Advertisement

اہل سنت میں ملی قیادت کا فقدان ایک لمحۂ فکریہ ! مفتی محمد ایوب مصباحی


اہل سنت میں ملی قیادت کا فقدان ایک لمحۂ فکریہ ! 

    

از: مفتی محمد ایوب مصباحی 
پرنسپل دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج، سلطان پور، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یو۔ پی۔ انڈیا۔
رابطہ : 8279422079 




      آقاے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ۔ " کہ تم میں سے ہر ایک محافظ ہے اور ہر ایک اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس کی جاۓ گی۔ جو شخص جس ذمہ داری کو سنبھالے ہوئے ہے اس سے اس کے بابت سوال ہوگا کہ اس کا حق ادا کیا یا نہیں۔ 
        عصر حاضر میں اہل سنت و جماعت  کی کشتی قیادت کس بھنور میں پھنسی ہے وہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں۔ جس سے استفادہ کرکے سیاسی جماعتیں مسلمانوں کا خوب استحصال کررہی ہیں، اور انھیں ان کے دام مکر وفریب سے بچانے والا دور تک کوئی  نظر نہیں آتا۔ آۓ دن ان پر مظالم کے شدید پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن کوئی حق کی آواز اٹھانے والا نہیں۔

     اہل سنت میں ملی قیادت کے فقدان کی وجہ ؟ 

     تجزیاتی طور پر اہل سنت وجماعت میں ملی قیادت کے فقدان کی کئی وجوہات ہیں:

                  ١۔ تعلیم سے بے توجہی : 

          طلبہ کا رجحان تعلیم کی اور کم ہے۔ کچھ پڑھتے بھی ہیں تو ان کا نصب العین اس قدر کہ بہتر امام بن جائیں یا کسی ادارے میں پڑھانے والے مدرس ہوجائیں یا پھر عالم و فاضل کے سندیں حاصل کرکے باہم فخر و مباہات کریں خواہ علمی لیاقت ہمارے  اندر قطعی نہ ہو اس سے ہمیں  کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
         موجودہ نصاب تعلیم عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر نہیں ہے۔ مثلا اس زمانے کی ضرورت یہ ہے کہ روایت ودرایت  میں کامل دسترس اور ید  طولی حاصل ہو، ساتھ ہی ساتھ عصر علوم پر بھی کام گرفت ہو، لیکن عصری مضامین کا نصاب تعلیم میں ذکر تک نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو اقل قلیل !! 
        آزادی کے بعد سے علما نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے میں بھلائی سمجھی، یا تقسیم ہند کے وقت بے شمار چوٹی کے علما پاکستان چلے گئے جو بچے انھوں نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا اور بلکلیہ امتناع و اجتناب کیا، اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ آزادی کے وقت لوگوں نے علما کو کثرت سے پھانسی کے پھندوں پر جھولتے دیکھا تھا، یا پھر جمہوری قانون میں سیاست میں اپنی حصہ داری کو غیر ضروری سمجھا۔

                       ٢۔ تعلیم سے اعراض  

       یہ بات تقریبا ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب فرشتوں سے زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنانے کی مشاورت کی تو فرشتے بولے کیا ایسے کو خلیفہ بناۓ گا ؟ جو زمین میں فساد اور خوں ریزی کرے، حالاں کہ تیری تسبیح اور پاکی کا اعلان کرنے کے لیے ہم کافی ہیں۔ارشاد ہوا : "جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔" ملائکہ کا یہ دعوی زبانی تھا جب کہ ان کے دلوں میں یہ بات مضمر تھی کہ ہم ہی خلافت کے مستحق ہیں اور اللہ تعالی ہم سے زیادہ معزز یا ہم سے زیادہ علم والا کسی شخص کو پیدا نہیں فرماۓ گا۔ اللہ تعالی نے ان کی اس مخفی بات کو اپنے علم لازوال سے جان لیا اور آدم علیہ السلام کو تمام اشیا کے نام سکھاۓ حتی کہ ساتھ لکھ زبانوں کا علم دے دیا، ہر چیز کا نام  سکھایا، اس کا مسمی تک دکھا دیا اور اس کے کام سے بھی آگاہ فرمادیا، اور اس کے بعد ارشاد فرمایا : ان کے نام بتاؤ ! فرشتوں نے کہا: پاک ہے تیری ذات ہمارے پاس تو وہی علم ہے جو تو نے دیا ہے، تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ پھر آدم علیہ السلام سے مخاطب ہوتے ہوۓ فرمایا: "تم ان کے نام بتاؤ، جب آدم علیہ السلام نے ان کے نام بتا دیے، اور ہر ایک کا کام بھی؛ تو آدم علیہ السلام کو زمین کا خلیفہ اور نائب مقرر فرمادیا۔ (تفسیر جلالین مع صاوی، ) ۔
          اس واقعہ پر سرسری نظر ڈلوانے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ملائکہ و آدم  کے درمیان خلافت کے استحقاق کا خط امتیاز علم رکھا اور جب آدم علیہ السلام کی ملائکہ پر علم کی برتری و فوقیت ثابت ہوگئی تو خلافت کا تاج زریں آپ کے سر پرسجا دیا، اور تاقیام قیامت نسل انسانی کو یہ پیغام دے دیا کہ تمام اعزازات و مراتب تخت وتاج اور خلافت و قیادت اس کے لیے ہے جو علم و حکمت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ ہو، دینی ودنیاوی علوم وفنون کا گوہر نایاب ہو اور علم و حکمت میں سب سے بڑھ کر ہو۔ 

               ٣۔ تعلیم وتدریس میں تساہلی

     باستثناے چند قریب ہر مدرسہ تعلیمی انقلاب پیدا کرنے کو تیار نہیں، جس کی چند وجہیں ہیں کہ ادارے میں قلیل وظیفے دے کر غیر موزوں اساتذہ کا انتخاب کرلیا جاتا ہے جس سے وہ انتھک جدوجہد  نہیں کرپاتے اور اپنا فریضہ پوری ذمہ داری سے ادا نہیں کرپاتے، اساتذہ خدا کا خوف اپنے دل میں رکھ کر اپنا فرض منصبی ادا نہیں کرتے، گھر سے چلیں گے تو دو چار کام گھر کے ساتھ لائیں گے اور جیسے ہی منتظم و صدر کی نظر ہٹی فورا یہ بھی کنارہ کش ہو گئے نہ کوئی جواب دہی کا دل میں کھٹکا، نہ طلبہ کے مستقبل کی فکر، اور نہ ہی خوف خدا !      

       ٤۔ نصاب تعلیم کا غیر معیاری ہونا

        موجودہ دور میں مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم معیاری اور وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مد نظر نہیں ہے، مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم میں منطق اور فلسفہ اس وقت شامل کیے گئے تھے جب فرقہ معتزلہ عروج پر تھا، اور آج بھی داخل نصاب ہیں جب کے اس فرقے کا نام و نشان تک نہیں۔ وغیرہ۔ 

       ٥۔ طالبان علوم نبویہ میں علمی ذوق کا فقدان

       ہمارے اسلاف کا معاملہ یہ تھا کہ مطالعہ کرنے بیٹھے تو معلوم ہی نہ ہوتا کتنی رات ہو گئ جب آذان فجر کی صدا کانوں میں گونجتی تب پتا چلتا کہ وقت فجر ہوگیا ہے جیسا کہ محدث اعظم پاکستان کے بارے میں منقول ہے۔ ایک آج  کے طلبہ ہیں ! مدرسے کا انتخاب کرنے سے قبل درج ذیل چیزیں تلاش کرتے ہیں:
       ١۔ مدرسہ شہر میں ہے یا گاؤں میں ؟ 
       ٢دیکھنے بھالنے میں کیسا ہے ؟ 
       ٣۔ گھومنے پھرنے کی سہولت کیسی ہے ؟ 
       ٤۔ کھانے پینے کا بندوبست کیسا ہے ؟
       ٥۔ پڑھنے، پڑھانے والے کتنے اور کون کون ہیں ؟ 
      جب کہ مذکورہ بالا امور کا اعلی تعلیم کے حصول میں کوئی دخل نہیں جیسا کہ یہ اظہر من الشمس ہے۔ 
      ہمارے اسلاف کے مطالعے میں انہماک کا عالم یہ تھا کہ ناشتہ کرتے کرتے اس قدر نوش فرما گئے کہ وہی ان کے انتقال کا سبب بنا۔ ان کے علم و تقوے کا عالم یہ تھا کہ ساٹھ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتابیں تصنیف فرما گئے وہ بھی پیہم روزوں کی حالت میں۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ کے بابت مرقوم ہے۔ ان کی جد وجہد کا عالم یہ تھا کہ جب تکرار اسباق کرنا ہوتی تو غیر ذوی العقول حیوانات سے بحث ومباحثہ کرکے استفادہ کرتے جیساکہ درجنوں کتابوں کے مصنف علامہ میر سید شریف جرجانی کے بارے میں ملتا ہے۔ جب کہ آج کے طلبہ داخلے سے قبل  یہ تحقیق کرتے ہیں کہ جماعت میں کتنے رفقاے درس ہیں؟ 

        ٦۔ ہماری قیادت صرف اشتہار ومنبر تک! 

      یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہماری قیادت صرف جلسوں، اور اشتہاروں تک محدود ہے۔ ہم میں سے کوئی قائد اعظم کے لقب سے ملقب ہوگا، کوئی قائد ملت کا قلادہ اپنے گلے میں ڈالے ہوگا۔ اور زیر قیادت تو آپ کو ڈھیروں مل جائیں گے ! قائد اہل سنت بھی کئی ہوسکتے ہیں جو آپ کو رات کی سیاہی میں زرق برق لباس میں اسٹیج سے طلوع ہوتے نظر آئیں گے اور جیسے ہی رات اندھیروں کو اپنے دامن میں سمیٹے گی تو پھر آپ کو یہ قیادت تلاش کرنے سے بھی نہ ملے گی۔
       بےشمار سلف صالحین قیادت کے زیور سے مرصع
       امام ابو یوسف ہمیشہ بغداد کے قاضی رہے
         ١۔ امام ابویوسف علیہ الرحمہ کو کون نہیں جانتا، آپ کو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے شرف تلمذ حاصل ہے اور امام محمد کے استاد و شیخ ہیں آپ اپنی جلالۃ علمی کے باعث خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں بغداد کے قاضی منتخب کیے گئے اور  اور تا دم مرگ اس منصب پر فائز رہے۔ جیساکہ حاشیہ شرح عقود رسم المفتی مطبوعہ زکریا دیوبند میں ہے:
          " قولہ کابی یوسف ھو القاضی الامام یعقوب بن ابراہیم بن حبیب المقدم عن اصحاب الامام الاعظم ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی ولی قضاء بغداد فلم یزل بھا حتی مات سنۃ ۱۸۳ فی خلافۃ ہارون الرشید (ص: ۵) 
       ۱- علامہ بدر الدین عینی صاحب عمدۃ القاری شرح بخاری مصر کے قاضی القضاۃ رہے۔ 
        ٢۔ صاحب عمدۃ القاری شرح بخاری و رمز الحقائق شرح کنز الدقائق علامہ بدر الدین عینی منصب قضا پر فائز رہے۔ جیسا کہ حاشیۂ شرح العقود میں ہے:
      " قولہ والعینی شرح الکنز ھو المسمیٰ برمز الحقائق لمحمد بن احمد بن موسی بن احمد بن حسین بن یوسف بن محمود قاضی القضاۃ ولد  فی مصر۔"
    صاحب "کافی" حاکم شہید بخارا کے قاضی اور خراسان کے وزیر تھے۔ 
     ٣۔ حاکم شہید جن کی مشہور کتاب کافی، امام محمد کی چھ  کتابوں : مبسوط، زیادات، سیر صغیر، سیر کبیر ، جامع صغیر  اور جامع کبیر جن کی روایتوں کو روایت ظاہرہ کہا جاتا ہے کی معتبر شرح ہے ۔ آپ بخارا کے قاضی تھے اور صاحب خراسان الامیر المجید نے اپنا وزیر مقرر کر لیا تھا۔ جیسا کہ امام اجل خاتمۃ المحققین علامہ ابن عابدین شامی اپنی مشہور کتاب عقود رسم المفتی میں رقم طراز ہیں:
      "والکافی ھذا ھو کافی الحاکم الشہید العالم الکبیر محمد بن محمد بن احمد بن عبد اللہ، ولی قضاء بخارا ثم ولاہ الامیر المجید صاحب خراسان وزارتہ۔" (عقود رسم المفتی، ص:١٠٤، مطبوعہ:زکریا دیوبند) ۔ 
    
         شارح ہدایہ شمس الدین حریری دمشق کے قاضی القضاۃ تھے۔
    ٤۔ شارح ہدایہ شمس الدین حریری عالم، فاضل، عارف مذہب تھے آپ دمشق کے قاضی منتخب کیے گیے اور سرداری آپ پر ہی ختم ہوگئی، منصف مزاج اور بارعب تھے۔
    شرح عقود رسم المفتی میں ہے:
     رأیت فی بعض کتب المتأخرین نقلا عن ایضاح الاستدلال علی ابطال الاستدلال للقاضی القضاۃ شمس الدین الحریری احد شراح الھدایۃ۔"
       اس کے تحت حاشیہ میں ہے:
       "وفی الفوائد محمدبن عثمان بن ابی الحسن بن عبد الوھاب شمس الدین المعروف بابن الحریری اخذ عن ابن المعلم اسماعیل القرشی عن الجمال محمود الحصیری وکان عالما فاضلا فقیھا عارفا بالمذہب انتھت الیہ الریاسۃ فی زمانہ وتولی قضاء دمشق۔" (شرح عقود رسم المفتی مع حاشیہ ص: ١٥٣) 
      علاوہ ازیں بے شمار فقہا و مشائخین نے منصب قضا سنبھالا اور قوم کے قائد و رہنما بن کر خوب خدمت خلق کی، لوگوں کی ضروریات اور مسائل کا خیال رکھا؛ سیاست، قیادت اور حکومت ، اسلام کا حصہ ہے۔ صحابہ کرام کی تاریخ کے اوراق اس پر چشم دید گواہ ہیں ، خلفاے راشدین نے جس قدر کام کیا، اور اسلامی ریاستوں کا قیام اور اسلامی فتوحات جس قدر ہوئیں وہ آج تک نہ ہوئی، خلافت عثمانیہ کا دور آپ کی نگاہوں میں ہوگا، مسلمانوں نے تقریبا تین بر اعظموں پر 600/سال حکومت کی اور پوری دنیا کے قائد تصور کیے جاتے رہے اور بے پناہ اسلام کو سربلندی اور سرخ روئی حاصل ہوئی۔ 
       ہم نے یہاں صرف آٹے میں نمک کے برابر قائدین و قضاۃ کا تذکرہ کیا کہ یہ مقالہ اپنے دامن میں اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ جملہ قضاۃ و حکام کا احاطہ کرسکے، قاضی بیضاوی، قاضی تقی الدین، قائد جنگ آزادی علامہ فضل حق خیرابادی، علامہ عنایت احمد کاکوروی، مولانا کفایت علی کافی مرادابادی وغیرہ جیسی نامور شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے کردار وعمل سے امت کی پاسبانی فرمائی، اور تادم مرگ دین وملت کی اشاعت میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک دے کر شجر اسلام کی ابیاری فرمائی۔ 
      آج حالات گونا گوں ہیں مسلمانوں میں، بالخصوص اہل سنت وجماعت میں کوئی قائد و رہنما دور تک نظر نہیں آتا۔ نہ ہمارے پاس کوئی حاکم ہے جو اسلامی احکام کا نفاذ کرکے اسے فروغ دے، نہ کوئی عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ ہائی کورٹ کا محامی وقاضی جج ہے جو اسلامی احکام میں مداخلت کے وقت صحیح فیصلہ کرسکے، طلاق ثلاثہ اور کرناٹک حجاب معاملہ آپ کی نگاہوں میں ہے۔ نہ  کوئی وکیل و ایڈووکیٹ ہے جو مسلمانوں کی آواز انصاف کے تئیں بلند کر سکے، نہ صحافتی ادارہ، نہ صحافی جو صحیح رپورٹنگ اور خبر رسانی کرسکے، نہ ہمارا کوئی بنک جو معیشت وکروبار کو استحکام ودوام بخش سکے، اور مسلمانوں کو سود کے کاروبار سے نجات دے سکے، اور سواے چند کے نہ ہی ایسے تعلیمی ادارے کہ اپنے یہاں سے قابل ترین افراد فارغ کرکے صحافت، وکالت، وزارت کے عہدوں پر فائز کرسکے، انھیں D_M, S_D_M, بناکر ملی وسماجی فلاح و بہبود میں پیش رفت کا کارنامہ انجام دے سکیں اور قوم کا معیار بلند ہوسکے، اور ان کی عظمت رفتہ واپس آجاۓ !!
       ان سب کے لیے جہد مسلسل، continue struggle, استقلال، عزم مصمم  درکار ہے، ان سب کے لیے انا کو تہ تیغ کرنا پڑے گا اور اہل سنت کو اپنی شیرازہ بندی، اتفاق واتحاد کرنا ہوگا تب کہیں جاکر ہم قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے کے موزوں ہوں گے، یا ایک دو جو بھی قیادت کا حق ادا کررہے ہیں یا ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کم ازکم انھیں کی اتباع وپیروی لازم کرنا ہوگی، اور اپنا ایک قائد اور رہنما تسلیم کرنا ہوگا؛ یاد رہے میدان محشر میں بھی بنا قائد کے کام نہ بنے گا۔ ارشاد ربانی ہے :
       یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (بنی اسرائیل) 
       یاد کرو اس دن کو جس دن ہم ہر شخص کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(یعنی قائد کے ساتھ) 
        یہاں امام سے مراد قائد ہے لیکن اتنی گنجائش نہیں کہ تفسیری حوالے نقل کیے جائیں مگر قیادت شرعی اور سچی ہو۔ 

       بیرسٹر اسد الدین اویسی ایک بہترین قائد ! 

        اہل سنت و الجماعت یا تو اپنا کوئی قائد مستعد کریں یا پھر اویسی صاحب کی قیادت کے سامنے سر تسلیم خم کرلیں اور انھیں اپنا سیاسی قائد اور رہنما مان لیں اس لیے کہ ان میں حق کی آواز بلند کرنے کا حوصلہ ہے ان کی تعلیم اتنی مضبوط ہے، ملک کے مسائل پر وہ نظر رکھتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے زیور سے آراستہ ہیں، شہرت کا بھی انھیں کوئی لالچ نہیں نہ پیسے کی انھیں ضرورت ہے ان کی اپنی معاشی حالات بہت بہتر ہے۔ 
         ہمیں چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں، متواتر محنت و مشقت کریں اور مدارس کو دینی وعصری علوم کا سنگم بنائیں۔ تاکہ قیادت و سیاست ہمارا مقدر بنے۔



مزید پڑھیں :



ایڈیٹر: مولانا محمد مبین رضوی مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے