروق اعظم،ج:1،ص:637،ناشر: المدینۃ العلمیہ،دعوت اسلامی) 

  مٹی پر حکومت: 

ایک بار امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دور خلافت میں مدینہ طیبہ میں شدید زلزلہ آیا اور زمین لزرنے لگی ۔ آپ کچھ دیر ذکر الٰہی اور اس کی حمد و ثنا کرتے رہے مگر زلزلہ ختم نہ ہوا۔ آپ کو جلال آگیا اور اپنا دُرہ زمین پر مار کر فرمایا: اے زمین ٹھہر جا، کیا میں نے تیرے اوپر انصاف نہیں کیا ہے ؟ یہ فرماتے ہی فوراً زلزلہ ختم ہوگیا اور زمین ساکن ہوگئی ۔ (جامع کرامات اولیاء ،ج:1،ص: 158)
  حکیم الامت، حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ایک عورت کا تیل زمین پر گرگیا، وہ کھڑی رو رہی تھی، زمین تیل چوس چکی تھی، وہاں سے حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گزرے، رونے کی وجہ پوچھی اور کوڑا لے کر زمین کو مارنے لگے کہ اے زمین ! کیا میرے دور خلافت میں تونے اس کا تیل غصب کیا ؟ تیل واپس کر، زمین نے تیل واپس اگل دیا، عورت نے برتن میں بٹور لیا۔ (مرأۃ المناجیح، ج:8 ص:320، بتغییر قلیل، ناشر:ادبی دنیا،دہلی)

   ہوا پر حکومت:

  صحابی رسول، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جہاد کے لیے ایک لشکر حضرت سیدنا ساریہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی سپہ سالاری میں روانہ فرمایا۔ جنگ شباب پر تھی، اس وقت امیر المومنین فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ منبر رسول پر جلوہ افروز تھے، وہیں سے لشکر اسلامی کے سپہ سالار سے فرمایا:” یا ساریۃُ الجبل یعنی اے ساریہ ! پہاڑ کو اپنی آڑ بنالو“۔ کچھ دنوں بعد جب لشکر واپس ہوا تو  بارگاہ فاروقی میں حاضر ہوکر عرض کیا، امیرالمومنین ! کفار سے جب گھمسان کی لڑائی ہوئی، اس درمیان اچانک ایک آواز آئی” یاساریۃ الجبل “ تو فوراً ہم پہاڑ کے پیچھے ہوگئے، پھر اللہ رب العزت نے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کردیا ۔( دلائل النبوۃ ، ج:6، ص:370، ناشر: دارالکتب العلمیہ بیروت)
  حدیث مذکورہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی حکومت ہوا پر بھی تھی اور وہ ان کے کنٹرول میں تھی، اس لیے کہ آوازوں کو دوسرے کے کانوں تک پہنچانا درحقیقت ہوا کا کام ہے کہ ہوا کے  ہی لہر سے آوازیں لوگوں کے کانوں کے پردے سے ٹکراتی ہیں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب چاہا قریب والوں کو اپنی آواز سنادی اور جب چاہا تو سینکڑوں میل دور والوں کو بھی سنادی، معلوم ہوا کہ ہوا بھی آپ کے تابع فرمان تھی۔ 
  حاصل گفتگو یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  نے امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بڑی شانیں عطا کی تھی ۔ جس طرح آپ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے، ویسے ہی آپ کی حکمرانی مٹی، آگ ہوا اور پانی پر بھی تھی ۔
   اللہ کریم  سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار پر رحمت و نور بارش برسائے اور ان کے فیوض و برکات سے ہمیں حصہ عطا فرمائے ۔آمين بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے